سینیٹ اجلاس: 'ملک کو منتخب وزیراعظم چلا رہے ہیں یا ٹیکنوکریٹ'

اپ ڈیٹ 02 مارچ 2020
اپوزیشن نے وزیرخارجہ کو ایوان میں افغان معاہدے کے حوالے سے آگاہ کرنے کا مطالبہ کیا—فائل:فوٹو: اے پی پی
اپوزیشن نے وزیرخارجہ کو ایوان میں افغان معاہدے کے حوالے سے آگاہ کرنے کا مطالبہ کیا—فائل:فوٹو: اے پی پی

سینیٹ میں اپوزیشن نے حکومت کی اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو منتخب وزیر اعظم چلا رہے ہیں یا غیر منتخب ٹیکنوکریٹ چلارہے ہیں بتایا جائے جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے افغان امن معاہدے کے حوالے سے ایوان کو آگاہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

سینیٹ اجلاس میں امریکا-طالبان امن معاہدے پر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رکن بیرسٹر سیف نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ معاہدہ انتہائی خوش آئند ہے، جس کے لیے افغان کمانڈر نے اپنا مثبت کردار ادا کیا ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ افغانستان میں امن کے لیے اتنا اہم معاہدہ طے ہوا ہے جس کے لیے پاکستان نے ایک تعمیری کردار ادا کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری نے اپنی صدارت کے دوران حامد کرزئی کو پاکستان بلایا تھا کیونکہ افغانستان میں امن پاکستان کے مفاد میں ہے لیکن معاہدے کے حوالے سے سوالات بھی اٹھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے بھی سوالات اٹھائے ہیں، 5 ہزار قیدیوں کا معاملہ بھی اٹھایا ہے اس لیے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ایوان میں آئیں اور ہمیں اعتماد میں لیں۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ وزیر خارجہ جواب دیں کہ ہم نے شمسی ایئربیس بند کیا، معاہدے میں کیا طے پایا ہے، کیا امریکا کو ڈو مور کا کہا گیا ہے یا معاہدہ پاکستان کے ساتھ مکمل طور پر شیئر نہیں کیا گیا اور اس امن معاہدے کا ضامن کون ہے۔

انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی یا خارجہ کمیٹی میں اس پر کوئی بات تک نہیں ہوئی ہے، وزیر خارجہ کو ایوان میں موجود ہونا چاہیے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ بتایا جائے کہ افغانستان کے آئین کا تحفظ کون کرے گا، امریکا کا وہاں سے انخلا ہو رہا ہے یا نہیں اس کی تفصیلات پاکستان کے پاس ہوں گی، اگر تفصیلات نہیں ہیں تو یہ غفلت ہے۔

سینیٹ میں اپوزیشن نے افغان معاہدے پر بات کرتے ہوئے حکومت سے اس کے حوالے سے تفصیلات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔

اس موقع پر وفاقی وزیر پارلیمانی امور اعظم خان سواتی نے کہا کہ طالبان اور امریکا کے درمیان معاہدے کے معاملے پر حکومت اپنا نکتہ نظر ضرور دے گی کیونکہ پورے خطے کی سیاست کے مستقبل کا انحصار دوحہ معاہدے پر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی پر داد دینی چاہیے، بھارت خود کو بھی افغانستان کے معاملے پر فریق سمجھتا ہے لیکن اس کو منہ کی کھانی پڑے گی۔

افغان معاہدے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہمیں اس معاہدے کی مکمل حمایت کرنی چاہیے، طالبان اور امریکا کے معاہدے کو شک کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے۔

سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی نے کہا کہ وزیرخارجہ نے کل پریس کانفرنس کی جبکہ ان کے علم میں تھا کہ سینیٹ کا اجلاس چل رہا ہے، وزیر خارجہ کو پریس کانفرنس کرنے کے بجائے ایوان میں آکر بیان دینا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ دونوں ایوانوں کو حکومت نے غیر فعال بنا دیا ہے، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ مذاکرات ہوئے ہیں ایک اور معاہدہ بھی ہوا ہے، ہم نے تفصیلات مانگی تھیں لیکن ٹیکنوکریٹ ایڈوائزر نے انکار کردیا۔

رضا ربانی نے کہا کہ آج کے اخباروں میں ایک خبر شائع ہوئی ہے جس کے مطابق نیپرا نے وزیراعظم کو کہا ہے کہ نیشنل پاور ایمرجنسی ڈکلیئر کردیں اور نیپرا کے اجلاس میں ورلڈ بینک کا نمائندہ بھی موجود تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ورلڈ بینک کو وزیر اعظم کے اجلاس میں شرکت نہیں کرنی چاہیے تھی، اس نمائندے نے کہا کہ گردشی قرضے کے جو اعداد و شمار دیے جا رہے ہیں ان کو ہم ماننے کے لیے تیار نہیں کیونکہ وہ درست نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کو تجارتی یونین کے اوپر پابندی لگانے کا بھی کہا گیا، ہائیڈرل نیٹ پرافٹ سے متعلق بھی کہا گیا کہ صوبوں سے لے کر وفاق کو دیا جائے۔

رضا ربانی نے سوال کیا کہ کیا منتخب وزیر اعظم ہی ملک کو چلا رہے ہیں یا غیر منتخب ٹیکنوکریٹ ایڈوائزر ملک چلا رہے ہیں۔

اپوزیشن کے مطالبے پر قائد ایوان شبلی فراز نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے رابطہ کرکے سینیٹ کو آگاہ کیا کہ وزیر خارجہ اس وقت وزیراعظم کے ساتھ ہیں تاہم ان تک پیغام پہنچا دیا گیا ہے اور وہ ایوان میں آکر معاہدے سے متعلق تفصیلات بتائیں گے۔

میڈیا کا معاشی قتل جاری ہے، پرویز رشید

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر پرویز رشید کا کہنا تھا کہ ایک اخبار جس کی پیشانی پر قائد اعظم کی تصویر ہے، وہ تصویر جس کے نیچے آپ بیٹھے ہیں، اس اخبار کو انصاف لینے کے لیے عدالت میں جانا پڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ اخبار کہہ رہا ہے کہ حکومت وقت وہ تمام حربے استعمال کر رہی ہے جس سے قائد اعظم کا جاری کردہ اخبار بند ہوجائے۔

میڈیا کے حوالے سے موجودہ حکومت کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میڈیا ہاؤسز کا معاشی قتل جاری ہے، معاشی قتل سے کارکنان کو تنخواہ نہیں مل رہی جبکہ حکومت کے پاس نواز شریف کو آنے اور جانے نہ دینے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما کا کہنا تھا کہ حکومت کا غرض یہ ہے کہ نواز شریف کو جیل میں کیسے رکھنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بجلی کی جس قلت کو ہم نے دور کیا تھا اس کا مظاہرہ بھی آپ دیکھیں گے، حکومت پیٹرول پر 41 روپے فی لیٹر زیادہ لے رہی ہے، حکومت نے پانچ روپے کم نہیں کیے بلکہ پیسے زیادہ لے رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے لیوی اور سیلز ٹیکس بڑھا گیا ہے، اضافی وصولیوں کے باعث جو اربوں روپے حاصل ہوتے ہیں ان کا کیا ہوگا، ٹیکسوں کی مد میں وصول کردہ رقم کی تفصیلات بھی ایوان کو بتانے کے لیے یہ تیار نہیں۔

پرویز رشید کا کہنا تھا کہ اقتصادی صورت حال کمزور ہو تو ملک کا دفاع اور سلامتی کمزور ہوجاتی ہے، حکومت نے ملک کے دفاع اور سلامتی کو بھی داؤ پر لگا دیا ہے، وقت ہے جو کام ان کو کرنا نہیں آتا ان کو اس کام سے دور کر دیں اور جنہیں کام کرنا آتا ہے انہیں انتقام کا نشانہ نہ بنائیں۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں موقع دیں جو لوگ اس ملک کو ترقی کے سفر پر جاری رکھیں، یہ پاکستان کے لیے زحمت بن چکے ہیں اور پاکستان میں تنزلی کا سبب ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں