سعودی عرب میں کئی فلسطینیوں پر ‘حماس سے تعلق کے الزام’ پر مقدمات قائم

اپ ڈیٹ 11 مارچ 2020
سعودی حکام نے کئی 60 سے زائد فلسطینیوں کو گزشتہ برس سے حراست میں رکھا ہوا ہے—فوٹو:الجزیرہ
سعودی حکام نے کئی 60 سے زائد فلسطینیوں کو گزشتہ برس سے حراست میں رکھا ہوا ہے—فوٹو:الجزیرہ

سعودی عرب کی حکومت نے فلسطین سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد پر حماس سے رابطے کا الزام عائد کرتے ہوئے دہشت گردی کے مقدمات قائم کردیے۔

قطری نشریاتی ادارے 'الجزیرہ' نے عرب پریس کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ فلسطین اور اردن سے تعلق رکھنے والے 68 افراد کے خلاف دارالحکومت ریاض میں قائم دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔

مقدمات کا سامنا کرنے والے افراد کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ ہمارے لوگوں کو بغیر کسی قانونی معاونت کے مقدمات کا سامنا ہے اور زیر حراست افراد کو سعودی عرب کی خفیہ پولیس نے گزشتہ برس اپریل میں گرفتار کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:سعودی فرماں روا کے بھائی، بھیتیجے ’بغاوت کی منصوبہ بندی‘ پر زیر حراست

زیر حراست افراد میں 81 سالہ محمد الخضری بھی شامل ہیں جو طویل عرصے سے سعودی عرب میں مقیم ہیں۔

غزہ میں موجود ریٹائرڈ ڈاکٹر محمد الخضری کے اہل خانہ کے مطابق انہیں کینسر کا عارضہ لاحق ہے۔

ان کے بیٹے ہانی کو بھی حراست میں لیا گیا ہے جو سعودی عرب کی یونیورسٹی میں آئی ٹی کے پروفیسر تھے اور کسی سیاسی سرگرمی میں شامل نہیں تھے۔

محمد الخضری کے بھائی عبدالمجید کا کہنا تھا کہ دونوں افراد کو گزشتہ 7 ماہ سے قید تنہائی میں رکھا ہوا ہے اور ممکنہ طور پر اگلی پیشی 5 مئی کو ہوگی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ‘مذکورہ دو افراد کی گرفتاری سعودی حکام کی جانب سے سعودی عرب میں مقیم فلسطینی شہریوں کے خلاف مبینہ طور پر حماس سے تعلق کے الزام میں جاری وسیع کارروائیوں کا حصہ ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘فروری 2019 سے اب تک سعودی حکام نے تقریباً 60 فلسطینیوں کو گرفتار کرلیا ہے جو یا تو سعودی عرب میں رہائش پذیر تھے یا دورے پر آئے ہوئے تھے جن میں طلبہ، ماہر تعلیم اور کاروباری افراد شامل ہیں’۔

خیال رہے کہ سعودی عرب میں موجودہ قیادت کے اقتدار سے قبل محمد الخضری کئی دہائیوں تک سعودی عرب میں حماس کے نمائندے تھے اور اس وقت فلسطین کی حامی حکومتیں تھیں لیکن اب حالات اس کے برعکس ہیں۔

مزید پڑھیں:سعودی عرب میں ’سیکیورٹی کریک ڈاؤن‘ فوجی افسران تک پھیل گیا

حماس کو عرب دنیا میں عام طور پر اسرائیل کے قبضے کے خلاف قانونی مزاحمتی تحریک کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔

خطے کے امور کے ماہرین کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت کی پالیسی میں اسرائیل کی جانب جھکاؤ قیادت کے تبادلے کے اندر دیکھا جائے تو سمجھ آجاتی ہے۔

سعودی عرب کے 84 سالہ فرمانروا شاہ سلمان 2015 میں مملکت کے سربراہ بنے تھے جس کے بعد انہوں نے اپنے 34 سالہ بیٹے محمد بن سلمان کو وسیع اختیارات سونپ دیے جنہوں نے اصلاحات کا اعلان کیا اور کئی تبدیلیاں کیں۔

پروفیسر مہجوب زویری کے مطابق محمد بن سلمان، سعودی عرب کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہیں جس کے لیے بیرونی خاص کر امریکا اور اسرائیل کی سیاسی تعاون کی اشد ضرورت ہے۔

قطر یونیورسٹی میں گلف اسٹڈیز سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر مہجوب کا کہنا تھا کہ مجھے سعودی حکومت کی جانب سے فلسطینیوں کو حماس کی حمایت پر گرفتار کرنے پر کوئی تعجب نہیں ہے۔

ادھر حماس کی جانب سے جاری بیان میں ان گرفتاریوں کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ سعودی عرب میں فلسطینی شہریوں پر ان جھوٹے الزامات اور غیر منصفانہ مقدمات کے حوالے سے معاملات کو دیکھا جارہا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ ‘سعودی پولیس کی جانب سے گرفتار کیے گئے فلسطینیوں نے کوئی جرم نہیں کیا، سوائے بیت المقدس کے دفاع کے ان کا کوئی جرم نہیں ہے’۔

یہ بھی پڑھیں:کرپشن کے الزام میں کھرب پتی سعودی شہزادے سمیت 11 گرفتار

واضح رہے کہ سعودی حکام نے گزشتہ ہفتے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے بھائی اور بھتیجے سمیت 3 شہزادوں کو بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے کے الزام میں حراست میں لے لیا تھا۔

امریکی اخبار 'وال اسٹریٹ جرنل' نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ شاہ سلمان کے بھائی شہزادہ احمد بن عبدالعزیز اور ان کے بھتیجے شہزادہ محمد بن نائف کو بغاوت کے الزام میں ان کی رہائش گاہوں سے سیاہ نقاب پوش شاہی محافظوں نے گرفتار کیا۔

امریکی اخبار نے رپورٹ میں کہا تھا کہ سعودی شاہی عدالت نے ماضی میں تخت کے ممکنہ دعویدار رہنے والے 2 افراد پر ’شاہ اور ولی عہد کو ہٹانے کے لیے بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے‘ کا الزام عائد کیا ہے اور انہیں تا عمر قید اور سزائے موت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں