مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کی ضمانت منظور

اپ ڈیٹ 25 فروری 2020
احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی—فائل فوٹو: ڈان نیوز
احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی—فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نارووال اسپورٹس سٹی کیس میں مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما احسن اقبال جبکہ مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کیس میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ضمانت منظور کرلی۔

عدالت عالیہ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس لبنیٰ سلیم پرویز نے نارووال اسپورٹس کمپلیکس اور ایل این جی سے متعلق کیس کی سماعت کی، اس دوران مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کے وکلا اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے افسر عدالت میں پیش ہوئے۔

خیال رہے کہ یکم فروری کو شاہد خاقان عباسی جبکہ احسن اقبال نے اس سے 4 روز قبل ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دی تھی۔

اس معاملے پر آج ہونے والی سماعت میں یہ پوچھا گیا کہ یہ بتادیں کہ سپریم کورٹ نے صغریٰ بی بی کیس میں کہا ہے کہ شواہد کے بغیر گرفتاری نہیں کرنی، بہت سارے کیسز میں نیب ملزمان کو گرفتار نہیں کرتی،آپ کی پالیسی کیا ہے کس کو گرفتار کرنا ہے کس کو نہیں کرنا۔

مزید پڑھیں: شاہد خاقان، احسن اقبال کی درخواست ضمانت پر جواب کیلئے نیب کو مہلت

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ مقدمہ ثابت ہونے تک ملزم بےگناہ ہوتا ہے، شہری کا حق آزادی اور عزت نفس مجروح ہونے سے بچانا بھی ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیب کو ملزم کی گرفتاری کا اختیار اسے آئینی حقوق سے محروم نہیں کرسکتا، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ آرٹیکل 10کےمطابق ملزم کو بتائے بغیر گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔

جس پر عدالت عالیہ کے چیف جسٹس نے کہا کہ ایک کیس میں آپ نے ملزم کو معاف کرکے دیگر ملزمان کے خلاف گواہ بنا دیا، نیب کا مقصد تفتیش اور انکوائری کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہاؤس آف لارڈز نے 12 شرائط کے ساتھ دہشت گردی کے ملزم کو بھی ضمانت دی، کیس کے دوران مقصد تحقیقات اور انکوائریز کرنا ہوتا ہے، آپ کا تفتیشی افسر بھی ایسی شرائط رکھ سکتا ہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ اگر ملزم تعاون کر رہا ہو اور سوالوں کے جواب دے رہا ہو تو پھر گرفتاری کی کیا وجہ ہوتی ہے؟

انہوں نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال اپنے حلقوں کی نمائندگی کر رہے ہیں، دونوں گرفتار ملزمان عوامی نمائندگی کے لیے نااہل نہیں ہوئے، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سزا ہونے تک احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی کو بےگناہ تصویر کیا جائے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سزا ہونے سے پہلے ملزمان کو گرفتار کرنا حلقے کے عوام کو نمائندگی سے محروم کرنا ہے، ہم اس لیے پوچھ رہے ہیں کہ ایسی کیا وجوہات تھیں جن پر گرفتاری ہی ضروری سمجھی گئی؟، اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نیب جہانزیب بھروانہ نے کہا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 54 میں پولیس افسر کو گرفتاری کے اختیارات دیے گئے، نیب آرڈینینس کی دفعہ 5 میں ملزم کی تعریف کی گئی ہے۔

نیب کے اٹارنی جنرل کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر تفتیشی افسر کیس کو انوسٹی گیٹ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو گرفتاری کی ضرورت نہیں رہتی، نیب اس آئینی عدالت کو مطمئن کرے کہ تفتیشی افسر گرفتاری کے بعد تفتیش کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں؟ جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ نیب صرف تحقیقات کے لیے اور فرار کے خدشے کے پیش نظر گرفتار کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی درخواست ضمانت پر نیب کو نوٹس

اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ یہ ثابت کردیں کہ نیب ملزم کی گرفتاری کے بغیر کیوں تفتیش مکمل نہیں کرسکتا؟ نیب گرفتاری کے بعد پلی بارگین کی درخواست کیوں منظور کرتی ہے؟ کسی بھی ملزم کو دوسرے ملزمان کے خلاف وعدہ معاف گواہ کیوں بنایا جاتا ہے؟ جس پر جواب دیا کہ پلی بارگین رقم کی رضاکارانہ واپسی سے متعلق ہے۔

تاہم اسی دوران احسن اقبال کے وکیل نے کہا کہ نیب گرفتار کرتا ہے، پلی بارگین کے لیے 10 کروڑ روپے مانگتا ہے اور چھوڑ دیتا ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ بظاہر نیب اغوا برائے تاوان کے لیے اٹھاتا ہے اور پلی بارگین کے بعد چھوڑ دیتا ہے۔

اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ پلی بارگین دنیا بھر میں ہے، ملک میں جو کرپشن ہے وہ تو ہے، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ نیب کا احتساب ہوگا جب شہریوں کا ادارے پر اعتماد ہوگا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ نیب عدالت نہیں، صرف تحقیقاتی ادارہ ہے،جو شواہد پر عدالت میں پروسیکیوٹ کرسکتا ہے۔

ساتھ ہی عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ شکایت پر فوری بندے کو گرفتار کر لیتے ہیں، جس پر ایڈووکیٹ طارق جہانگیری نے عدالت کو بتایا کہ نیب آرڈینینس کے تحت یہ انکوائری سے قبل بھی ملزم کو گرفتار کر لیتے ہیں۔

اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ بات تو طے ہے کہ آپ کسی کو غیر ضروری طور پر گرفتار نہیں کر سکتے، غیر ضروری گرفتاری دراصل اختیارات کا غلط استعمال ہے۔

عدالت نے پوچھا کہ یہ بتائیں احسن اقبال پر الزام کیا ہے، نیب ان 3 سوالوں کا جواب دے کہ احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی کو گرفتار کیوں کیا گیا؟ اب تفتیش مکمل ہوگئی تو احسن اقبال اور شاہد خاقان کو مزید جیل میں کیوں رکھا جائے؟ لوگوں نے ان دونوں کو ووٹ دیا تو ان کو نمائندگی سے کیسے محروم کیا جاسکتا ہے؟ جن ووٹرز نے احسن اقبال، شاہد خاقان کو ووٹ دیا ان کو کس بات کی سزا ہے؟

اس پر ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب نے بتایا کہ احسن اقبال پر 4 الزامات ہیں، انہوں نے نارووال اسپورٹس سٹی کمپلیکس کی تعمیر میں اختیارات کا غلط استعمال کیا، یہ پراجیکٹ فزیبلٹی اسٹڈی کے بغیر شروع کیا گیا۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبائی حکومت کے پراجیکٹ کے لیے وفاق سے گرانٹ جاری کی گئی، اسپورٹس بورڈ پنجاب کے منصوبے کے لیے صوبے کی درخواست کے بغیر وفاق سے رقم جاری کی گئی، منصوبے کی لاگت میں بھی اضافہ کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ احسن اقبال کے ریکارڈ میں ٹیمپرنگ اور ملک سے فرار کا خدشہ ہے، ان تمام الزامات اور وجوہات کی بنا پر احسن اقبال کو گرفتار کیا گیا۔

نیب کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ ان تمام الزامات پر کہیں مجرمانہ نیت، مالی فائدہ لینے کا ذکر تک نہیں، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ کرپشن نے اس معاشرے کو تباہ کیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ٹرائل میں جرم ثابت کرکے ملزمان کو 16 سال قید کی سزا دلوائیں، (تاہم) نیب کہہ رہا کہ غلطی پر بھی کرپشن کیس بنے گا؟ یوں تو گورننس کا پورا نظام رک جائے گا؟۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ نیب ترمیمی آرڈیننس کی ضرورت نہیں کی، اس پر نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ نارووال اسپورٹس سٹی کا تکنیکی ٹھیکہ تک نہیں دیا گیا،اس منصوبے میں پیپرا رولز کی دھجیاں اڑائی گئیں۔

مزید پڑھیں: ایل این جی ریفرنس: شاہد خاقان عباسی کے جوڈیشل ریمانڈ میں توسیع

جس پر عدالت نے پوچھا کہ کیا کہ یہ ساری منظوریاں احسن اقبال نے دی، اس پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل نے یہ منظوری نہیں کی بلکہ پاکستان اسپورٹس بورڈ نے دی۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جس نے پراسیس کیا ہے پھر وہ ذمہ دار بنتا ہے، جس پر نیب کے نمائندے نے کہا کہ اس وقت ہم احسن اقبال کے اثاثوں کی تحقیقات کر رہے ہیں، ہمارے پاس بہت سے شواہد موجود ہیں۔

دوسری جانب عدالت میں شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایل این جی کیس کا معاملہ بھی آیا، جس پر مذکورہ بینچ نے ہی سماعت کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ حکومت نے مدد کے لیے کسی دوسرے ملک سے گرانٹ لی، بیرون ممالک نے خود ہی ایک فرم رکھی۔

انہوں نے کہا کہ ایل این جی کیس میں پیپرا رولز کا اطلاق ہی نہیں ہوتا جبکہ اس میں تو عوامی فنڈز استعمال ہی نہیں ہوئے بلکہ اس منصوبے میں تو یو ایس ایڈ کا فںڈ استعمال ہوا۔

سماعت کے دوران عدالت نے پوچھا کہ یو ایس ایڈ سے متعلق کیا وزارت خارجہ سے پوچھا گیا، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ وزارت خارجہ سے ریکارڈ حاصل کر رہے ہیں۔

اسی پر عدالت نے پوچھا کہ میوزک کمپنی کو فیس کس نے ادا کی، جس پر نیب نے جواب دیا کہ یو ایس ایڈ نے فیس ادا کی لیکن تعیناتی ریکارڈ نہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یوایس ایڈ فیس ادا کررہی ہے تو وہی کمپنی کو بھی تعینات کرے گی۔

جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی نے ایل این جی مہنگے داموں خریدی، اس پر عدالت عالیہ کے چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ نے تفتیش کی کہ دنیا میں کہیں اس سے سستی ایل این جی خریدی گئی؟ کیا آپ نے کوئی تفتیش کی کہ ٹرمینل کا ٹھیکہ سستے داموں کسی کمپنی کے ساتھ ممکن تھا؟

اس پر ایک تفتیشی افسر نے کہا کہ ایک گیس کمپنی کا خط موجود ہے جو سستے داموں پیشکش کر رہی تھی، فورگیس ایشیا کے سی ای او مارٹن وائٹ نے خط لکھا، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا اس کمپنی نے بولی میں حصہ لیا تھا؟

جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ اس کمپنی نے بولی میں حصہ نہیں لیا، تقابلی جائزے کے لیے بتایا کہ سستے میں ممکن تھا، اس پر عدالت نے کہا کہ یہ نہ کریں آپ، جو کمپنی بولی میں شامل نہیں ہوئی اس کا حوالہ کیسے دے رہے ہیں؟

سماعت کے دوران نیب کے تفتیشی افسر نے وفاقی سیکریٹری عابد سعید کا بیان بھی پڑھ کر سنایا اور بتایا کہ عابد سعید نے کہا کہ انہوں نے شاہد خاقان کے کہنے پر سمری بنائی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 5سال بعد آپ نے سمری بنانے والے کو بیان لیکر معاف کر دیا، یہی آپ لوگوں کے اختیارات ہیں جن کی ہم بات کر رہے ہیں۔

دونوں کیسز میں وکلا اور نیب کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت عالیہ نے شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کی الگ الگ ضمانت منظور کی اور دونوں کو ایک، ایک کروڑ روپے کے مچلکے جمع کرانے پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

بعد ازاں ہائی کورٹ نے احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی کی ضمانت منظوری کے ایک، ایک صفحات پر مشتمل تحریری حکمنامے جاری کیے۔

حکم ناموں میں کہا گیا کہ شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کی ضمانت منظوری کی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔

عدالت نے کہا کہ تفتیشی افسر شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کو پابند کرنے کے لیے شرائط عائد کر سکتا ہے اور انہیں شامل تفتیش رکھنے کے لیے مناسب اقدامات کر سکتا ہے۔

حکم نامے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس لبنیٰ سلیم پرویز نے جاری کیے۔

دونوں رہنماؤں کی گرفتاری

واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی کو 18 جولائی کو قومی احتساب بیورو نے مائع قدرتی گیس کیس میں گرفتار کیا تھا۔

ان پر الزام ہےکہ انہوں نے اس وقت قوائد کے خلاف ایل این جی ٹرمینل کے لیے 15 سال کا ٹھیکہ دیا، یہ ٹھیکہ اس وقت دیا گیا تھا جب سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور حکومت میں شاہد خاقان عباسی وزیر پیٹرولیم تھے۔

یہ بھی پڑھیں: نیب نے شاہد خاقان و دیگر کے خلاف ایل این جی کیس میں ریفرنس دائر کردیا

بعدازاں 3 دسمبر 2019 کو نیب نے احتساب عدالت میں ایل این جی ریفرنس دائر کیا تھا، جس میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل، پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر شیخ عمران الحق اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے سابق چیئرمین سعید احمد خان سمیت 10 ملزمان کو نامزد کیا گیا تھا۔

دوسری جانب قومی احتساب بیورو نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال کو نارووال کے اسپورٹس سٹی منصوبے میں مبینہ بدعنوانیوں سے متعلق کیس میں گرفتار کیا تھا۔

نیب کے اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ نیب راولپنڈی نے نارووال اسپورٹس سٹی کمپلیکس اسکینڈل میں رکن قومی اسمبلی احسن اقبال کو گرفتار کیا گیا۔

واضح رہے کہ احسن اقبال پر نارووال اسپورٹس سٹی منصوبے کے لیے وفاقی حکومت اور پاکستان اسپورٹس بورڈ (پی ایس بی) کے فنڈز استعمال کرنے کا الزام ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں