لاہور: حکومت کی جانب سے رواں سال 82 لاکھ 50 ہزار ٹن بنیادی اہمیت کا حامل اناج کی خریداری سے سبسڈی کے بوجھ میں اضافہ ہوگا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سال 2 کروڑ 70 لاکھ ٹن گندم کے کُل متوقع تخمینہ میں سے 30 فیصد سے زائد کے حصول کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ فصلوں کا 60 فیصد سے زائد حصہ مارکیٹوں میں لایا جائے گا۔

رواں ماہ سے سندھ جبکہ اپریل میں پنجاب میں تازہ فصل کی تیاری کے لیے قیمت 32 ہزار 500 روپے فی ٹن سے بڑھا کر 34 ہزار 125 روپے فی ٹن ہوگئی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وفاقی حکومت اور صوبے بینکوں سے اس خریداری کی مالی اعانت کے لیے تجارتی سود کی شرح پر 2 کھرب 81 ارب 50 کروڑ روپے کے نئے قرضے حاصل کریں گے۔

— فوٹو: رمشہ جہانگیر
— فوٹو: رمشہ جہانگیر

اس رقم میں یہ قابل ذکر اخراجات شامل نہیں ہیں جو حکومت تھیلے، اناج کے ذخیرے، نقل و حمل، ہینڈلنگ اور تقسیم وغیرہ پر برداشت کرے گی اور نہ ہی اس میں اتنی بڑی تعداد میں خریداری کو سنبھالنے میں پیش آنے والے دیگر مسائل جیسے کسی حادثے یا ضائع ہوجانے جیسے عمل کی لاگت شامل ہے۔

مزید پڑھیں: پابندی کے باجود گندم اور آٹے کی برآمد معما بن گئی

علاوہ ازیں نئے قرضوں سے وفاقی اور صوبائی اجناس کے آپریشنز سے مجموعی طور پر 775 ارب روپے کے قرضوں میں نمایاں اضافہ ہوجائے گا جسے اکثر عوامی شعبے کی خریداری کے لیے ماضی میں حاصل کردہ 'گندم کے شعبے کے سرکلر قرض' کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

— فوٹو:رمشہ جہانگیر
— فوٹو:رمشہ جہانگیر

اس طرح کسانوں کی مدد اور خوردہ آٹے کی قیمتوں پر سبسڈی دینے کے جڑواں مقاصد حاصل کرنے کے لیے سال بھر اربوں خرچ کرنے کے علاوہ نقد کی کمی کا سامنا کرنے والی وفاقی حکومت اور صوبے، خاص طور پر پنجاب، شہریوں کے لیے سال بھر میں کافی بڑا قرض جمع کریں گے۔

ساتھ ہی یہ تخمینہ بھی لگایا گیا کہ پنجاب نے 2012 اور 2019 کے درمیان گندم کی سبسڈی پر 2 کھرب 91 ارب 20 کروڑ روپے خرچ کیے تاکہ کسانوں کی مدد کی جاسکے اور ملک بھر کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھی سستے آٹے کی فراہمی ہوسکے۔

واضح رہے کہ 2019 میں، وفاقی حکومت، پنجاب اور سندھ نے مل کر گندم کی سبسڈی میں تقریباً 50، 50 ارب روپے کی ادائیگی کی تھی۔

علاوہ ازیں مزید گندم کی خریداری کا فیصلہ حالیہ 'گندم، آٹے کے بحران' کے بعد سامنے آیا ہے جس نے ملک کے کچھ حصوں خصوصاً سندھ اور خیبر پختونخوا کو متاثر کیا تھا۔

اس کی وجہ سے ملز نے قیمتوں میں تیزی سے اضافہ کیا تھا کیونکہ کافی تعداد ذخیرہ ہونے کے باوجود یہ مصنوعات مارکیٹ سے غائب ہوگئی تھیں۔

ساتھ ہی موسم سرما میں صبح کے وقت دکانوں اور سرکاری سپلائی کرنے والے ٹرک کے باہر خریداروں کی تصاویر اخبارات کے صفحہ اول پر نظر آئیں، جس نے وزیر اعظم عمران خان کی توجہ اپنی حکومت کی جانب سے گندم کی تجارت میں بدانتظامی کی طرف مبذول کروائی۔

تاہم واضح رہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ حکومت گھریلو گندم کی ’اصل خریدار‘ بن چکی ہے اور نجی شعبے کو مارکیٹ سے باہر کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں گندم کا بحران: معاملے کی تحقیقات کیلئے کمیٹی قائم

اس کے علاوہ اس کی قیمت بھی طے کی جاتی ہے جس پر سرکاری اور نجی دونوں شعبے کاشت کاروں سے اجناس کو خریدتے ہیں اور انہیں اتنا منافع ہوتا ہے کہ وہ گندم کی تیاری کو جاری رکھیں تاکہ غذائی خود کفالت کو حاصل کیا جا سکے۔

اس اسکیم سے حکومت کو صارفین تک سستی قیمتوں پر آٹا فراہم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

تمام صورتحال پر ایک ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر نوید حامد کہتے ہیں کہ پاکستان میں موجودہ خریداری کا نظام دنیا میں انتہائی مہنگا اور غیر موثر ہے۔

انہوں نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی حکومت مارکیٹ میں آتی ہے ناقابلیت بھی سامنے آتی ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ قومی غذائی تحفظ کے مقصد کے حصول کے بہت سے طریقے ہیں دیگر ممالک نے اپنے کاشتکاروں کی مدد کے لیے زیادہ موثر طریقہ کار تیار کیا ہے۔

ان کا موقف ہے کہ حکومت کو کم از کم ذخائر کو برقرار رکھنا چاہیے اور اس سے فصلوں کے بعد کی فراہمی کے سلسلے اور اجناس کی ہینڈلنگ میں زیادہ سے زیادہ نجی شعبے کی شرکت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ مقامی سطح پر قیمتوں میں استحکام کے مسئلے کو مرکنٹائل ایکسچینج تیار کرکے حل کیا جاسکتا ہے, جس سے کاشتکار، تاجر، ملرز اور حکومت مستقبل کے معاہدوں کے ذریعے قیمتوں کے خدشات سے بچ سکیں جبکہ قلت کے برسوں میں گندم کی مفت درآمد اور زائد تعداد کے وقت میں برآمدات کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'قلت کے برسوں میں اگر درآمدی قیمتوں سے مقامی نرخ زیادہ ہوں تو کسانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے حکومت درآمدات پر سبسڈی دے سکتی ہے اور اگر عالمی قیمتوں میں کمی واقع ہو تو حکومت درآمدی گندم کو یقینی بنانے کے لیے ٹیرف کا استعمال کر سکتی ہے تاکہ آٹے کی قیمت پر کوئی فرق نہ آئے'۔

مزید برآں ان کا کہنا تھا کہ 'یہ ایک پیچیدہ موضوع ہے لیکن کسانوں اور صارفین دونوں کو تحفظ فراہم کرنے اور موجودہ نظام سے فائدہ اٹھانے والوں سے قومی خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے ایک موثر متبادل تلاش کیا جاسکتا ہے'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں