دنیا بھر میں گردوں کی امراض کی شرح میں ڈرامائی اضافہ

07 مارچ 2020
یہ بات ایک تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

جب کسی فرد میں گردوں کے دائمی امراض (سی کے ڈی) نمودار ہوتے ہیں تو گردوں کے افعال آنے والے مہینوں یا برسوں میں سست ہوجاتے ہیں۔

یاد رہے کہ گردے خون میں موجود اضافی سیال اور کچرے کو فلٹر کرتے ہیں اور جب وہ ایسا نہیں کرپاتے تو یہ جمع ہونے لگتے ہیں۔

ابتدائی مراحل میں سی کے ڈی کی کوئی علامات نہیں ہوتیں مگر علاج نہ ہونے پر یہ بڑھ کر گردوں کے امراض کی آخری اسٹیج تک پہنچ جاتی ہے، جس کے لیے ڈائیلاسز یا گردوں کی پیوندکاری کی ضرورت پڑتی ہے۔

ان امراض میں شروع میں تو علامات نظر نہیں آتیں مگر بعد میں خارش، مسلز میں اکڑن، قے اور متلی، بھوک ختم ہوجانا، پیروں اور ٹخنوں میں سوجن، بہت زیادہ پیشاب آنا یا نہ ہونے کے برابر آنا، سانس لینے میں مشکلات اور نیند نہ آنا جیسی علامات سامنے آسکتی ہیں۔

گردوں کے امراض کے شکار افراد میں دل کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے جو 'سی کے ڈی' کے شکار افراد میں اموات کی سب سے عام وجہ ہے۔

ہائی بلڈ پریشر یا ذیابیطس سی کے ڈی کا باعث بننے والے عام وجوہات ہیں مگر یہ ایچ آئی وی انفیکشن یا زہریلے مواد کا اثر بھی ہوسکتا ہے، کئی بار مرکزی وجہ معلوم بھی نہیں ہو پاتی۔

سی کے ڈی کا کوئی علاج نہیں مگر طرز زندگی میں تبدیلیاں اس کی حالت کو مزید بدتر ہونے سے بچاتا ہے۔

اب طبی جریدے دی لانسیٹ میں ایک تحقیق شائع ہوئی ہے جس میں جائزہ لیا گیا ہے کہ سی کے ڈی یا گردوں کے دائمی امراض کے شکار افراد کی تعداد دنیا بھر میں کتنی ہے۔

اس تحقیق میں 195 ممالک میں 359 امراض اور انجریز کے صحت پر اثرات جبکہ 85 خطرے کے عناصر کا موازنہ کیا گیا۔

محققین نے حکومتی ریکارڈز، گردوں کے امراض کی رجسٹریز، گھریلو سروے ڈیٹا اور دیگر ذرائع سے معلومات جمع کی گئیں اور ایک اعدادوشمار کا ماڈل استعمال کرکے سی کے ڈی کے عالمی بوجھ، اموات کی شرح اور دیگر کا تعین کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق 2017 میں دنیا بھر میں لگ بھگ 70 کروڑ افراد سی کے ڈی کے شکار ہوئے اور 12 لاکھ اموات ہوئیں، اس کے علاوہ 13 لاکھ سے زائد اموات دل کی شریانوں سے جڑے امراض کی وجہ سے ہوئیں جو گردوں کے افعال میں تبدیلیوں کا نتیجہ تھیں۔

جب محققین نے سابقہ برسوں سے ان اعدادوشمار کا موازنہ کیا تو معلوم ہوا کہ سی کے ڈی سے اموات کی شرح میں 1990 سے 2017 کے درمیان 41 فیصد اضافہ ہوا، یعنی یہ دنیا بھر میں اموات کا باعث بننے والی وجوہات میں 17 ویں سے 12 ویں نمبر پر آگیا۔

اس عرصے کے دوران ڈائیلاسز کی شرح میں 43.1 فیصد جبکہ گردوں کی پیوندکاری کی شرح میں 34.4 فیصد اضافہ ہوا۔

محققین نے تخمینہ لگایا کہ عالمی سطح پر سی کے ڈی کی وجہ سے ساڑھے 3 کروڑ سے زائد افراد معذوری کا شکار ہوتے ہیں، جن میں سے ایک تہائی کا طرز زندگی ذیابیطس سے گردوں کے امراض سے متاثر ہوتی ہے۔

محققین نے بتایا کہ گردوں کے دائمی امراض عالمی سطح کے ایسے قاتل ہیں جو بظاہر چھپے رہتے ہیں، شواہد سے واضح ہے کہ متعدد ممالک میں صحت کا نظام ڈائیلاسز کی طلب پوری نہیں کرپاتا، کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے اور نظام ان کا بوجھ سنبھال نہیں پارہا، اس کے نتیجے میں یہ جان لیوا ثابت ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بیشتر ممالک میں اس حوالے سے کوئی معیاری تحقیقی رپورٹس ہی موجود نہیں اور ڈیٹا بھی محدود ہے، جس سے ہوسکتا ہے کہ یہ اعدادوشمار کم یا زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ سی کے ڈی کی روک تھام ممکن اور علاج ہوسکتا ہے اور لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کے ساتھ عالمی سطح پر پالیسیوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں