سنگین غداری کیس: خصوصی عدالت کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف ایک اور درخواست

اپ ڈیٹ 25 فروری 2020
پرویز مشرف کو خصوصی عدالت نے سزائے موت سنائی تھی—فائل فوٹو: ڈان اخبار
پرویز مشرف کو خصوصی عدالت نے سزائے موت سنائی تھی—فائل فوٹو: ڈان اخبار

اسلام آباد: سندھ ہائی کورٹ بار نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزا سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو کالعدم قرار دینے کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو چیلنج کردیا۔

سپریم کورٹ میں سندھ ہائی کورٹ بار کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کی گئی۔

مذکورہ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ کو خصوصی عدالت کے خلاف درخواست سننے کا اختیار نہیں تھا، لہٰذا پرویز مشرف کی سزائے موت کا فیصلہ بحال کیا جائے۔

درخواست میں کہا گیا کہ پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ تسلیم شدہ حقائق پر تھا اور خصوصی عدالت کی تشکیل مروجہ قانون کے مطابق ہوئی۔

مزید پڑھیں: مشرف کیس کا فیصلہ سنانےوالی عدالت کی تشکیل کالعدم قراردینے کےخلاف درخواست

عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے حقائق اور قانون کا درست جائزہ نہیں لیا جبکہ استغاثہ کے شواہد کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔

یاد رہے کہ 19 فروری کو لائرز فاؤنڈیشن فار جسٹس نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف غداری کیس کا فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کالعدم قرار دینے کے خلاف درخواست دائر کی تھی، جس میں وزارت داخلہ، قانون و انصاف، رجسٹرار خصوصی عدالت، ایف آئی اے اور پرویز مشرف کو فریق بنایا گیا تھا۔

علاوہ ازیں اسی ماہ کے اوائل میں بھی راولپنڈی بارے کے سابق صدر توفیق آصف نے ایڈووکیٹ حامد خان کے ذریعے لاہور ہائیکورٹ کا 13 جنوری کا فیصلہ چیلنج کیا تھا۔

2 فروری کو چیلنج کیے گئے اس فیصلے سے متعلق درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کو خصوصی عدالت کی تشکیل کی درخواست پر سماعت کا اختیار نہیں تھا۔

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ 'عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں 18ویں آئینی ترمیم کے ترمیم شدہ آرٹیکل 6 کی صحیح تشریح نہیں کی اور اس کے حکم میں آرٹیکل 6 جس کو آئین میں خاصی اہمیت حاصل ہے، کو غیر مؤثر کردیا'۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ پرویز مشرف 2016 سے مفرور ہیں اور اسی وجہ سے ان کی عدم موجودگی میں ٹرائل چلانے کا حکم دیا گیا۔

لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ

واضح رہے کہ 13 جنوری 2020 کو لاہور ہائی کورٹ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔

پرویز مشرف کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ سابق صدر کے خلاف سنگین غداری کیس بھی قانون کے مطابق نہیں بنایا گیا۔

مزید برآں یہ بھی کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت اور پرویز مشرف دونوں کے وکلا کے مطابق خصوصی عدالت کی تشکیل غیر قانونی قرار دینے کے بعد سزائے موت کا فیصلہ بھی کالعدم تصور ہوگا۔

سنگین غداری کیس کا فیصلہ

یاد رہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں موجود خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے 17 دسمبر کو پرویز مشرف سنگین غداری کیس کے مختصر فیصلے میں انہیں آرٹیکل 6 کے تحت سزائے موت سنائی تھی۔

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر پر مشتمل بینچ نے اس کیس کا فیصلہ 2 ایک کی اکثریت سے سنایا تھا۔

جس کے بعد 19 دسمبر کو اس کیس کا 167 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا جس میں جسٹس نذر اکبر کا 44 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ بھی شامل تھا۔

یہ بھی پڑھیں:سنگین غداری کیس: خصوصی عدالت نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنادی

بعد ازاں 27 دسمبر کو سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے خلاف سنگین غداری کیس میں اسلام آباد کی خصوصی عدالت کا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ میں متفرق درخواست کے ذریعے چیلنج کیا تھا۔

عدالت کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے پرویز مشرف نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'خصوصی عدالت نے میرے خلاف آرٹیکل 6 کا جو فیصلہ سنایا وہ میں نے ٹی وی پر پہلی بار سنا، یہ ایسا فیصلہ ہے جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی کہ مدعا علیہ اور نہ اس کے وکیل کو اپنے دفاع میں بات کرنے کی اجازت نہیں ملی۔'

واضح رہے کہ سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف نے 3 نومبر، 2007 کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے 1973 کے آئین کو معطل کردیا تھا جس کی وجہ سے چیف جسٹس آف پاکستان سمیت اعلیٰ عدالت کے 61 ججز فارغ ہوگئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں