امریکا، طالبان امن مذاکرات، کب کیا ہوا؟

اپ ڈیٹ 02 مارچ 2020
امن معاہدہ عالمی سطح پر نہایت اہمیت کا حامل ہے جس کے ذریعے افغانستان میں 19 سال سے جاری جنگ کا خاتمہ ہوگا — فائل فوٹو: اے پی
امن معاہدہ عالمی سطح پر نہایت اہمیت کا حامل ہے جس کے ذریعے افغانستان میں 19 سال سے جاری جنگ کا خاتمہ ہوگا — فائل فوٹو: اے پی

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں آج طالبان اور امریکا کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کیے جائیں گے جس کے تحت امریکا افغانستان سے مرحلہ وار فوجی انخلا کرے گا اور بدلے میں طالبان یقین دہانی کرائیں گے کہ افغان سرزمین مستقبل میں کسی دوسرے عسکریت پسند گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہیں ہوگی۔

یہ معاہدہ عالمی سطح پر نہایت اہمیت کا حامل ہے جس کے ذریعے افغانستان میں 19 سال سے جاری جنگ کا خاتمہ ہوگا اور اس سے خطے میں امن و استحکام کی اُمید کی جارہی ہے۔

اس معاہدے پر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر میں دستخط کیے جائیں گے جہاں گزشتہ ڈیڑھ سال سے مذاکرات جاری تھے۔

سینئر طالبان رہنما سمیت امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد اور امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو اس میں حصہ لیں گے جبکہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی وہاں موجود ہوں گے۔

امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے اب تک کم و بیش 10 دور ہوچکے ہیں، جن میں کبھی دونوں جانب سے مثبت پیشرفت دکھائی دی تو کبھی مذاکرات کسی نکتے پر ڈیڈلاک کا شکار نظر آئے۔

معاہدے کا آغاز

طالبان کے ساتھ امن معاہدے کی باتیں افغان اور امریکی رہنماؤں کی جانب سے گزشتہ ایک دہائی سے کی جارہی تھیں جس کے لیے 2013 میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان نے سیاسی دفتر قائم کیا تھا تاہم اس میں تیزی اس وقت آئی جب ٹرمپ انتظامیہ نے ستمبر 2019 میں افغانی نژاد زلمے خلیل زاد کو افغانستان کا خصوصی سفیر تعینات کیا تھا۔

زلمے خلیل زاد کی سربراہی میں امریکی وفد نے جب قطر میں طالبان کے وفد کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا تو امریکی ایلچی کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں چار اہم نکات شامل ہیں:

• افغان سرزمین کا امریکا اور اُس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہ ہونا

• امریکی اور بین الاقوامی افواج کا افغانستان سے انخلا

• افغان حکومت کے ساتھ بین الافغان مذاکرات کا آغاز

• جنگ بندی

زلمے خلیل زاد نے رواں سال 29 جنوری کو اپنے ایک بیان میں طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا اور طالبان کے سینئر عہدیداران، افغانستان سے دہشت گردوں کو باہر نکالنے، تمام امریکی فوجیوں کے انخلا، جنگ بندی اور کابل-طالبان مذاکرات جیسے تمام اہم معاملات پر رضامند ہوگئے ہیں۔

ملا عبدالغنی برادر دوحہ دفتر کے سربراہ مقرر

امن مذاکرات کو اس وقت نئی قوت ملی تھی جب گزشتہ سال اکتوبر میں پاکستانی قید سے رہا ہونے والے افغان طالبان کے سابق نائب سربراہ ملا عبدالغنی برادر نے رواں سال فروری میں دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کی سربراہی سنبھالی تھی، جس کے بعد طالبان کی جانب سے 14 رکنی مذاکراتی ٹیم کا اعلان کیا گیا تھا۔

اسی ماہ زلمے خلیل زاد نے یہ بیان دیا تھا کہ افغان امن مذاکرات کو تیز کرنے میں مدد دینے کے لیے پاکستان نے افغان لیڈر ملا برادر کو ان کی درخواست پر رہا کیا تھا۔

امریکا-طالبان مذاکرات کو آسان بنانے میں پاکستان کے کردار سے متعلق ایک سوال کے جواب میں زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ اسلام آباد نے ایک تعمیری کردار ادا کیا اور ’ان کی درخواست‘ پر ملا برادر کو رہا کیا گیا۔

امریکی نمائندہ خصوصی کا کہنا تھا کہ انہوں نے ملا برادر کی رہائی کی درخواست کی تھی کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ افغان امن کے آغاز میں سینئر طالبان رہنما بھی تعمیری کردار ادا کرسکتے ہیں۔

بڑی کامیابیوں کا دعویٰ

گزشتہ سال مارچ میں ہونے والے 16 روزہ مذاکراتی دور کے بعد دونوں فریقین نے 'بڑی کامیابیوں' کا دعویٰ کیا تھا جبکہ یہ بھی کہا گیا تھا کہ دونوں فریقین فوجیوں کے انخلا اور انسداد دہشت گردی کو یقینی بنانے کے مسودے پر متفق ہیں۔

امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ امریکا اور طالبان کے مذاکرات کاروں کے درمیان تازہ دور ‘حقیقی کامیابیوں’ کے ساتھ ختم ہوا، لیکن فوجیوں کے انخلا کے حوالے سے طریقہ کار پر کوئی معاہدہ طے نہ پاسکا۔

مئی میں ہونے والے مذاکراتی دور کے حوالے سے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ ’افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے اہم ترین پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا گیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ انتہائی ضروری ہے کہ 2 نکاتی ایجنڈے، افغانستان سے غیر ملکی افواج کا مکمل انخلا اور افغانستان سے کسی کو نقصان پہنچنے کی روک تھام، کو حتمی شکل دی جائے'۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ اس مسئلے کے دیگر پہلوؤں کے حل کی راہیں بھی ہموار کرے گا اور ہم اس سے پہلے دوسری جانب توجہ نہیں دے سکتے'۔

ستمبر سے قبل امن معاہدہ طے پانے کا امریکی دعویٰ

20 جون کو افغانستان میں امن کے فروغ اور مصالحتی عمل کے لیے طالبان کے وفد کی چین نے میزبانی کی، جہاں طالبان کی جانب سے امریکا اور دیگر غیر ملکی افواج کے طالبان سے انخلا کا مطالبہ کیا گیا اور اس کے بدلے میں اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی کہ دہشت گرد حملوں کے لیے افغانستان کو مرکز کے طور پر استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔

30 جون کو امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد کا یہ بیان سامنے آیا کہ انہوں نے پاکستان کے سویلین اور ملٹری حکام کو آگاہ کیا ہے کہ امریکا، پاکستان سے افغان امن عمل میں مزید کردار ادا کرنے کی توقع رکھتا ہے۔

اسی روز جہاں ایک جانب امریکا اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کا ساتواں دور جاری تھا وہیں امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے دعویٰ کیا تھا کہ دونوں فریقین کے درمیان یکم ستمبر سے قبل امن معاہدہ طے پاجائے گا۔

طویل عرصے تک صدر اشرف غنی کی قیادت میں افغان حکومت کو امریکی کٹھ پتلی کہنے والے طالبان نے افغان حکومت کے پُرزور مطالبے اور بظاہر ان پر ہمسایہ ملک کی جانب سے ڈالے جانے والے دباؤ کے بعد (امریکا کئی سالوں سے پاکستان پر دباؤ ڈال رہا تھا کہ وہ طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے انہیں مذاکرات پر مجبور کرے) جولائی میں طالبان نے امریکا کے بعد افغان حکومت، سول سوسائٹی اور دیگر وفود کے ساتھ بھی مذاکرات کا آغاز کیا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان نے کبھی بھی طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کے امریکی حکام کے مطالبے پر واضح ردعمل نہیں دیا کہ آیا وہ ایسا کرنے جارہے ہیں یا نہیں؟ لیکن پاکستانی حکام نے بارہا افغان امن مذاکرات کے عمل میں مدد اور حمایت فراہم کرنے کا نہ صرف اعادہ کیا بلکہ متعدد مذاکرات کے لیے طالبان اور امریکا کی اسلام آباد میں میزبانی بھی کی گئی۔

عمران خان سے ملاقات کی دعوت پر طالبان کا جواب

اسی ماہ طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان شہیل شاہین کا 'بی بی سی' کو انٹرویو کے دوران یہ بیان بھی سامنے آیا کہ اگر انہیں رسمی طور پر دورہ پاکستان کی دعوت ملی تو وہ اسے قبول کریں گے اور وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کریں گے۔

12 اگست 2019 کو طالبان اور امریکا کے درمیان افغانستان سے ہزاروں امریکی فوجیوں کے انخلا پر ہونے والے مذاکرات کا آٹھواں دور ختم ہوا جس کے حوالے سے طالبان ترجمان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ قطر میں ہونے والا مذاکرات کا یہ دور 'طویل اور مفید تھا'۔

دوحہ میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے 28 اگست کو تصدیق کی تھی کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کی بے دخلی سے متعلق مذاکرات حتمی مراحل میں داخل ہوچکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دوحہ میں مذاکرات کے پانچویں مرحلے میں مثبت پیش رفت ہوئی اور اب ہم باقی ماندہ نکات کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا حیران کن اعلان

لیکن اسی دوران 8 ستمبر کو اچانک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان کر کے سب کو حیران کردیا تھا کہ انہوں نے سینئر طالبان قیادت اور افغان صدر اشرف غنی کو کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات کی دعوت دی تھی، تاہم آخری لمحات میں انہوں نے طالبان کے حملے میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت پر یہ مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کیا۔

اس پر طالبان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو افغان امن مذاکرات کا سلسلہ معطل کرنے پر ’پہلے سے زیادہ سخت نتائج‘ کی دھمکی دی تھی۔

امریکا کے ساتھ مذاکرات منسوخ ہونے کے بعد طالبان وفد 14 ستمبر کو روس گیا، جس کے بارے میں طالبان رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ دورے کا مقصد امریکا کے ساتھ مذاکرات بحال کرنے کی کوشش نہیں بلکہ امریکا کو افغانستان سے انخلا پر مجبور کرنے کے لیے علاقائی حمایت کا جائزہ لینا ہے۔

18 ستمبر کو افغان طالبان کا یہ بیان سامنے آیا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگر مستقبل میں امن مذاکرات بحال کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ان کے 'دروازے کھلے ہیں'۔

طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ ملا عباس استکزئی کا برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کو انٹرویو کے دوران کہنا تھا کہ 'افغانستان میں امن کے لیے مذاکرات ہی واحد راستہ ہیں'، انہوں نے ساتھ ہی امریکا کے تحفظات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے کچھ غلط نہیں کیا۔

طالبان وفد کا دورہ چین

طالبان وفد نے 29 ستمبر کو چین کے دارالحکومت بیجنگ کا دورہ کیا تھا اور چینی نمائندہ خصوصی ڈینگ ژی جون سے ملاقات کی تھی۔

مذاکرات کے ہر مرحلے میں پاکستان سہولت کار کے طور پر اپنا بہترین کردار ادا کرتا نظر آیا اور ایسے مرحلے میں جب افغانستان میں امن کی کشتی ہچکولے کھا رہی تھی اس نے اسے سہارا دینے اور فریقین کو مذاکرات کی بحالی پر رضامند کرنے کی بھرپور کوشش کی، پاکستان کی افغان امن عمل کے لیے کی جانے والی کوششوں کو امریکا اور دیگر ممالک نے بھی سراہا۔

طالبان کی پاکستان آمد

اسی سلسلے میں اکتوبر میں ملا عبدالغنی کی سربراہی میں 12 رکنی طالبان وفد حکومت پاکستان کی دعوت پر اسلام آباد پہنچا اور پاکستانی حکام سے ملاقاتیں کیں، ان ہی دنوں میں زلمے خلیل زاد بھی امریکی وفد کے ہمراہ اسلام آباد میں موجود تھے لیکن دونوں فریقین کی ملاقات کے حوالے سے کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی۔

20 اکتوبر کو امریکا کے سیکریٹری دفاع مارک ایسپر طالبان کے ساتھ اچانک معطل ہونے والے مذاکرات کی بحالی کے لیے افغانستان پہنچے تھے۔

صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مارک ایسپر کا کہنا تھا کہ ‘مقصد اب بھی یہی ہے کہ کسی نکتے پر امن معاہدہ یا سیاسی معاہدہ ہوجائے جو آگے بڑھنے کا بہترین راستہ ہے'۔

29 اکتوبر کو افغان امن کانفرنس کے دوران پاکستان، روس اور چین نے مذاکرات کو افغانستان تنازع کا واحد حل تسلیم کرتے ہوئے مذاکراتی عمل کی جلد بحالی پر زور دیا۔

19 نومبر کو طالبان نے حکومت سے تبادلوں کے معاہدے کے تحت جنوبی افغانستان میں 2016 میں قید کیے گئے 2 غیر ملکی پروفیسرز کیون کنگ اور ٹموتھی ویکس کو رہا کیا۔

امریکی اور آسٹریلوی پروفیسرز کو 3 طالبان رہنماؤں کے بدلے میں رہا کیا گیا، افغان حکومت سے رہائی پانے والے افراد میں حقانی نیٹ ورک کے قائد اور طالبان کے ڈپٹی سراج الدین حقانی کے چھوٹے بھائی انس حقانی بھی شامل تھے۔

امریکی صدر کا اچانک دورہ افغانستان

29 نومبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مغربی تہوار 'تھینکس گیونگ' کے موقع پر اچانک افغانستان پہنچے جہاں انہوں نے امید ظاہر کی کہ امریکا کی طویل جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان، جنگ بندی پر رضامند ہوجائیں گے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’ہم کہتے ہیں کہ جنگ بندی ہونی چاہیے لیکن وہ سیز فائر نہیں چاہتے تھے مگر اب وہ بھی جنگ بندی چاہتے ہیں اور میرے خیال میں اب کام ہوجائے گا'۔

7 دسمبر کو افغانستان کے لیے امریکی خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے طالبان کے ساتھ ستمبر میں تعطل کا شکار ہونے والے مذاکرات کو باقاعدہ طور پر بحال کردیے تھے۔

امریکا نے اپنے بیان میں کہا کہ مذاکرات میں ابتدائی طور پر تشدد میں کمی اور مستقل جنگ بندی کے لیے طالبان کو قائل کرنے پر توجہ دی جائے گی اور زلمے خلیل زاد افغانستان کے اندر فریقین میں مذاکرات کی کوشش بھی کررہے ہیں۔

29 دسمبر کو طالبان نے ہفتوں کی مشاورت کے بعد عارضی جنگ بندی کی پیشکش پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

17 جنوری کو افغان طالبان نے امریکا کو افغانستان میں 7 سے 10 روز کی عارضی سیز فائر کی پیشکش کی تھی۔

طالبان کے عہدیداران نے بتایا تھا کہ 'طالبان کی جانب سے سیز فائر کی پیشکش کی دستاویز قطر میں افغان امن عمل میں امریکا کے نمائندے زلمے خلیل زاد کے حوالے کی گئی ہے'۔

13 فروری کو برسلز میں ہونے والے نیٹو کے اجلاس کے بعد امریکی سیکریٹری دفاع مارک ایسپر کا کہنا تھا کہ ’امریکا اور طالبان نے 7 روز کے لیے پرتشدد کارروائیوں میں کمی پر بات چیت کی‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم سب کا یہی کہنا ہے کہ افغانستان کا حل سیاسی سمجھوتہ ہے، جو اگر واحد حل نہیں تو سب سے بہترین ضرور ہے، اس سلسلے میں پیش رفت ہوئی ہے اور ہم جلد اس حوالے سے مزید بتائیں گے‘۔

21 فروری کو امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو اور طالبان دونوں کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وہ ایک ہفتے کی جزوی صلح کے بعد 29 فروری کو دوحہ میں معاہدے پر دستخط کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔

پومپیو کا کہنا تھا کہ ‘اس اتفاق رائے کی کامیابی پر آگے بڑھنے کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ متوقع ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات بھی بہت جلد شروع ہوجائیں گے’۔

طالبان نے ایک بیان میں کہا کہ ‘دونوں فریق معاہدے پر دستخط کے لیے بہتر صورت حال بنائیں گی’۔

طالبان ذرائع کا کہنا تھا کہ ‘اگر معاہدے پر 29 فروری کو دستخط ہوگئے تو امن معاہدے کو وسیع کرنے کے لیے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات ہوں گے جو 10 مارچ کو طے ہوں گے’۔

امریکا اور طالبان کی جانب سے معاہدے کے لیے رضامندی کے اعلان پر عالمی برادری کی جانب سے خیرمقدمی بیانات سامنے آئے ہیں اور نیٹو کا کہنا تھا کہ ‘معاہدے سے افغانستان میں امن کے لیے راستہ ہموار ہوگا’۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں