بہن کو وراثت نہ دینے والے کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہ دی جائے، جماعت اسلامی

سراج الحق نے کہا کہ موجودہ حکومت میں تو خواتین کیا، مرد بھی پریشان ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
سراج الحق نے کہا کہ موجودہ حکومت میں تو خواتین کیا، مرد بھی پریشان ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد: عالمی یوم نسواں کے موقع پر جماعت اسلامی کے حلقہ خواتین کی جانب سے 'تکریم نسواں واک' کا انعقاد ہوا، جس میں امیر جماعت اسلامی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مطالبہ کیا کہ جو مرد اپنی بہن کو وراثت میں حق نہ دے اسے الیکشن لڑنے نہ دیا جائے۔

جماعت اسلامی پاکستان کے حلقہ خواتین کے تحت اسلام آباد میں 'تکریم نسواں واک' منعقد کیا گیا، جہاں بارش کے باوجود سیکڑوں خواتین اپنے حقوق کے لیے جمع ہوئیں جبکہ اس دوران جماعت اسلامی کی جانب سے خواتین کے حقوق اور تحفظ کے لیے چارٹر آف ڈیمانڈ بھی پیش کیا گیا۔

جماعت اسلامی کے حلقہ خواتین کے تحت مارچ کا آغاز نیشنل پریس کلب سے ہوا اور اس میں شریک شرکا چائنہ چوک پہنچے۔

بہن کو وراثت نہ دینے والے کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہ دی جائے، سینیٹر سراج الحق

'تکریم نسواں واک' کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ موجودہ حکومت میں تو خواتین کیا، مرد بھی پریشان ہیں۔

— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

انہوں نے مطالبہ کیا کہ جو مرد اپنی بہن کو وراثت میں حق نہ دے الیکشن کمیشن اس کو الیکشن نہ لڑنے دے اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ آئندہ الیکشن میں جماعت اسلامی کسی ایسے مرد کو ٹکٹ نہیں دے گی جو بہنوں کی وراثت میں حق مارے۔

ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کے کسی امیدوار کو ٹکٹ نہیں دوں گا جب تک وہ بہن کو حصہ دینے کا سرٹیفیکیٹ نہیں دے گا۔

مزید پڑھیں: مرد اور عورت کو لڑوانے والے خاندانی نظام کے دشمن ہیں، سراج الحق

امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ خواتین کو تعلیم کے بجٹ میں 33 فیصد حصہ دیا جائے، دفاتر میں کرنے والی خواتین کے تحفظ کے لیے حکومت قانون سازی کرے، ہر دیہات میں خواتین کا الگ ہیلتھ یونٹ قائم کیا جائے، خواتین کے لیے ٹرانسپورٹ کا الگ نظام قائم کیا جائے۔

سراج الحق نے مطالبہ کیا کہ خواتین کے لیے تمام جاہلانہ رسومات کا خاتمہ کیا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ عرصے میں 3 ہزار بچے اور معصوم بچیاں اغوا ہوئیں، زینب الرٹ بل کے نام پر معصوم بچیوں کے قاتلوں کو تحفظ دیا گیا جبکہ اس بل میں معصوم بچیوں سے درندگی کرنے والوں کو صرف چند سال قید کی سزا کیوں دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے بیرونی قوتوں اور آئی ایم ایف کے کہنے پر بچیوں کے قاتلوں کی سزائے موت سے تحفظ دیا۔

امیر جماعت اسلامی نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے اور صرف 8 مارچ کو خواتین ڈے کی بجائے پورا سال خواتین کی عزت و ناموس کے نام کرتا ہوں۔

چارٹر آف ڈیمانڈ

جماعت اسلامی کے حلقہ خواتین کے تحت منعقدہ 'تکریم نسواں واک' کے دوران سابق رکن قومی اسمبلی عائشہ سید نے چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا، جس کے مطابق:

  • وراثت کفالت اور حق مہر کے لیے کی گئی قانون سازی پر عمل درآمد کیا جائے۔

  • ہیلتھ سینٹرز پر لیڈی ڈاکٹر کی تعیناتی کو یقینی بنایا جائے۔

  • قرآن سے شادی مذہب کے نام پر استحصال اور شریعت اسلامی کے خلاف ہے اس پر فی الفور پابندی عائد کی جائے۔

  • بے گناہ عورتوں کو کاروکاری کے نام پر قتل کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔

  • عورت کی خرید و فروخت اور استحصال بند کیا جائے۔

  • جائیداد کی تقسیم سے بچنے کے لیے عورتوں کی شادیاں قابل تعزیز جرم قرار دیا جائے۔

  • جہیز کے رواج کی حوصلہ شکنی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

  • عورتوں کو علاقائی رسم و رواج کے خلاف عدالت میں رجوع کا حق دیا جائے۔

  • خاندانی نظام کے استحکام کے لیے نکاح کو آسان کیا جائے۔

  • عورتوں کو فرسٹ ایڈ اور شہری دفاع کی تربیت دی جائے۔

  • عورتوں کے لیے سپورٹس، تفریح و جسمانی صحت کے لیے مساوی سہولیات دی جائیں۔

  • خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو ہر سطح پر روکا جائے۔

  • انصاف کی فوری فراہمی کے لیے خاتون محتسب کا ادارہ قائم کیا جائے۔

  • خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے پر کڑی سزا دی جائے۔

  • خواتین پر تشدد، دھمکی، اور ذہنی اذیت کے واقعات کو روکنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔

  • خودکشی یا حادثاتی اموات کی صورت میں عدالتی تحقیقات کی جائیں۔

  • اغوا شدہ اور بہکائی جانے والی عورتوں کے لیے خصوصی بحالی سنٹرز قائم کیے جائیں۔

  • ذرائع ابلاغ کے ذریعے خواتین کی استحصال کو بند کیا جائے۔

  • خواتین کو محض تفریح اور مصنوعات کی فروخت کے لیے آلہ کار بنائے جانے کے رجحان کا خاتمہ کیا جائے۔

  • خواتین کو وراثت میں پورا حق دیا جائے۔

  • خواتین کو قانون سازی اور سیاسی نمائندگی کے لیے اسمبلی میں مساوی حق دیا جائے۔

  • خواتین کو سرکاری اداروں میں ایڈہاک کی بجائے مستقل تعینات کیا جائے۔

  • خواتین یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔

  • دفاتر اور صنعتی اداروں میں کام کرنے والی خواتین کو مردوں کے مساوی تنخواہ دی جائے۔

کوئی عورت یا مرد اچھا اور برا نہیں، امیر جماعت اسلامی

اس سے قبل سراج الحق نے مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ خواتین کا مارچ اسلام آباد کی تاریخ میں بڑا پروگرام ہے، آپ جمہوریت اور انسانیت کی نمائندگی کررہی ہیں۔

امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ کنبہ میں مرد اور دونوں شامل ہیں، کوئی عورت اچھی اور بری نہیں کوئی مرد بھی اچھا اور برا نہیں۔

— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

سراج الحق کا کہنا تھا کہ اسلام نے خواتین کو نجی اور سیاسی معاملات میں شریک کیا، اسلام نے خواتین کو وراثت اور تعلیم کا حق دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مغرب کی عورت کے پاس جسم کے علاوہ کوئی چیز نہیں رہی، ہمارے معاشرے میں عورت ماں ہے، بہن اور بیٹی ہے، اسلام نے بھائی، شوہر اور اولاد کی صورت میں ایک محافط اور چوکیدار دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جامعہ حفصہ کی طالبات نے عورت مارچ سے متعلق وال چاکنگ کی ’ذمہ داری قبول‘ کرلی

انہوں نے کہا کہ وہ خواتین جو میرے جسم میری مرضی کے پلے کارڈز اٹھارہی ہیں انہیں میں غلط نہیں سمجھتا ہوں، ہوسکتا ہے وہ عورت طلاق یافتہ یا کسی کے ظلم کا شکار ہو، ہم خواتین کا جرگہ ان خواتین کے پاس بھجوائیں گے اور ہم آپ خواتین کے ہر مسئلے پر آواز اٹھائیں گے اور انہوں نے ساتھ یہ بھی اعلان کیا کہ اگر وہ خواتین چاہیں گی تو ان کی سینیٹ میں آواز بنوں گا۔

خواتین کے عالمی دن کے موقع پر مقبوضہ کشمیر کی خواتین کا ذکر کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں آج ماؤں بہنوں اور بیٹیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔

اس موقع پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا ذکر کرتے ہوئے سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ طالبان اپنے 5 ہزار قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ کر لیا لیکن ہماری گونگی بہری حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کچھ نہ کر سکی۔

اسلامی معاشرے میں عورت کو تمام حقوق حاصل ہیں، امیر جماعت اسلامی پنجاب

اس سے قبل 'تکریم نسواں واک' کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پنجاب ڈاکٹر طارق سلیم کا کہنا تھا کہ عورتوں کے حقوق کی بات کر نے والوں کو امریکی قید میں ڈاکٹر عافیہ اور کشمیری خواتین کیوں نظر نہیں آتیں۔

— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

انہوں نے کہا کہ عورت کی جس آزادی کی بات اسلام بیزار طبقہ کر رہا ہے اس سے مغرب کی خواتین کا بھی استحصال ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلامی معاشرے میں عورت کو تمام حقوق حاصل ہیں اور وہ باعث رحمت اور برکت سمجھی جاتی ہیں، ہمارا مطالبہ ہے کہ عورت کی تکریم کی جائے اسے برہنہ کر کے اشتہارت کی زینت نہ بنایا جائے۔

مزید پڑھیں: جماعت اسلامی کا حکومتی پالیسیز، مہنگائی کے خلاف احتجاجی مہم کا اعلان

اس موقع پر جماعت اسلامی کی رہنما عائشہ سید کا کہنا تھا کہ حکومت کاروکاری جیسے قبیح رسم و رواج کے خاتمے کا اعلان کرے۔

— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

انہوں نے کہا کہ بلاول بتائیں کہ انہوں نے سندھ میں خواتین کو کتنے حقوق دیے کیونکہ سندھ میں آج بھی قرآن سے شادی کی جاہلانہ رسوم موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آج بھی ملک کی خواتین ظلم کی چکی میں پس رہی ہیں، تعلیم اتنی مہنگی ہو چکی کہ آج بچیوں کی تعلیم ایک خواب ہے اور ساتھ ہی مطالبہ کیا کہ بچیوں کہ تعلیم کے لیے الگ الگ کالجز اور یونیورسٹیاں بنائی جائیں۔

پشاور میں تقدس خواتین مارچ کا انعقاد

علاوہ ازیں پشاور میں بھی جماعت اسلامی شعبہ خواتین کے زیر اہتمام عالمی یوم نسواں کے سلسلے میں تقدس خواتین مارچ کا انعقاد ہوا، خواتین نے آرکیائیو ہال سے گورنر ہاوس تک ریلی نکالی۔

جس میں جماعت اسلامی حلقہ خواتین کی صوبائی ناظمہ و سابق رکن قومی اسمبلی بیگم عنایت آمین نے شرکت کی جبکہ آرکیائیوز ہال سے شروع ہونے والے مارچ میں دیگر خواتین کی بھی کثیر تعداد شرکت تھی۔

اس دوران مارچ کے شرکا نے مطالبہ کیا کہ ہمیں جو حقوق اسلام نے دیے ہیں، وہ ہمارے حقوق ہیں، ہمیں باپ، بھائی اور شوہر کو ہر مقام پر سپورٹ کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ حیا عورت کا دوسرا نام ہے، میرا معاشرہ مجھے تسلیم کرے کیونکہ میں نسلوں کی معمار ہوں اور ساتھ ہی وراثت میں حصے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

اس موقع پر تقدس خواتین مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ ہماری خواتین گھروں میں بھی اپنا اسلامی کردار ادا کریں گی اور مغربی روایات کے خلاف سڑکوں پر بھی نکلے گی۔

انہوں نے کہا کہ بچوں کی تربیت ہو یا دین کی تعلیمات ہوں خواتین کا کردار نمایاں ہے، مسلم خواتین کی تاریخ ہمارے لیے سرمایہ ہے اور امت کی ترقی و مسائل کے حل کے لیے خواتین کردار ادا کریں گی۔

عالمی یوم نسواں

پاکستان سمیت دنیا بھر میں 8 مارچ کی مناسبت سے مختلف تقریبات و مظاہروں کا انعقاد کیا گیا ہے اور دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن ’میں مساوات پر یقین رکھنے والی نسل ہوں اور مجھے خواتین کے حقوق کا ادراک ہے‘ کے عزم کے اظہار کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔

’یوم خواتین‘ منانے کا آغاز ایک صدی سے زائد عرصے سے قبل 1909 میں امریکا سے اس وقت شروع ہوا تھا جب خواتین نے پہلی بار فیکٹریوں میں ملازمت کے لیے اپنی تنخواہیں بڑھانے اور وقت کی میعاد مقرر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

اس سے قبل خواتین کو ملازمتوں کے دوران کم اجرت دیے جانے سمیت ان سے زیادہ دیر تک کام کروایا جاتا تھا۔

خواتین اس تفریق کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں اور جلد ہی انہوں نے اپنے مطالبات تسلیم کروالیے تاہم خواتین کی جانب سے حقوق کے لیے جدوجہد ختم ہونے کے بجائے بڑھتی چلی گئی اور آنے والے سال میں خواتین نے اپنے ساتھ ہونے والی دیگر ناانصافیوں پر بھی آواز اٹھانا شروع کی۔

جلد ہی امریکا سے لے کر یورپ اور پھر ایشیا اور افریقہ جیسے خطے میں خواتین کے مظاہرے ہونے لگے اور خواتین کی تنظیمیں اور دیگر ایکشن فورم تشکیل پانے لگے اور ان ہی پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے ہوئے خواتین نے دنیا کو اپنی اہمیت و حیثیت سے آگاہ کیا۔

کئی سال کی محنت اور مظاہروں کے بعد 1977 میں اقوام متحدہ (یو این) نے 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا اور تب سے ہر سال اسی دن پر دنیا کے تقریبا تمام ممالک میں خواتین مختلف تقریبات، سیمینارز اور مظاہروں کا انعقاد کرتی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں