اسلام آباد: ریٹائرڈ امام کا محکمہ اوقاف کی مسجد کا قبضہ چھوڑنے سے انکار

اپ ڈیٹ 22 فروری 2020
محکمہ اوقاف نے کمیٹی کے انتخابات نہ ہونے کے تاثر کو مسترد کردیا—فائل/فوٹو:ڈان
محکمہ اوقاف نے کمیٹی کے انتخابات نہ ہونے کے تاثر کو مسترد کردیا—فائل/فوٹو:ڈان

اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کے ساتھ جاری مسائل کو حل کرنے نہ پائی تھی کہ آبپارہ کی مسجد شہدا میں امام تقرری کے سلسلے میں نیا تنازع کھڑا ہوگیا ہے جہاں 2 سال قبل ریٹائر ہونے والے مولانا غلام رسول مسجد کا قبضہ چھوڑنے کو تیار نہیں۔

رپورٹ کے مطابق محکمہ اوقاف نے گزشتہ 5 ماہ سے مسجد شہدا کے امام کے ساتھ شروع ہونے والے تنازع کی جانب توجہ نہیں دی جس کے باعث یہ معاملہ سنگین ہوتا جارہا ہے، جہاں مسجد کے سرکاری امام اور دو سال قبل اپنی مدت پوری کرنے والے امام کے حامیوں کے درمیان وقفے وقفے سے جھگڑے بھی ہو رہے ہیں۔

حکومت کی جانب سے لال مسجد کے سابق نائب خطیب مولانا عامر صدیق کو مسجد شہدا کا نیا امام مقرر کیا گیا تھا جبکہ سابق امام مولانا غلام رسول عمر کی 60 سالہ حد عبور کرچکے ہیں لیکن حکومتی احکامات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:مولانا عبدالعزیز کے مطالبات سے پیچھے ہٹنے سے انکار پر لال مسجد تنازع برقرار

انتظامیہ کے مطابق مولانا غلام رسول نے ریٹائرمنٹ لینے سے انکار کیا اور گزشتہ دو سال سے اب تک نہ صرف مسجد کی سرکاری رہائش گاہ میں قابض ہیں بلکہ وہاں پر قائم دکانوں پر بھی قبضہ کیے ہوئے ہیں۔

مولانا غلام رسول کے حامیوں کی جانب سے مولانا عبدالعزیز کے بھانجے مولانا عامر صدیق کو مسجد میں امامت کی اجازت نہیں دی گئی جس کے بعد انہوں نے آبپارہ پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرادی جس کے جواب میں مولانا غلام رسول نے بھی شکایت درج کرادی۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے مولانا عامر صدیق نے معاملے پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘قانونی جواز کے باوجود پولیس کی جانب سے میری شکایت پر کچھ نہ کرنا غیر شفاف نہیں کیونکہ میں دوسرے مولانا کی طرح طاقتور اور مضبوط نہیں ہوں’۔

دوسری جانب مولانا غلام رسول نے بھی پولیس کے حوالے سے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ مولانا عامر صدیق کے خلاف شکایت پر پولیس کچھ نہیں کر رہی ہے اور الزام عائد کیا کہ مولانا عامر صدیق مسجد میں کشیدگی پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:لال مسجد خالی کرنے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے پر علاقے کی دوبارہ ناکہ بندی

آبپارہ کے ایک تاجر اجمل بلوچ کا کہنا تھا کہ محکمہ اوقاف کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کی عمل داری کو یقینی بنائے اور اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ جس امام کو انہوں نے تعینات کیا ہے انہیں مسجد میں امامت کی اجازت دی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘مولانا غلام رسول یا کوئی اور کیسے یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ یہ ان کی خاندانی مسجد ہے، ریاست کو اپنی عمل داری قائم کرنے کی ضرورت ہے’۔

ڈان کو آبپارہ مارکیٹ کے سینئر تاجر رہنما یونس قریشی کا کہنا تھا کہ مسجد شہدا کے تنازع کی بنیاد محکمہ اوقاف کی مسجد کمیٹی کے انتخابات کروانے میں ناکامی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'حکومت مساجد میں اپنا کنٹرول برقرار رکھنے میں ناکام ہورہی ہے اور مولانا غلام رسول نے مولانا عامر صدیق کو امامت کرنے کی اجازت نہیں دی اور ان پر دیگر مکاتب فکر کے علما اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کے الزامات لگا رہے ہیں اور جو ایسے الزامات لگا رہے ہیں ان کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت کارروائی ہونی چاہیے’۔

تاجر رہنما کا کہنا تھا کہ تنازع کی ایک وجہ مالی معاملات بھی ہیں جبکہ مساجد اور ان سے منسلک مدارس کے مالی معاملات کا کوئی آڈٹ نہیں ہوتا۔

مسجد کمیٹی کے رکن فاروق کیانی نے تنازع کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کمیٹی کے انتخابات نہ ہونے کے تاثر کو مسترد کردیا اور دعویٰ کیا کہ انتخابات مستقل ہو رہے ہیں اور آخری مرتبہ ایک سال قبل ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:مولانا عبدالعزیز لال مسجد پر قابض، صورتحال کشیدہ

فاروق کیانی کا کہنا تھا کہ تنازع مقامی افراد کے مطالبے اور مولانا عامر صدیق کو پولی کلینک کے قریب مسجد کوثر تبادلے کے بعد حل ہوگیا تھا اور مولانا اشفاق کو مسجد شہدا میں لایا گیا تھا۔

محکمہ اوقاف کے مطابق مسجد شہدا میں مولانا اشفاق امامت کروا رہے ہیں لیکن ان کے یہاں تبادلے کا نوٹی فکیشن جاری نہیں کیا گیا۔

خیال رہے کہ مولانا اشفاق مسجد شہدا سے ریٹائر ہونے والے مولانا غلام رسول کے چھوٹے بھائی ہیں۔

محکمہ اوقاف کے ایک عہدیدار نے تنازع کے حوالے سے کہا کہ محکمے کے ڈائریکٹر چھٹیوں پر ہیں اور تمام مساجد میں بروقت انتخابات کے لیے وسائل بھی نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم عوام پر کوئی فیصلہ مسلط نہیں کرسکتے، سوائے چند کے اسلام آباد میں مساجد کمیٹیوں کے ساتھ کوئی سنجیدہ مسائل نہیں ہیں، مسجد شہدا میں کمیٹی کے ساتھ بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا اسی لیے موجودہ کمیٹی طویل عرصے سے انتظامات سنبھال رہی ہے’۔

اسلام آباد میں سرکاری سرپرستی میں 86 مساجد ہیں اور تقریباً ایک ہزار مساجد محکمہ اوقاف میں رجسٹرڈ ہیں جو نجی زمین یا قبضے کی زمین پر تعمیر کی گئی ہیں۔

محکمہ اوقاف کی ذمہ داریوں میں مساجد اور مزاروں کے انتظام کے علاوہ شیعہ، دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث چاروں بڑے مکاتب فکر کے درمیان مساجد کی برابر تناسب میں تقسیم کو یقینی بنانا بھی شامل ہے۔

مزید پڑھیں:مولانا عبدالعزیز جامعہ حفصہ کیلئے زمین کے وعدے پر لال مسجد چھوڑنے پر تیار

خیال رہے کہ لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کے ساتھ مقامی انتظامیہ کا تنازع گزشتہ ماہ شروع ہوا تھا جب مولانا عبدالعزیز نے انتظامیہ کی جانب سے ان کے مطالبات کی منظوری تک مسجد چھوڑنے سے انکار کیا تھا۔

لال مسجد میں چند ہفتے قبل صورت حال اس وقت سنجیدہ نوعیت اختیار کرگئی تھی جب سیکٹر ایچ الیون میں سیل کردہ جامعہ حفصہ میں بڑی تعداد میں طالبات داخل ہوئی تھیں جس کے بعد عہدیداروں نے مولانا عبدالعزیز سے مذاکرات شروع کیے تھے جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکے۔

بعد ازاں اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے جامعہ حفصہ کی تعمیر کے لیے 20 کنال زمین الاٹ کرنے کے وعدے پر مولانا عبدالعزیز لال مسجد چھوڑنے پر رضامند ہوگئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں