رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔

گزشتہ 100 سال فلسطینیوں کے لیے کسی بھی طور پر اچھے نہیں رہے۔ چند تاریخ دانوں کے بقول فلسطینیوں کی مشکلات کا آغاز 103 برس قبل اس بالفور ڈیکلیریشن کے ساتھ ہوا جس کے تحت اسرائیلی یہودیوں کو یہودی عوام کے لیے ایک قومی وطن قائم کرنے کا حق دیا گیا تھا۔

یہ وہ وقت تھا جب فلسطین کی کُل آبادی میں صرف 10 فیصد یہودی تھے، لیکن اس نکتے کو خاطر میں ہی نہیں لایا گیا بلکہ اس نکتے پر نہ تو 1920ء میں اس وقت خاص توجہ دی گئی جب یہ علاقہ برطانیہ کے زیرِ حفاظت آیا اور نہ ہی 1948ء میں اس وقت کوئی اہمیت دی گئی جب اسرائیلی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ آج تک اس نکتے کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔

اب تو یہودی قبضے اور اس کی بڑھتی آبادی کو 70 سال سے زائد وقت گزر گیا اور اس پورے عرصے میں فلسطینیوں کو سکھ اور چین کے چند دن بھی نصیب نہیں ہوسکے ہیں۔

چند ہفتے پہلے صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے فلسطینیوں سے رائے لیے بغیر ہی ان کے لیے امن منصوبہ پیش کیا۔ یہ منصوبہ پہلے سے پسے ہوئے فلسطینیوں کو مزید نقصان پہنچانے کے لیے کافی تھا لہٰذا انہوں نے بلاتاخیر اس منصوبے کو مسترد کردیا۔

برابری کی بنیاد پر مذاکرات کی کوششوں کے فقدان کے بیچ حماس جیسے فلسطینی گروہ اسرائیلی فوجی اہداف کو مختلف طریقوں سے نشانہ بناتے ہوئے نظر آئے۔ حال ہی میں اسرائیلی ڈیفنس فورس (آئی ڈی ایف) نے یہ دعوٰی کیا کہ حماس کے ہیکرز نے اسرائیلی فوجیوں کے اسمارٹ فونز کو ہدف کا نشانہ بنایا ہے۔

ترجمان آئی ڈی ایف کے مطابق ہیکرز نے مرد فوجی اہلکاروں کی توجہ اور دلچسپی حاصل کرنے کے لیے نوجوان خواتین کی تصاویر استعمال کی تھیں۔ ہیکرز نے (خود کو خواتین ظاہر کیا اور پُرکشش تصاویر استعمال کرتے ہوئے) مختلف جعلی سوشل میڈیا پروفائلز کے ذریعے فوجی اہلکاروں سے دوستی قائم کرنے کی کوشش کی۔ جب کوئی فوجی اہلکار جھانسے میں آجاتا تو انہیں یہ بہانہ بناکر ایک لنک سے فون ایپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے کہا جاتا تھا کہ چونکہ وہ خواتین تارک وطن ہیں اور انہیں عبرانی زبان نہیں آتی لہٰذا اس چیٹ ایپلیکیشن کی مدد سے انہیں فوجی اہلکاروں سے رابطہ رکھنے میں آسانی ہوگی۔

بظاہر متعدد فوجی اہلکاروں نے ان ایپلیکیشنز میں سے کوئی نہ کوئی ایپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کرلی تھی۔ کئی ہفتوں بعد جاکر اسرائیلی انٹیلی جنس کو اس بات کا اندازہ ہوا کہ یہ ایپلیکیشنز متعدد اسرائیلی فوجی اہلکاروں کو ہدف بنا رہی ہیں۔ ایپلیکیشن کے ڈاؤن لوڈ ہونے پر اسمارٹ فون میں ایک ایسا وائرس داخل ہوجاتا جو فون میں محفوظ تمام معلومات تک رسائی حاصل کرلیتا۔ اس کے علاوہ اس وائرس کے ذریعے اسمارٹ فون کے مالک کو پتا چلے بغیر دُور سے ہی اسپیچ اور کیمرا فنکشن میں ساز بازی، ویڈیوز کا حصول وغیرہ بھی ممکن ہوجاتا تھا۔

اس طریقے سے ہیکرز کو خفیہ سیکیورٹی تفصیلات تک رسائی حاصل ہوجاتی تھی۔ آئی ڈی ایف کے مطابق کئی ماہ قبل ہیکنگ کے اس عمل کا انکشاف ہوا جس کے بعد فوجی اہلکاروں کو فونز میں سے تمام ایپلیکیشنز ہٹانے کے لیے کہا گیا۔

آئی ڈی ایف نے اس حملے کا الزام حماس سے منسلک فلسطینی ہیکرز پر عائد کیا۔ بقول اسرائیلی افسر، ’ورچؤل دنیا میں کیے گئے حملوں کے نتائج حماس کو حقیقی دنیا میں بھگتنا ہوں گے‘۔ بڑے پیمانے پر میڈیا کی زینت بننے والا یہ واقعہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ حماس پہلے بھی مبیّنہ طور پر اسرائیلیوں کے خلاف سائبر حملے کرتا رہا ہے۔

گزشتہ برس مئی میں بھی اسرائیلی حکومت نے حماس کی جانب سے سائبر حملے کا دعوٰی کیا تھا۔ اس وقت اسرائیلی حکومت نے حملے کی تفصیلات جاری نہیں کیں اور اس کے ردِعمل میں فلسطینی علاقوں بالخصوص حماس کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا تھا۔

2016ء میں بھی اسرائیل پر سائبر حملہ کیا گیا تھا، اس وقت ہیکرز نے اسرائیلی ٹی وی شو ’بگ برادر‘ کی نشریات کو ہدف بنایا اور اس میں دہشتگرد حملوں کی فوٹیجز شامل کردیں جن میں ناظرین کو بتایا گیا کہ یہاں کوئی جگہ محفوظ نہیں اور وہ یہ ملک چھوڑ دیں۔

بلاشبہ ہیکنگ ایک جرم ہے اور اس کو فروغ یا اس کی ترغیب دینا ٹھیک نہیں مگر حماس کو سائبر حملوں کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ کر حیرانی نہیں ہوئی۔ چونکہ مغربی ریاستوں کی جانب سے اسے ایک دہشتگرد گروہ قرار دیا گیا ہے اس لیے اس گروہ کی جانب سے ایک غیر متوازی جنگ (جس میں فوجی انفرااسٹرکچر اور گولہ بارود کوئی اہمیت نہیں رکھتا) کی طرف بڑھنے کا عمل اس گروہ کے بارے میں قائم کردہ تاثر کے مطابق ٹھیک ہی تو بیٹھتا ہے۔

ہیکنگ کے بالخصوص تازہ واقعے سے حماس کے ہیکرز اپنا جال پھیلانے اور فوجی اہلکاروں کو اس میں پھنسا کر معلومات نکلوانے کی انوکھی اور نئی چال بازی استعمال کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

حماس کے پاس ہیکنگ کو اپنے لیے اسٹریٹجک فوائد کے حصول کا ذریعہ تصور کرنے کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ بمباری اور راکٹ حملوں سے انسانی جانوں کا نقصان ہوتا ہے اور خوف پھیلتا ہے لیکن اس کے برعکس ہیکنگ معلومات کی فراہمی کا ذریعہ بنتی ہے اور یہ تکنیکی طاقت کی تعظیم کرتی ہے۔

گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیلی حکومت انہی بمباریوں اور راکٹ حملوں میں ہونے والی اموات کی بنیاد پر فلسطینی آبادیوں کو مغربی کنارے اور غزہ میں محصور رکھنے کے ظالمانہ اقدامات کو درست قرار دیتی آرہی ہے۔ سائبر جنگ کے انتخاب سے فلسطینی ہیکرز کی وہ ممکنہ طاقت آشکار ہوجاتی ہے جس کے ذریعے اسرائیلیوں کی جان لیے بغیر اسرائیلیوں کا جینا مشکل بنایا جاسکتا ہے۔

آخر میں بات ہوجائے اس حملے کے طریقہ واردات کی جس نے یہ واضح کردیا کہ جب ورچؤل ذرائع پر خواتین سے دوستی رکھنے کی بات آتی ہے تو مرد بشمول اسرائیلی فوجی کتنے بے وقوف بن جاتے ہیں۔

محض کچھ جعلی سوشل میڈیا پروفائلز اور خواتین کی چند تصاویر کی مدد سے ایسے مردوں کو پھانس لیا گیا جنہیں فوجی ٹریننگ دی گئی تھی اور جو اس بات سے واقف تھے کہ ان کے پاس اسمارٹ فونز یا کسی دوسرے طریقے سے محفوظ معلومات کو کبھی بھی ہدف بنایا جاسکتا ہے۔ نہ صرف وہ اس جال میں پھنسے بلکہ ایک عرصے تک انہیں اس بات کی بھنک بھی نہ پڑی۔

حماس کی جانب سے کیے جانے والے ان سائبر حملوں کے بعد دیگر مردوں اور پاکستانی فوجی اہلکاروں کو محتاط ہوجانا چاہیے کیونکہ ان کے برقی آلات کو بھی ایسی کسی چال بازی کے ذریعے ہدف کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ بلاشبہ پاکستانی مردوں کی ایک بڑی تعداد ایسے یا اس سے ملتے جلتے جالوں میں پھنس چکی ہے جو ان کی ذات اور اس امکان کو شہہ دیتے ہیں کہ شاید کوئی خاتون ان سے جان پہچان بڑھانا اور ان سے تصاویر کا تبادلہ چاہتی ہے۔

انسانی نفسیات اور ورچؤل ٹیکنالوجی کا یہ بدنما امتزاج اس انوکھی دنیا کی دلیل ہے جس میں ہم رہتے ہیں، جہاں حقیقی اور غیرحقیقی کی سرحدیں مسلسل دھندلی پڑتی جا رہی ہیں، جہاں خواتین مردوں پر ہنس سکتی ہیں اور ان کی کمزوریاں ’نت نئے‘ اور حیرت انگیز طریقوں سے آشکار ہوئیں۔


یہ مضمون 19 فروری 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں