افرا تفری نہ پھیلائیں، یہ کورونا سے زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے، عمران خان

اپ ڈیٹ 21 مارچ 2020
وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے معاملے پر سینئر صحافیوں سے ملاقات کی— فوٹو: اسکرین شاٹ
وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے معاملے پر سینئر صحافیوں سے ملاقات کی— فوٹو: اسکرین شاٹ

وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے خطرات کے باوجود ملک کو مکمل طور پر لاک ڈاؤن نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے قوم اور میڈیا سے درخواست کی ہے کہ افراتفری نہ پھیلائیں کیونکہ افراتفری اس ملک میں وہ نقصان پہنچا سکتی ہے جو کورونا بھی نہیں پہنچائے گا۔

اسلام آباد میں سینئر صحافیوں سے ملاقات کے بعد گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ کورونا کے معاملے کی روزانہ کی بنیاد پر مانیٹرنگ کریں گے اور چین کے تجربات سے استفادہ کریں گے جبکہ جو بھی صورتحال ہوگی عوام کے سامنے رکھیں گے۔

'تفتان میں سہولیات کا فقدان تھا'

انہوں نے کہا کہ 15 جنوری کے قریب جب یہ وبا چین میں پھیلی تو ہم نے فیصلہ کیا کہ اس پر مسلسل نظر رکھیں گے کیونکہ ہمیں خوف تھا کہ وائرس چین سے آئے گا کیونکہ چینی ورکرز یہاں کام کر رہے ہیں اور ہم چینی حکومت کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ جب ایران سے زائرین آنا شروع ہوئے تو ہم ایران کی حکومت سے مسلسل رابطے میں تھے کہ کس طرح صورتحال سے نمٹا جائے اور اس کے بعد ڈاکٹر ظفر مرزا خود تفتان گئے اور انہوں نے صورتحال دیکھ کر ہمیں بتایا کہ بہت برے حالات ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تفتان میں زائرین کی اسکریننگ کے لیے کوئی سہولت نہیں تھی، اس کے بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان اور سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر سہولیات فراہم کیں اور ان سہولیات کی فراہمی بہت مشکل کام تھا۔

عمران خان کا کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے کہنا کہ اس میں کسی کی غلطی ہے یہ کہنا بالکل غلط ہوگا اور کسی پر الزام لگانا زیادتی ہوگی خصوصاً وزیر اعلیٰ جام کمال پر الزام لگانا زیادتی ہو گی کیونکہ وہ کافی مشکلات سے گزرے ہیں اور ہم سے مسلسل رابطے میں تھے۔

عمران خان کا ایران سے عالمی پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ مسئلہ یہ ہوا کہ ایران میں جب یہ وائرس تیزی سے پھیلنا شروع ہوا تو اس سے نمٹنے کی خود ایران کی اپنی صلاحیت ختم ہو گئی۔

انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ ایران پر سے عالمی پابندیاں ہٹائی جائیں کیونکہ یہ بہت بڑا ظلم ہے کہ وہ اتنی بڑی وبا سے نمٹ رہے ہیں اور ان پر یہ پابندیاں لگائی جائیں۔

'چین سے پاکستان میں ایک بھی کیس نہیں آیا'

وزیر اعظم نے کہا کہ چین کو میں داد دیتا ہوں کہ کیونکہ وہاں موجود ہمارے طلبہ کے والدین کی وجہ سے ان پر بہت دباؤ تھا کہ ان کو پاکستان لایا جائے لیکن انہوں نے ہمیں یقین دہانی کرائی کہ ہم ان کا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں چین کو اس لیے بھی داد دوں گا کہ پاکستان میں ایک بھی کیس چین سے نہیں آیا جو ان کی تنظیمی صلاحیت اور اس کی افادیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

'پاکستان کو وائرس سے دو بڑے خطرات لاحق ہیں'

عمران خان نے خبردار کیا کہ پاکستان کو اس وائرس سے دو بڑے خطرات لاحق ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اگر یہ یورپ کی طرح یکدم پھیلتا ہے تو 4 سے 5 فیصد ہسپتالوں کو آئی سی یو کی ضرورت پڑے گی اور اگر تعداد بڑھ جاتی ہے تو یہ ہمارے لیے بہت بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اٹلی میں انہیں اسٹاف نہیں مل رہا، نرسز نہیں مل رہیں، ڈاکٹرز نہیں مل رہے اور سب سے بڑھ کر آئی سی یو وینٹی لیٹرز نہیں مل رہے لہٰذا ہمیں خوف یہ ہے کہ اگر اٹلی کی طرح تیزی سے کیسز بڑھے تو ہمارے لیے بہت مشکل ہو جائے گا۔

یاد رہے کورونا وائرس کے سبب اب تک دنیا میں سب سے زیادہ ہلاکتیں اٹلی میں ہوئی ہیں اور وہاں 3 ہزار 400 سے زائد افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔

وزیراعظم کا قوم کے نام پیغام

وزیر اعظم نے قوم کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ موجودہ صورت حال میں لفظ استعمال کیا جا رہا ہے social distancing (سماجی فاصلہ) یہ بہت ضروری ہے، اس سے بچنے کے لیے عوام کو خود منظم اور ڈسپلن ہونا پڑے گا جو ہمیں اس مشکل مرحلے سے نکالے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ تفتان سے آنے والے کیسز کے علاوہ پاکستان میں اب تک یہ وائرس قابو میں ہے اور ہم اس پر قابو پا سکتے ہیں، اگر ڈیڑھ مہینے تک عوامی مقامات تک نہ جائیں اور اگر کسی میں بیماری کی علامات ظاہر ہوں تو وہ خود محدود (قرنطینہ) کر لے اور یہ ہسپتال جانے سے زیادہ ضروری چیز ہے کیونکہ 90 فیصد لوگوں کو ہسپتال کی ضرورت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر لوگ خود کو گھروں میں محدود کر لیں گے تو اس کے بڑھنے کے امکانات کم ہوں گے، ہم نے دنیا کے تجربات سے سیکھا ہے کہ یہ اس سے نمٹنے کا سب سے بہترین طریقہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'مشکل یہ ہوتی ہے کہ جس کو انفیکشن ہو وہ ہسپتال چلا جائے، آگے ہسپتال میں مریض ہیں تو اس میں پھر پھیلنے کا زیادہ ڈر ہوتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ اس جہاد میں پہلے کی صفوں میں ہمارے محکمہ صحت کے ڈاکٹرز، نرسز وغیرہ ہوں گے کیونکہ انہیں ہی اس سے لڑنا ہے، ہم کوششش کر رہے ہیں کہ ان کے لیے کٹس آ جائیں، ان کو محفوظ رکھنے کے لیے ہم چیزیں فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

افرا تفری کورونا سے زیادہ بڑا نقصان پہنچا سکتی ہے

عمران خان نے کہا کہ دوسرا خطرہ اس سے بھی بڑا ہے اور وہ یہ کہ معاشرے میں افراتفری پھیل جائے، خوف کی فضا پیدا ہو جائے اور اس کے اندر میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے۔

انہوں نے میڈیا مالکان سے اپیل کی کہ ہمارے تبصرہ نگار، اینکرز اور صحافی وغیرہ کا اکثر سنسنی خیز خبروں اور بریکنگ نیوز پر بڑا زور ہوتا ہے اور میڈیا ریٹنگ کی وجہ سے یہ بات سمجھ بھی آتی ہے لیکن ان حالات میں ہم پیمرا کو ہدایات جاری کریں گے کیونکہ یہ افراتفری اس ملک میں وہ نقصان پہنچا سکتی ہے جو کورونا بھی نہیں پہنچائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم سب نے پریشان ہو کر کھانے پینے کی چیزیں خریدنا شروع کردیں تو چیزوں کی قلت ہو جائے گی، اگر سب لوگ بھاگے بھاگے سپر مارکیٹ جائیں گے تو کوئی بھی حکومت کچھ نہیں کر سکتی کیونکہ اگر کھانے پینے کی چیزیں غائب ہو گئیں اور چیزوں کی قیمتیں آسمانوں پر چلی گئیں تو اس کا حکومت کیا کرے گی۔

'حکومت نہیں، بحیثیت قوم کورونا کے خلاف جیت سکتے ہیں'

وزیر اعظم نے کہا کہ کوئی بھی یہ نہیں بتا سکتا کہ کورونا وائرس کی اگلے ایک مہینے، دو مہینے یا 6 مہینے میں کیا صورتحال ہو گی، بہت ضروری ہے کہ ہم پورا معاشرہ مل کر اس وائرس کا سامنا کریں، کورونا وائرس سے کوئی حکومت نہیں جیت سکتی، قوم جیت سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا وفد چین کے صدر سے ملا تو انہوں نے اپنی قوم کو داد دی، ایک قوم نے مل کر وہ کیا ہے جو مغرب کے ملک اس طرح نہیں کر سکے لیکن ایک قوم کے ڈسپلن، ایک لیڈر شپ نے مل کر اسے شکست دی۔

وزیراعظم کا میڈیا سے ذمے داری کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ

وزیر اعظم نے میڈیا سے درخواست کی کہ وہ ذمے داری کا مظاہرہ کریں، آگے آنے والے دنوں میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کہاں تک پہنچ سکتا ہے لیکن میڈیا کا اس میں بہت بڑا کردار ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ اس معاملے پر دو حکمت عملی سامنے آرہی ہیں، ایک حکمت عملی سندھ حکومت نے کراچی کو لاک ڈاؤن کر کے اپنائی ہے اور دوسری ہماری اسٹریٹیجی ہے اور دونوں میں زیادہ فرق نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت جہاں بھی لوگ جمع ہوسکتے ہیں، انہیں جمع نہ ہونے دیا جائے مثلاً کرکٹ میچ ختم کردیے، اسکول، یونیورسٹیز، سینما اور کہیں بھی اجتماع نہ ہو کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ وائرس کیسے پھیلتا ہے۔

'پورا ملک لاک ڈاؤن نہیں کر سکتے'

تاہم انہوں نے سندھ حکومت کی طرح مکمل لاک ڈاؤن پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہماری صورتحال اٹلی جیسی نہیں کیونکہ ان کی فی کس آمدنی ہم سے بہت زیادہ ہے، لہٰذا ہم پورا ملک لاک ڈاؤن نہیں کرسکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے ہاں چھابڑی والے، چھوٹے دکاندار اور روزانہ کی بنیاد پر کمانے والے بیلچا لے کر انتظار کر رہے ہیں کہ ہمیں کام ملے تو اگر ہم مکمل لاک ڈاؤن کر دیتے ہیں تو ہمیں خوف ہے کہ ایک، دو ہفتے یا تین ہفتے یہ لوگ کیا کریں گے، کیا ہمارے پاس اس طرح کی سہولیات ہیں کہ ہم ان سب تک پہنچ سکیں؟'

وزیراعظم کا معاشی پیکج اور امداد کا اعلان

عمران خان نے کہا کہ میں منگل کو تعمیراتی صنعت کو خصوصی مراعات دینے کا اعلان کروں گا اور اس کا مقصد لوگوں کو نوکریوں کے مواقع فراہم کرنا ہے، ہمارے پاس اس طرح کی سہولیات نہیں ہیں لہٰذا ایسا نہ ہو کہ ہم لوگوں کو کورونا سے بچانا چاہیں اور وہ بھوک و افلاس سے مر جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن سے ہمارے محکمہ صحت بھی متاثر ہو گا، ہسپتالوں کو اشیا کی فراہمی مشکل ہو جائے گی اور پھر ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر عملے کو کام پر جانا ہے جو لاک ڈاؤن سے مشکلات کاشکار ہوجائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونے سے روکا جائے اور عوام سے مطالبہ کیا کہ خود ڈسپلن کا مظاہرہ کریں اور ان جگہوں پر نہ جائیں جہاں عوام موجود ہیں۔

وزیر اعظم نے منگل کو وائرس سے مقابلے کے لیے ایک معاشی پیکج کا اعلان بھی کیا جس میں ہر صنعت کو تحفظ فراہم کیا جائے گا تاکہ وہ اس کشمکش کی صورتحال کا مقابلہ کر سکیں اور ہم انہیں کورونا وائرس کے منفی اثرات سے بچا سکیں۔

تبصرے (0) بند ہیں