بھارت: مذہبی فسادات میں ہلاکتوں کی تعداد 42 ہوگئی

اپ ڈیٹ 28 فروری 2020
جی ٹی بی ہسپتال میں مزید 4 افراد دم توڑ گئے—فائل فوٹو: اے ایف پی
جی ٹی بی ہسپتال میں مزید 4 افراد دم توڑ گئے—فائل فوٹو: اے ایف پی

بھارت میں متنازع شہریت قانون (سی اے اے) کے خلاف مظاہروں کے دوران ہونے والے مذہبی فسادات میں ہلاکتوں کی تعداد 42 ہوگئی۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق فسادات کے دوران شدید زخمی ہونے والے مزید 4 افراد جی ٹی بی ہسپتال میں دم توڑ گئے۔

مزید پڑھیں: امریکی سفیر کا دہلی فسادات پر 'محتاط' مذمتی بیان

لوک نائک جئے پرکاش ہسپتال میں 3 اور جگ پریش چندرا ہسپتال میں ایک شخص کی ہلاکت کی تصیدیق ہوئی۔

علاوہ ازیں نئی دہلی سمیت دیگر اضلاع میں 7 ہزار نیم فوجی دستے تعینات کردیے گئے۔

مذہبی فسادات میں کم از کم 250 افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔

پولیس نے مجموعی طور پر 123 ایف آئی آر درج کیں اور کم از کم 630 افراد کو حراست میں لے لیا۔

خیال رہے کہ مذہبی فسادات کے دوران دہلی پولیس کی ناقص کارکردگی منظر عام پر آنے کے بعد اعلیٰ حکام نے لوگوں اور میڈیا سے درخواست کی کہ وہ شرپسند عناصر کے خلاف ویڈیو یا اپنا بیان ریکارڈ کرائیں تاکہ ملزمان کو گرفتار کیا جا سکے۔

دوسری جانب دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے متاثرین کے لیے فی کس 25 ہزار روپے معاوضہ دینے کا اعلان کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کا امریکا پر دہلی فسادات کو سیاسی رنگ دینے کا الزام

انہوں نے کہا کہ فسادات کے دوران توڑ پھوڑ اور جلائے گئے گھروں کی مرمت کے لیے مذکورہ رقم آسانی پیدا کرے گی۔

علاوہ ازیں اروند کیجریوال نے کہا کہ 'فسادات کی وجہ سے اپنے بود وباش چھوڑ کر رشتے داروں کے پاس رہنے والوں کے لیے مجبور تھے ان کے لیے 9 پناہ گاہیں کھول دی گئی ہیں۔

وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ ہم نے فسادات سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے 18 مجسٹریٹ، 4 نائٹ مجسٹریٹ بھی مقرر کردیے ہیں۔.

سوشل میڈیا پر وائرل متعدد ویڈیوز اور تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہندوتوا کے حامی مشتعل افراد نے مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا اور مساجد سمیت گھروں کو نذر آتش کردیا۔

ایک ویڈیو میں پولیس کی موجودگی واضح نظر آرہی ہے لیکن وہ مشتعل آر ایس ایس کے کارکنوں کو روکنے میں بے بس رہی۔

بھارتی سپریم کورٹ نے متنازع شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران پولیس کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ 'اگر پولیس اپنا فرض ادا کرتی تو مشتعل افراد بچ نہیں سکتے تھے'۔

مزید پڑھیں: نئی دہلی میں مذہبی فسادات پر بولی وڈ شخصیات کا اظہار افسوس

بھارت میں اگرچہ متنازع شہریت قانون کے خلاف دسمبر 2019 سے ہی مظاہرے جاری ہیں تاہم گزشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے بھارتی دورے کے دوران 24 فروری کو بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں اچانک یہ مظاہرے مذہبی فسادات کی صورت اختیار کر گئے تھے۔

مذہبی فسادات اس وقت شروع ہوئے جب ہزاروں افراد نے نئی دہلی میں متنازع شہریت قانون کے خلاف مظاہرہ کیا۔

علاوہ ازیں امریکا نے انتہائی محتاط انداز میں بھارت پر زور دیا کہ جو لوگ مذہبی فسادات کے پیچھے ہیں وہ خود کو تشدد سے دور رکھیں۔

امریکی نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی وسطیٰ ایشیائی امور ایلس ویلز نے ٹوئٹ میں کہا کہ 'نئی دہلی میں مقتولیں اور زخمیوں کے ساتھ ہماری ہمدردیاں ہیں'۔

متنازع شہریت قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والے افراد پر اچانک انتہاپسند اور شرپسند افراد نے حملہ کردیا جس کی وجہ سے مظاہرے مذہبی فسادات میں تبدیل ہوگئے اور دو دن میں کم سے کم 27 افراد ہلاک ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں: دہلی میں مذہبی فسادات: ہلاکتوں کی تعداد 27 ہوگئی

نئی دہلی میں ہونے والے مذہبی فسادات پر عالمی برادری نے بھارتی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے وہاں امن کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاہم تاحال وہاں حالات کشیدہ ہیں۔

متنازع شہریت قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے بعد حالات کشیدہ ہونے کی وجہ سے کینیڈین حکومت نے اپنے شہریوں کو بھارت نہ جانے کا مشورہ دیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں