انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کا افغانستان میں جنگی جرائم کی تحقیقات کا حکم

اپ ڈیٹ 05 مارچ 2020
پراسیکیوٹر کو یکم مئی 2003 سے افغانستان کی حدود میں کیے گئے تمام تر جرائم کی تحقیقات کی اجازت ہو گی — فائل فوٹو: اے ایف پی
پراسیکیوٹر کو یکم مئی 2003 سے افغانستان کی حدود میں کیے گئے تمام تر جرائم کی تحقیقات کی اجازت ہو گی — فائل فوٹو: اے ایف پی

انٹرنیشنل کرمنل کورٹ نے افغانستان میں طالبان، افغان اور امریکی فورسز کے ساتھ ساتھ سی آئی اے کی جانب سے کیے گئے انسانیت سوز جنگی جرائم کے خلاف تحقیقات کا حکم دے دیا۔

امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق یہ پہلا موقع ہے کہ امریکی فورسز کے خلاف استغاثہ کو جرائم کی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل واشنگٹن انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے عدالتی دائرہ کار کو عرصے سے مسترد کرتے ہوئے تعاون سے انکار کرتا رہا ہے۔

مزید پڑھیں: طالبان حملوں میں افغان فورسز کے اہلکاروں کی ہلاکتوں کے بعد امریکا کا جوابی فضائی حملہ

2018 میں اس وقت کے امریکی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جان بولٹن نے کہا تھا کہ دنیا بھر میں ہونے والے مظالم کی دادرسی کے لیے 2002 میں اس عدالت کا قیام عمل میں آیا تھا جس سے خومختاری اور امریکی مفادات کو ناقابل قبول خطرات لاحق ہیں۔

گزشتہ سال اپریل میں پراسیکیوٹر فاتو بینسوداس نے افغانستان میں جنگی جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا اور عدالت نے جمعرات کو ان کے اس مطالبے کو تسلیم کر لیا ہے جس کے ساتھ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کا امریکی مفادات سے براہ راست ٹکراؤ ہو گیا ہے۔

گزشتہ سال ٹرائل سے قبل ہی ججز نے تسلیم کیا تھا کہ افغانستان میں بڑے پیمانے پر جرائم کا ارتکاب کیا گیا لیکن انہوں نے یہ کہہ کر تحقیقات کو مسترد کردیا تھا کہ اس معاملے میں یہ انصاف کے مفاد میں نہیں ہو گا کیونکہ ہمیں توقع ہے کہ تعاون کی کمی کے سبب اس معاملے میں کسی پر بھی فرد جرم عائد نہیں کی جا سکے گی۔

اس فیصلے پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید احتجاج کیا تھا جن کا کہنا تھا کہ عدالت نے افغانستان میں انصاف کے خواہاں متاثرہ افراد کی خواہش کو نظر انداز کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کا طالبان رہنما ملا برادر سے ٹیلی فونک رابطہ

انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کی جانب سے افغانستان میں جنگی جرائم کی تحقیقات کے اعلان کے باوجود یہ دیکھنا ہو گا کہ آیا جنگی جرائم کے مشتبہ ملزمان پر ہیگ کی عالمی عدالت میں فرد جرم عائد کی جاتی ہے یا نہیں کیونکہ امریکا اور افغانستان دونوں ہی اس تحققیات کی شدید مخالفت کر چکے ہیں اور امریکی حکومت نے اس سلسلے میں کسی بھی قسم کے تعاون سے مکمل انکار کردیا تھا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے مظلوں کے لیے امید کی کرن قرار دیا گیا ہے۔

دسمبر میں ہونے والی سماعت کے دوران پراسیکیوٹر نے تسلیم کیا تھا کہ پری ٹرائل ججز نے گزشتہ سال اپریل میں عالمی عدالت انصاف میں تحقیقات کی اجازت نہ دے کر اپنے اختیارات سے تجاوز کیا تھا اور اب اپیل ججز نے اس بات کو تسلیم کیا۔

معاملے کی سماعت کرنے والی انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے بینچ کی سربراہ پیتور ہوفسمانکی نے کہا کہ جس فیصلے کے خلاف اپیل کی گئی تھی اپیل چیمبر نے اس میں ترمیم کو مناسب سمجھا اور اب اس کے تحت پراسیکیوٹر کو یکم مئی 2003 سے افغانستان کی حدود میں کیے گئے تمام تر جرائم کی تحقیقات کی اجازت ہو گی۔

مزید پڑھیں: امریکا: کورونا وائرس سے ہلاکتیں 11 تک پہنچ گئیں، کیلیفورنیا میں ایمرجنسی نافذ

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی اطلاعات ہیں کہ امریکی فوج اور خفیہ ایجنسیوں نے افغانستان اور دیگر علاقوں میں 2003-2004 کے دورانیے میں زیر حراست افراد کو تشدد، بہیمانہ رویے، ریپ اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔

امریکا کی قید میں موجود افراد کی نمائندگی کرنے والے آئینی حقوق کے سینٹر کی سینئر اسٹاف اٹارنی کیتھرین گیلیگر نے کہا کہ آج یہ بات ثابت ہو گئی کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں اور ایک اُمید پیدا ہوئی ہے کہ انصاف دستیاب ہے اور اس کا سب پر اطلاق ہو گا۔

گیلیگر جن افراد کی نمائندگی کر رہی ہیں وہ اب بھی گوانتاناموبے میں امریکی قید میں موجود ہیں جن کے نام شرقاوی الحاج اور گولیڈ دران ہیں جبکہ تیسرے فرد کی موت ہونے کے سبب اس کی بیوی نے انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔

پراسیکیوٹر بینسوڈا نے افغانستان میں جنگی جرائم کی تحقیقات کی درخواست دیتے ہوئے کہا تھا کہ طالبان اور دیگر شدت پسند گروپوں کے ہاتھوں 2009 کے بعد 17 ہزار عام شہریوں کا قتل ہوا جن میں سے 7ہزار افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا اور ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ افغان سیکیورٹی فورسز بھی حراستی مراکز میں ملزمان کو تشدد کا نشانہ بنانے کے جرائم میں ملوث ہیں۔

یاد رہے کہ جمعرات کو انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کی جانب سے یہ فیصلہ ایک ایسے موقع پر سنایا گیا جب چند دن قبل ہی امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس سے جسم کے مختلف حصوں پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟

دسمبر میں سماعت کے موقع پر افغانستان نے کہا تھا کہ انہیں تحقیقات پر اعتراض ہے اور جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے انہوں نے خصوصی یونٹ بنا لیا ہے، انٹرنیشنل کرمنل کورٹ صرف ان مقدمات کا فیصلہ کر سکتا ہے جن کو مقامی سطح پر منطقی انجام تک پہنچایا نہ گیا ہو۔

یاد رہے کہ 2018 میں اس وقت کے امریکی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جان بولٹن نے 9/11 حملوں کی برسی کے موقع پر کہا تھا کہ امریکا اس ناجائز عدالت کی غیرمنصفانہ کارروائی سے اپنے شہریوں اور اسرائیل جیسے اتحادی ممالک کے شہریوں کی حفاظت کے لیے ضرورت پڑنے پر ہر حد تک جا سکتا ہے۔

وائٹ ہاؤس نے کہا تھا کہ امریکی قوانین جہاں تک اجازت دیتے ہیں، ٹرم انتظامیہ ان کے مطابق انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے ججز اور پراسیکیوٹرز کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کر سکتی ہے اور ان پر امریکی عدالت میں مقدمہ بھی چلایا جا سکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں