لکھاری فری لانس صحافی ہیں۔
لکھاری فری لانس صحافی ہیں۔

بندشیں، لاک ڈاؤن، مکمل پابندیاں، بند سرحدیں، ایمرجنسیوں کا نفاذ (یا اگر آپ فلپائن میں ہیں تو آفت)، درجہ حرارت کے پیمائشی ڈرون اور شہریوں کی ٹریکنگ کے لیے موبائل ڈیٹا کی نگرانی، صنعت کو سرکاری ہدایتیں، آج کی حقیقت یہ ہے کہ کورونا وائرس نے ہم سب کو آمرانہ طریقہ کار اپنانے پر مجبور کردیا ہے۔

کورونا وائرس کی روک تھام انتہائی اہم ہے، مگر ہمارے سیاسی نظام پر اس وائرس کے کون سے دیرپا اثرات مرتب ہوں گے، اس پر اب غور و فکر کرنے کا وقت آگیا ہے۔ جمہوریت تو خاص طور پر اس عالمی وبا کی زد میں آتی نظر آرہی ہے۔

انتہائی سادہ یا عام سطح پر بھی اس عالمی وبا نے یہ واضح کردیا ہے کہ کس طرح ووٹنگ کا پورا نظام بھی انتشار پر غالب نہیں آسکتا۔ دنیا کے کئی حصوں میں مقامی و قومی سطح کے انتخابات کو منسوخ کیا جارہا ہے۔ بحران کے بیچ سامان کی ترسیل محال اور مہنگی بنی ہوئی ہے جبکہ پولنگ کے دوران سماجی دُوری کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ یہ تاخیر یقیناً نظام پر اعتماد کو ٹھیس پہچائے گی کیونکہ معیاری مینڈیٹ سے محروم لیڈران اس نئے بے مثل بحران میں سے کسی نہ کسی طرح اپنا راستہ بناسکتے ہیں۔

جمہوری ریاستوں میں مشکل فیصلے لینے میں سیاسی رہنماؤں کی ہچکچاہٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور چین کے فوری ایکشن کی مثالیں بھی دی گئی ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ جمہوری نظام میں اتفاقِ رائے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے کیونکہ اس نظام میں مختلف محمکہ جات اور متعدد سیاسی اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت لازم ہوتی ہے۔ پھر کئی مرتبہ تو تاخیر اس لیے بھی ہوتی ہے کہ سیاسی رہنما اس بارے میں بھی سوچتے ہیں کہ جو فیصلہ وہ لینے جارہے ہیں اس کے سیاسی نتائج کیا ہوں گے؟ وجہ جو بھی ہو لیکن جمہوریت ایک کمزور اور نامکمل نظام نظر آیا۔

یہی وجہ ہے کہ کہ گزشتہ کچھ مشکل ہفتوں میں یہ نظام کسی بھی طور پر کارآمد ثابت نہیں ہوا۔ مرکزیت سے عاری نظام میں صوبوں اور ریاستوں کی جانب سے ایک دوسرے سے الگ الگ طریقوں بلکہ بعض اوقات یکسر مختلف اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں جس کے باعث وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ مزید بڑھ گیا ہے۔ اب تو جمہوریت کے سخت حامی بھی مرکزیت پر مبنی کمانڈ اور کنٹرول کی طرف جھکاؤ رکھنے لگے ہیں۔

بدقسمتی سے کئی جمہوری رہنماؤں نے تو اپنے خراب رویوں کے لیے Covid-19 کو بطور بہانہ پیش کرنا شروع کردیا ہے۔ امریکا نے اپنی غیرمعقول سفری پابندیوں کا کام تیز کردیا ہے۔ سنگاپور اور اسرائیل کی حکومتیں موبائل فونز کے ذریعے شہریوں کی ٹریکنگ شروع کرنے کے لیے بحران کی آڑ لے رہی ہیں۔ دہلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کارکن نے وائرس کے پھیلاؤ کا الزام شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر عائد کیا ہے۔

دنیا بھر میں صحافی کورونا وائرس کی روک تھام سے متعلق حکومتی ردِعمل پر تنقید یا پھر اعداد کی بنیاد پر سوال کرنے پر دباؤ اور خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔ بعدازاں چند ہفتوں بعد جب صورتحال مزید سنگین ہوگئی تب کہیں جاکر اقوام متحدہ کے نمائندگان برائے انسانی حقوق کے گروہ نے حکومتوں کو یہ یاددہانی کروائی کہ وہ جابرانہ، امتیازی یا غیر آئینی اقدامات کے لیے Covid-19 کا سہارا نہ لیں۔

جب جمہوریت کا سب سے بڑا اثاثہ یعنی احتساب کمزور ہو تو اس قسم کا بُرا رویہ تو برقرار رہے گا۔ تیزی سے بدلتے حالات و واقعات اور بحران کی بے مثل نوعیت کے باعث میڈیا، عدالتوں اور سول سوسائٹی جیسے احتساب میں اہم کردار ادا کرنے والے ادارے زیادہ مؤثر انداز میں اپنا کام انجام نہیں دے پاتے۔ قلیل مدتی تناظر میں اس کا نتیجہ مشکوک فیصلہ سازی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ طویل مدتی تناظر میں دیکھیں تو آج کی غلطیوں کو سیاسی رہنماؤں کی صریح بے حسی، ضمیر فروشی یا نااہلی کی مثالوں کے طور پر پیش کیا جاتا رہے گا جبکہ آمرانہ سوچ کے حامل لوگ جمہوری نظام کو مزید کمزور کرنے کی سرتوڑ کوششیں جاری رکھیں گے۔

مگر اس بحران کے سبب ہم اس نظام پر اپنے اعتماد کو کمزور نہیں پڑنے دے سکتے۔ جمہوریت اگر سرگرم عمل اور معیاری ہو تو یہ شفافیت اور احتساب کے عمل کو برقرار رکھتے ہوئے آمرانہ نظام جیسی اثر انگیزی بھی فراہم کرسکتی ہے۔

مغربی پریس میں روزانہ بڑھا چڑھا کر بتایا جاتا ہے کہ یہ ’حالتِ جنگ والی جمہوریت‘ ہے۔ اس تصور کے مطابق فوری فیصلے لینے کے لیے جمہوریت متحدہ عوامی مینڈیٹ (جو آمرانہ ریاستوں میں شاذو نادر ہی پایا جاتا ہے) پر انحصار کرسکتی ہے جبکہ اپنے کاموں کے لیے جوابدہ ہوتی ہے (یہ مت بھولیے کہ چین میں آج بھلے ہی نئے کیس رپورٹ ہونا بند یا کم ہوگئے ہیں اور کورونا وائرس پر ضابطہ لاکر دنیا کو حاسد بنایا جارہا ہے لیکن وہاں ابتدائی طور پر وائرس کی پھوٹ کو دبانے کی کوشش کی گئی تھی جو اس کے پھیلنے کی وجہ بنی۔)

جمہوری نظاموں کو بحران سے نمٹنے کے دوران حقیقی دباؤ کا سامنا نہیں ہے بلکہ جب وائرس کے پھیلاؤ کی رفتار قابلِ انتظام حد تک لائی جائے گی اور لوگ یہ دیکھیں گے کہ ان کی حکومتیں کتنی جلدی عمومی نظام کی طرف لوٹتی ہیں۔ کتنی جلدی اور سرگرمی کے ساتھ حکومتیں ہنگامی اقدامات پر نظرثانی کرتی ہیں، نگرانی اور ٹریکنگ کی ضرورت ختم ہونے پر ان سے متعلق اصولوں کا خاتمہ لاتی ہیں اور سب سے اہم یہ کہ کتنی جلدی اور سرگرمی کے ساتھ شہریوں کی ترجیحات اور ضروریات کو سمجھنے کے لیے ان سے دوبارہ رابطے میں آتی ہیں۔

علاوہ ازیں ایک بار جب وائرس پر ضابطہ پالیا جائے گا تو پھر ہم اس بات کو تسلیم کریں گے کہ عالمی وبا سے ہونے والے نقصان کا ازالہ صرف ایک مضبوط جمہوری نظام کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ جب نقصان زدہ معیشتوں اور سماجوں کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جائے گی تب ہمیں ایک مشمولہ نمائندگی درکار ہوگی تاکہ تمام حلقوں کی بات سنی اور ان سے حساب کتاب لیا جاسکے۔

ہمیں سماجی فلاحی پروگراموں کی ضرورت ہوگی، مقامی حکومتوں کو بنیادی سطح پر عوام سے رابطے میں آنا ہوگا، اور سویلین پالیسی ترتیب دینی ہوں گی تاکہ معاشی تنزلی کے دوران چھوٹے بڑے جرائم میں ہونے والے اضافے سے نمٹا جاسکے۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ عالمی سطح پر عوامی ترجیحات سننے، مستقبل میں پھر کبھی ایسے بحران سے بچنے اور معیاری صحت اور تعلیم کی سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں حکومتیں درکار ہوں گی اور ان کاموں کے لیے جمہوری حکومتیں ہی بہترین ثابت ہوسکتی ہیں۔


یہ مضمون 23 مارچ 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Furrukh Rao Mar 25, 2020 06:27am
Asal Baat Yehi Hai Jamhooriyat Bhe Har Jaga Fit Nahi Hoti.