Dawnnews Television Logo

پاکستان کورونا وائرس سے کیسے بچ سکتا ہے؟ اعداد و شمار سے جانیے

وائرس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ تو اپنی بقا کی جنگ لڑرہا ہے اور اس دوران کتنے ہی لوگ ہلاک ہوجائیں اس کی بلا سے۔
اپ ڈیٹ 31 مارچ 2020 02:53pm

خطرناک کورونا وائرس، جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ انسانی آنکھ سے نظر نہ آنے والا ایک جینیاتی پیغام جو جسم میں داخل ہوکر خلیوں میں تخریب کاری کا باعث بنتا ہے۔ سرِدست اس مرض کا کوئی علاج دستیاب نہیں۔ تادمِ تحریر 20 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے تو ساڑھے 4 لاکھ افراد اس مرض سے متاثر ہوچکے ہیں۔

اس مضمون میں ہم کوشش کریں گے کہ جان پائیں کہ یہ وائرس کیا ہے؟ ہم من حیث القوم یا انفرادی طور پر اس سے بچاؤ کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟ پاکستانی نظامِ صحت کتنا بوجھ برداشت کرسکتا ہے؟ پاکستان میں موجود مریضوں کی تعداد کا تخمینہ کیسے لگایا جاسکتا ہے اور کیسے ہم سب مل کر اس کو شکست دے سکتے ہیں؟

سرِدست اس مرض کا کوئی علاج دستیاب نہیں۔ تادم تحریر 20 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں—رائٹرز
سرِدست اس مرض کا کوئی علاج دستیاب نہیں۔ تادم تحریر 20 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں—رائٹرز

کورونا وائرس کیا ہے؟

نوول کورونا وائرس جس کی ابتدا دسمبر 2019ء میں چین سے ہوئی تھی، یہ درحقیقت کورونا وائرس فیملی سے تعلق رکھتا ہے اور یہ وائرس 60 کی دہائی سے ہمارے درمیان موجود ہے۔ یہ جینیاتی تبدیلیوں کے ساتھ الگ الگ انداز میں حملہ آور ہوتا رہتا ہے۔

سارس (SARS - Severe Acute Respiratory Syndrome) اور مرس (MERS - Middle East Respiratory Syndrome) کا تعلق بھی اسی خاندان سے ہے۔ نئے آنے والے وائرس کو نوول کورونا اور اس سے ہونے والی بیماری کو کووڈ 19 (COVID-19) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ایک زونوٹک وائرس ہے جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چونکہ یہ انسانی وائرس نہیں، لہٰذا اس کے خلاف ہماری قوتِ مدافعت بھی خاصی کمزور ہے۔

نئے آنے والے وائرس کو نوول کورونا اور اس سے ہونے والی بیماری کو کووڈ 19 (COVID-19) کا نام دیا گیا ہے
نئے آنے والے وائرس کو نوول کورونا اور اس سے ہونے والی بیماری کو کووڈ 19 (COVID-19) کا نام دیا گیا ہے

ایک اندازے کے مطابق یہ چمگادڑوں کے یا بجّو (پانگولان) سے انسانوں میں پھیلا۔ درمیان میں کوئی اور جانور بھی اسی تسلسل میں استعمال ہوسکتے ہیں۔ کورونا وائرس کے نتیجے میں ہونے والی اموات 20 ہزار سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ ایبوالا نے 4 سالوں میں کوئی 11 ہزار لوگوں کو ہلاک کیا اور کورونا 3 مہینوں میں اس سے کہیں زیادہ لوگوں کو اپنا شکار بنا چکا ہے۔

کورونا کے خلاف اقوام کا طرزِ عمل

بات کرتے ہیں کہ اقوامِ عالم نے اس وبا کے خلاف بحیثیت ملک یا قوم کیا حکمتِ عملی اختیار کی۔ مختلف ممالک کے رویوں اور حالیہ اموات کو دیکھتے ہوئے ہم ان کے ردِعمل کو 6 درجوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

مختلف ممالک کے ردِعمل کو 6 درجوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
مختلف ممالک کے ردِعمل کو 6 درجوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

اسٹیج اول

کچھ نہیں ہوگا۔ یہ سب اُڑی اڑائی باتیں ہیں۔ بلاوجہ کا خوف و ہراس پھیلایا جارہا ہے۔ ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں کو نہیں ہوگا۔ ہم پاک وصاف لوگ ہیں، چائنیز کی طرح چمگادڑ نہیں کھاتے، یہ مسلمانوں کے خلاف کفّار کی سازش ہے تاکہ طالبان کی جیت کی خبر کو دبایا جاسکے وغیرہ، وغیرہ۔ اور قوم کچھ نہیں کرتی بلکہ باقی ملکوں کی پریشانی پر مزے لیتی ہے. آج بھی بھارت میں اگر کچھ ہزار لوگ مرجائیں تو ہم لوگوں نے خدا کی لاٹھی کا جشن منانا ہے.

اسٹیج دوم

کچھ کیسز ملک میں سامنے آئے ہیں مگر ہم پھر بھی یہی کہتے ہیں کہ محض اتفاق ہے۔ ان لوگوں نے سفر کیا ہوگا یا ان کے گناہوں کا صلہ ہے۔ بحیثیت ملک پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ انفرادی گناہوں کی اس جینیاتی تبدیلی (mutation) کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔

اسٹیج سوم

اب ملک میں زیادہ کیسز ہوجاتے ہیں اور اموات میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ لیکن ہم پھر بھی وہی راگ الاپتے ہیں کہ گھبرانا نہیں ہے۔ یہ کچھ دنوں کی بات ہے۔ ہر چیز مکمل طور پر ہمارے کنٹرول میں ہے۔ یہ تو تفتان اور سکھر میں ہے۔ میں تو کراچی، اسلام آباد میں رہتا ہوں، وغیرہ۔ اگر ملک بند کردیا تو لوگ کھائیں گے کہاں سے؟

کوروناوائرس گوگل میپ
کوروناوائرس گوگل میپ

اسٹیج چہارم

اب کیس مسلسل بڑھ رہے ہیں اور ہلاکتیں بھی اسی رفتار سے قابو سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔ زیادہ لوگ ہسپتالوں کا رخ کررہے ہیں اور جو لوگ قرنطینہ میں بند تھے وہ وہاں سے فرار ہونے کی کوششوں میں ہیں۔ حکومت اب بھی بوکھلاہٹ کا شکار ہے کہ آیا ملک کو بند کریں یا نہ کریں۔ وہ افراتفری میں کچھ جزوی اقدامات کرتی ہے مثلاََ ہوائی جہاز اور ریل گاڑیوں کی آمدورفت کو بند کر ینا، کچھ گھنٹوں کا کرفیو لگا دینا وغیرہ۔ مگر اب دیر ہوچکی ہے۔ پاکستان آج کل اس اسٹیج پر ہے۔ بقول شاعر

نظر انداز کر مجھ کو ذرا سا کھل کر جینے دے

کہیں ایسا نہ تیری نگہبانی سے مرجاؤں

اسٹیج پنجم

زیادہ کیس، زیادہ اموات، اب حکومت ہو یا عوام سب گھبراہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ عوام ذخیرہ اندوزی شروع کردیتی ہے، حکومت ہر دوسری شے کے اوپر کریک ڈاون کرتی ہے۔ صحت کا نظام بیٹھ جاتا ہے اور ملک گھنٹوں کے حساب سے جھکتا چلا جاتا ہے۔ حکمران بیماری یا کوئی اور بہانہ بنا کر سائیڈ پر ہوجاتے ہیں اور ملک کا نظم و نسق فوج کے پاس چلا جاتا ہے

اسٹیج ششم

مکمل شٹ ڈاؤن۔ ملک گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ ہر محلے میں لاشیں گرتی ہیں۔ نہ آپ غسل دے سکتے ہیں نہ جنازہ پڑھا سکتے ہیں۔ ہر شخص دوسرے کے لیے اچھوت ہوجاتا ہے۔ ملک کو خود ایک وینٹیلیٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر وہ بھی دستیاب نہیں ہوتا۔

ہمیں آج ہی سے سیلف آئسولیشن میں چلے جانا چاہیے ورنہ اس وائرس کو پھیلنے سے روکنا تقریباََ ناممکن ہوجائے گا۔

کورونا وائرس کی ٹیسٹنگ

کورونا وائرس اور اس جیسی وبا کو روکنے کے لیے عموماََ 4 جہتوں میں کام کرنا ہوتا ہے وہ بھی ایک ساتھ۔

پتا لگانا (Detection)

جلد از جلد پتا لگایا جاسکے کہ کون کون بیمار ہے اور کون نہیں اور کتنے لوگ آبادی میں بیمار ہیں۔

علاج معالجہ (Treatment)

مریضوں کی دیکھ بھال اور دوائیوں کی فراہمی۔

شفایابی (Cure)

بیماری کا علاج دریافت کرنا۔

پیش بینی (Prediction)

تخمینہ لگانا کہ اس سے کتنے لوگ متاثر ہوں گے اور ہم کیا کریں گے تاکہ ان کی تعداد کو کم کیا جاسکے۔

کورونا وائرس اور اس جیسی وبا کو روکنے کے لیے عموماََ 4 جہتوں میں کام کرنا ہوتا ہے وہ بھی ایک ساتھ
کورونا وائرس اور اس جیسی وبا کو روکنے کے لیے عموماََ 4 جہتوں میں کام کرنا ہوتا ہے وہ بھی ایک ساتھ

کسی بھی ملک کی اوّلین ترجیح یہی ہوتی ہے کہ کم سے کم لوگ اس وائرس کا شکار ہوں، یا کم از کم ان کے بیمار ہونے کی رفتار کو کم کیا جاسکے تاکہ ایک ہی وقت میں بہت سارے لوگ نظامِ صحت کو ناکارہ نہ بنا دیں۔

اس امر میں کورونا وائرس کی ٹیسٹنگ بہت ضروری ہے۔ یہ ناک اور حلق سے رطوبت کے نمونے سے کی جاتی ہے جسے SWAB کہتے ہیں اور پھر RT- PCR کے ذریعے معلوم کیا جاتا ہے کہ آیا مریض کو کورونا ہے بھی یا نہیں۔ اس عمل میں 3 گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔

پاکستان نے تادمِ تحریر 5 ہزار 444 ٹیسٹ کیے ہیں جن میں سے 784 پازیٹو آئے ہیں یعنی 14 فیصد مثبت کیس، جو انتہائی پریشان کن بات ہے۔

باقی ملکوں سے موازنہ کیا جائے تو ہم نے فی 10 لاکھ صرف 24 ٹیسٹ کیے ہیں اس لیے ہمارے پاس کورونا وائرس کے مریضوں کی تعد کم نظر آرہی ہے۔

دنیا کی اوسط پر نظر ڈالیں تو وہاں اوسطاً فی 10 لاکھ پر 570 ٹیسٹ ہوئے۔ چائنہ نے فی 10 لاکھ 2 ہزار 820 اور جنوبی کوریا نے 3 ہزار 692 ٹیسٹ کیے ہیں۔ امریکا روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 16 ہزار ٹیسٹ کر رہا ہے۔ جتنے زیادہ ٹیسٹ ہوں گے اتنے زیادہ کیس سامنے آئیں گے۔

انڈیا کا بھی یہی حال ہے۔ اس نے 636 اضلاع میں سے صرف 27 اضلاع میں 14 ہزار ٹیسٹ کیے ہیں۔ ٹیسٹ نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کی تعداد کم ہونا کوئی اچھی بات نہیں۔ آپ چلتے پھرتے ایٹم بم پر بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ تمام لوگ جو وائرس کی زد میں آچکے ہیں مگر انجان ہیں اور باقی لوگوں کو روزانہ کی بنیاد پر متاثر کر رہے ہیں۔

شعبہ صحت کا انفرا اسٹرکچر (Health Infrastructure)

وبا کی صورت میں کسی بھی ملک میں صحت کی دستیاب سہولتیں پہلا ڈیفنس ثابت ہوتی ہیں۔ پاکستان میں صحت کی سہولتیں یا ہیلتھ انفرااسٹرکچر کسی بھی طرح اس وبا سے نمنٹنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

پاکستان میں ڈاکٹرز کی کل تعداد

پاکستان میں ڈاکٹروں کی تعداد 2 لاکھ 10 ہزار ہے اور ان میں سے بھی کوئی 25 ہزار ملک سے باہر کام کررہے ہیں ۔ آپ مکمل تعداد کو بھی دیکھیں تو قریباََ ہر ہزار پاکستانیوں پر ایک ڈاکٹر ہے۔ اب ظاہر ہے ہر ڈاکٹر وبا پر تو کام نہیں کر رہا ہوگا۔ کوئی دل کا ڈاکٹر تو کوئی سماعت یا دماغ کا۔ اگر ہم دل کھول کر بھی بات کریں تو ہم بمشکل 20 ہزار ایسے ڈاکٹرز جمع کر پائیں گے جو کورونا کی وبا میں فرنٹ لائن کا کردار نبھا سکیں، یعنی ہر ایک لاکھ 20 ہزار پاکستانیوں پر ایک ڈاکٹر۔

پمز کے آئیسولیشن وارڈ کے باہر شہری کھڑے ہیں—محمد عاصم
پمز کے آئیسولیشن وارڈ کے باہر شہری کھڑے ہیں—محمد عاصم

پاکستان میں نرسوں کی تعداد ایک لاکھ 10 ہزار ہے یعنی ہر 2 ہزار پاکستانیوں پر ایک نرس۔

پاکستان میں وینٹی لیٹرز کی قلت

ہسپتالوں میں بیڈز کی تعداد ایک لاکھ 19 ہزار ہے یعنی 2 ہزار پاکستانیوں پر ایک بیڈ، اور ہمارے ملک میں اس وبا سے نمنٹنے کے لیے سب سے ضروری مشین وینٹی لیٹر ہے جن کی تعداد 813 ہے جو قابلِ استعمال حالت میں ہیں۔ یعنی 2 لاکھ 70 ہزار پاکستانیوں کے لیے ایک وینٹی لیٹر۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں کل ملا کر صرف 20 وینٹی لیٹرز ہیں۔

کورونا وائرس آپ کے پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے اور آپ بغیر وینٹی لیٹر کے خود سے سانس لینے کے قابل نہیں رہتے۔ ایسے میں اگر ہر 2 لاکھ 70 ہزار لوگوں میں صرف ایک مشین دستیاب ہوگی تو آپ خود سمجھ جائیں کہ کتنے لوگوں کی جانوں کو خطرہ ہوسکتا ہے اور وہ مشین کس کے حصے میں آئے گی۔

اس حکومت کو فوری طور پر وینٹی لیٹرز کی ایمرجنسی نافذ کرنی چاہیے جیسے پچھلی حکومتوں کے پاس یلو کیب تھیں۔ ایسے ہی گرین وینٹی لیٹرز بھی ہونے چاہئیں۔ امریکا کے پاس ایک لاکھ 60 ہزار وینٹی لیٹرز ہیں، ہمیں بھی کم از کم ایک لاکھ 11 ہزار چاہئیں تاکہ ہر 2 ہزار بندوں پر ایک وینٹی لیٹر تو ہو۔ کوئی ملک آپ کا دوست ہے، کوئی این جی او آپ کی مدد کرنا چاہتی ہے، سیلانی ٹرسٹ ہو یا ایدھی، آئی ایم ایف ہو یا ورلڈ بینک، بل گیٹس ہو یا ملک ریاض، اقوامِ متحدہ ہو یا پاکستان آرمی، آپ صرف ایک بات کریں کہ وہ آپ کو وینٹی لیٹرز دے دیں اور ہم بحثیت قوم یہ احسان ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

ریسکیو 1122 کے رضاکار سول سیکریٹریٹ پشاور میں ملازمین کی اسکینگ کر رہا ہے—وائٹ اسٹار
ریسکیو 1122 کے رضاکار سول سیکریٹریٹ پشاور میں ملازمین کی اسکینگ کر رہا ہے—وائٹ اسٹار

قرنطینہ سینٹرز بنانے میں کی جانے والی غلطی

حکومت نے عجلت میں مختلف شہروں میں قرنطینہ سینٹرز بنانے کا اعلان کیا ہے، لیکن اس میں سوچ و بچار کی ضرورت تھی جو کسی نے نہیں کی۔ تفتان سے آئے لوگوں کو آپ فیصل آباد جیسے آبادی والے شہر کے بیچوں بیچ زرعی یونیورسٹی میں قرنطینہ میں رکھوا رہے ہیں۔ ایکسپو سینٹر کراچی میں 10 ہزار بیڈز لگا دیے۔ اب ان 10 ہزار کنفرم کورونا کے مریضوں کی دیکھ کے لیے آپ کو کم از کم 40 ہزار بندے چاہیئں۔

پاک فوج کا کردار اور جواں مردی سر آنکھوں پر، مگر کیا وہ وبائی امراض سے نمنٹنے کے لیے ٹرینڈ ہیں؟ فوج جان لینے کے لیے ٹرینڈ ہوتی ہے نہ کہ بچانے کے لیے۔ پرسنل پروٹیکٹیو ایکوئیپمنٹ کے بغیر ان سے کام کروانا قتل کے مترادف ہے۔ پھر یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ان 50 ہزار لوگوں کا کھانا کون لائے گا؟ یہ وائرس ائیر بورن ہوکر قریبی کن بستیوں میں جائے گا۔

میڈیکل اور انسانی فضلہ کیسے ٹھکانے لگایا جائے گا۔ مجھے ڈر ہے شہر کے بیچوں بیچ یہ قرنطینہ سینٹرز کورونا کو پھیلانے کے ہاٹ اسپاٹس نہ بن جائیں۔ آپ انٹرنیٹ پر جاکر امریکا اور چین کے Quarantine Rooms دیکھیں اور پھر ان کا موازنہ قطار در قطار لگے ہمارے بستروں سے کریں آپ کو میری بات سمجھ آجائے گی۔ ایک عام شخص گھر میں سیلف آئسولیشن میں قرنطینہ سینٹر سے کہیں زیادہ محفوظ ہے، جب تک وہ اپنے آپ کو سنبھال سکے۔ وبائی امراض کو سنبھالنے کے لیے میڈیکل سائنس میں کئی انٹرنیشنل پروٹوکولز ہیں جن کا خیال ہمارے قرنطینہ سینٹرز میں رکھنا ناممکن ہے۔

اس لیے اس بات کو سمجھنا ہم سب کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کا ہیلتھ انفرااسٹرکچر کہیں سے بھی اس قابل نہیں ہے کہ وہ اس وبا کا مقابلہ کرسکے۔ ہم اگر ٹیسٹنگ اور وینٹی لیٹرز میں اپنی استعداد کو بڑھا سکیں تو ایک قابلِ ستائش کام ہوگا۔

ڈینگی ہر سال آتا ہے، SARS اور MERS بھی، چکن گونیا اور برڈ فلو بھی تو اگر خدانخواستہ کورونا بھی اگلے سال لوٹ آیا تو ہم کیا کریں گے؟ اس لیے پہلے سے تیاری بہت ضروری ہے تاکہ ہر بار ہمیں قیمتی جانوں کا نقصان نہ اٹھانا پڑے۔

اس اس اہم نقطے کو بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ جو ڈاکٹرز اور نرسز فرنٹ لائن پر کام کر رہے ہیں ان کے بارے میں خدشات ہیں کہ وہ بھی بیمار ہوسکتے ہیں جس سے ہماری استعداد پر مزید فرق پڑے گا۔

حکومت کیا کرے؟

آئیے بات کرتے ہیں کہ اس ساری صورتحال میں حکومت کیا کرسکتی ہے؟

پہلا کام

پہلا کام جو ہماری حکومت کو کرنا چاہیے وہ یہ کہ مکمل شٹ ڈاون کرکے لوگوں کو گھر پر بٹھا دیں۔ بھارت میں کرفیو لگ گیا ہے اور 12 گھنٹوں کے لیے سعودی عرب میں شام 7 بجے سے صبح 6 بجے تک کے لیے کرفیو ہے۔ امریکا میں کیلیفورنیا، نیویارک سمیت دیگر ریاستیں تقریباََ بند ہوچکی ہیں۔ ایسا کرنے سے آپ وائرس کے پھیلاؤ کو روک سکیں گے۔

پاکستان ایک غریب ملک ہے، لوگ کیا کریں گے؟ اگر حکومت ہر بالغ پاکستانی کو ایک ہزار روپے گھر بٹھا کر دے تو 10 کروڑ پاکستانیوں کے لیے کُل ایک ارب 20 کروڑ ڈالرز بنے گے۔ آپ نے حال ہی میں مردم شماری کی ہے اور خاندانوں کے سربراہ کا ڈیٹا آپ کے پاس ہے۔ آپ ان کے شناختی کارڈ نمبر کو ٹیکس نمبر بنا دیں اور موبائل فون کے ذریعے پیسے بھیج دیں جیسے ایزی پیسہ یا جاز کیش۔

ایسا کرنے سے آپ ایک تیر سے بہت سے شکار کرلیں گے۔ یہ 10 کروڑ لوگ بیک وقت نادرا سے متصل ہوجائیں گے، ٹیکس نیٹ میں آجائیں گے اور ڈیجیٹل والٹ استعمال کرنے لگیں گے اور شاید آپ کی بات سن کر گھر بیٹھ جائیں۔ اب اس کے بعد جو شخص بغیر کسی مجبوری آپ کو سڑک پر ملے اسے 10 ہزار جرمانہ کردیں۔

وزیراعظم اپنی کابینہ کے اراکین اور دیگر افسران سے مشاورت کر رہے ہیں—وزیرِاعظم ہاؤس
وزیراعظم اپنی کابینہ کے اراکین اور دیگر افسران سے مشاورت کر رہے ہیں—وزیرِاعظم ہاؤس

اب یہ نہ کہنا کہ ایسا کرنے کے لیے آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ ہم سالانہ 90 کروڑ ڈالر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور 20 کروڑ ڈالر احساس پروگرام پر خرچ کرتے ہیں۔ ہم نے بجلی کے بل میں ٹیکس لگا کر نیلم جہلم ڈیم بنالیا، ڈیم فنڈ میں پیسے جمع کرلیتے تو بحثیت قوم ہم وینٹی لیٹر بھی خرید سکتے ہیں اور لوگوں کو کم از کم اتنی رقم فراہم کرسکتے تھے جو عالمی سطح پر بنیادی تنخواہ سمجھی جاتی ہے۔

امریکا اپنے ہر شہری کو ایک ہزار ڈالر دینے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ یورپ نے بھی کچھ ایسا ہی کرنا ہے اور آئرلینڈ نے نہ صرف 1600 یورو ہر گھر کو دیے بلکہ ان کے بجلی اور پانی کے بل بھی معاف کردیے۔

اگر آپ ان ایک ارب 20 کروڑ ڈالرز کو بچانے کا سوچ رہے ہیں تو متبادل دیکھیے۔ ایک شخص کا کورونا ٹیسٹ تقریباً 8 ہزار میں ہورہا ہے۔ پورے ملک کے لیے آپ کو 11 ارب ڈالر چاہیئں۔ اگر کوئی شخص ہسپتال تک پہنچ گیا تو مریض کی لاگت 12 سے 15 لاکھ تک آئے گی۔ یہ بنے تقریباً 2 کھرب 20 ارب ڈالرز تو کیا ہی اچھی بات ہے کہ سیکڑوں گنا کم پیسہ لگا کر اپنی مرضی کے فوائد حاصل کرلیے جائیں جو سب کے لیے بہتر ہیں۔

پھر کیوں نہ ہم اس مصیبت کو بہتری کے لیے استعمال کریں اور پورے ملک میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا رجحان لے آئیں۔

ٹیلی کام کمپنیز اگر ایک ماہ کے لیے تمام صارفین کو انٹرنیٹ کی سروس مفت فراہم کریں تو لوگ گھر بیٹھ کر آن لائن کورسز بھی کرسکتے ہیں، اور کمپنیز کی رقم اشتہارات سے باآسانی پوری ہوجائے گی۔ یہ وقت نفع نقصان سوچنے کا نہیں یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر ملک کی بہتری کے لیے کام کریں۔

دوسرا کام

دوسرا اہم کام جو حکومت کو کرنا چاہیے وہ یہ کہ جو ڈاکٹرز اور نرسز اپنے فائنل ائیر میں ہیں انہیں فاسٹ ٹریک پر ڈال کر گریجویٹ کردیں۔ برطانیہ نے ایسا ہی کیا ہے۔ اس طرح آپ کو مزید ڈاکٹرز اور نرسز مل جائیں گے۔ پاکستان میں جو ڈاکٹرز اور نرسز پاس آوٹ ہوچکے ہیں وہ بھی لائسنس کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ مزید یہ کہ ریٹائرڈ ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو آن ڈیوٹی کال کرلیا جائے کہ بوجھ کچھ تو بٹے۔

تیسرا کام

تیسرا اور سب سے اہم کام جو حکومت کرسکتی ہے وہ ہے صحیح ڈیٹا کی بروقت دستیابی کا۔ کتنے لوگ ٹیسٹ ہوئے، کتنے پازیٹو نکلے، کتنے سیلف قرنطینہ میں بھیجے گئے، کب کس نے کہاں سفر کیا اور کن ملکوں سے آئے اور پاکستان کے کن شہروں میں گئے اور خاص طور پر مریض کی علامتی نشانیاں اور گزشتہ میڈیکل ہسٹری۔

یہ ڈیٹا اگر رئیل ٹائم میں ہم جیسے لوگوں کو دستیاب ہوجائے تو ہم مشین لرننگ، آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور ڈیٹا سائنس کو استعمال کرتے ہوئے باآسانی تخمینہ لگا سکتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں کیا صورتحال ہوگی اور اس کی روک تھام کے لیے کون کون سے اقدامات کیے جائیں۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ تھوڑا سا ڈیٹا شائع کرتا ہے جو کمپیوٹر ماڈلنگ کے لیے ناکافی ہے۔ تھوڑی سی توجہ اور ریسورسز سے لاکھوں لوگوں کی جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔

چوتھا کام

چوتھا اور انتہائی اہم کام جو حکومت کو کرنا ہے وہ ہے جینوم سیکونسنگ (Genome Sequencing) مریضوں کے ٹیسٹ سے وائرس کا جینٹک کوڈ اخذ کرنا اور اس کے Strain کو محفوظ کرنا۔ اس وقت دنیا میں کورونا کے دو Strains سامنے آئے ہیں L اور S۔

دنیا کے ممالک اپنے مریضوں کے وائرس جنیوم GISAID اور GeneBankکی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر رہے ہیں تاکہ جو بھی دوائیاں ایجاد کی جائیں وہ ان مریضوں پر بھی مؤثر ہوں اور اگر خدانخواستہ اس وائرس کا اگلا حملہ ہوتا ہے یا اگلے سال پھر کسی جنیاتی تبدیلی کے ساتھ واپس آتا ہے تو اس کی بیخ کنی کی جاسکے۔

پانچواں کام

پانچواں اور آخری کام جو حکومت کو فوراََ کرنا ہے وہ یہ کہ عوامی آگہی مہم کا ملک گیر سطح پر اہتمام کیا جائے۔ مقامی زبانوں میں وال چاکنگ سے لے کر اخباروں میں اشتہارات تک اور ریڈیو، ٹی وی اناوئنسمنٹ سے لے کر محلے کی مسجدوں سے اعلان تک۔ اس بیماری سے اور اس سے بچاؤ کے طریقے اور خدانخواستہ لگ جانے کی صورت میں کرنے والے کاموں کی معلومات فراہم کی جائیں۔ یاد رکھیں وبائیں دوائیوں سے نہیں معلومات سے رکتی ہیں۔

یاد رکھیے ایک اچھا لیڈر وہ نہیں ہوتا جس کے پاس ہر سوال کا جواب موجود ہو۔ اچھا لیڈر وہ ہوتا ہے جو بروقت صحیح سوال پوچھ سکے تاکہ ملک کے تمام لوگ اور ادارے فوکس رہ کر کام کرسکیں۔

عوام کیا کرے؟

سماجی دُوری (social distancing)

سماجی دُوری ہمارے ملک میں ممکن نہیں۔ آپ یہ کیسے ممکن بنائیں گے کہ W-11 میں سفر کرتے ہوئے ہر بندہ آپ سے 6 فٹ کے فاصلے پر ہو؟ یا کسی پبلک ٹرانسپورٹ میں۔ سموسے کی دکان تک تو قطار لگی ہوتی ہے۔ یہ کام اتنی آبادی والے ملک میں ممکن نہیں۔

ہوم آئیسولیشن کے لیے اپنے آپ کو اپنے اہلخانہ کے ساتھ اپنے ہی گھر میں نظر بند کرلیں۔ نہ کوئی باہر آسکے نہ کوئی جاسکے۔ جتنی جلدی یہ ممکن ہو اتنا ہی اچھا ہے۔ 14 دن، ایک ماہ، 2 ماہ۔ ایسے میں آپ باہر موجود وائرس کو گھر نہیں لائیں گے اور اگر خدانخواستہ خود آپ بیمار ہیں تو آپ اس وائرس کو دوسروں میں منتقل کرنے کا باعث نہیں بنیں گے۔

اس عمل کے ضمن میں سفر کو بھی ترک کردیں۔ ملک سے باہر جانا تو ویسے بھی ممکن نہیں رہا، مگر آپ ایک شہر سے دوسرے شہر بھی نہ جائیں۔ اپنے شہر اور محلے میں مٹر گشت سے پرہیز کریں۔ کوشش کریں کہ دفتر کا کام بھی گھر سے ہی کریں ورنہ چھٹی لے لیں۔ جان ہی نہیں رہے گی تو مزید کیا کریں گے؟

گھر میں اگر کوئی خادم یا خادمہ آپ کے پاس مستقل 24 گھنٹے کے لیے ہے تو ٹھیک ورنہ آپ کچھ ماہ کے لیے ایڈوانس تنخواہ دے کر رخصت کردیں۔ کیونکہ آپ کو نہیں پتہ وہ کن جگہوں یا گھروں سے کون سے جراثیم لے کر آپ کے گھر تک پہنچتے ہیں۔ اگر وہ 24 گھنٹے آپ کے پاس رک سکتے ہیں تو بہت نیکی کا کام ہے کہ آپ اپنی صحت کے لیے جو ضابطے اور خوراک کے معیار کو قائم کریں گے اس پر کسی اور کا بھی بھلا ہوجائے گا۔

لاک ڈاؤن کے باعث کراچی کی معروف مارکیٹ مکمل بند نظر آرہی ہے — فوٹو: اے پی
لاک ڈاؤن کے باعث کراچی کی معروف مارکیٹ مکمل بند نظر آرہی ہے — فوٹو: اے پی

اگلی احتیاط یہ کریں کہ جانوروں کی منڈی یا گوشت مارکیٹ مت جائیں۔ یہ زونوٹک وائرس ہے جو جانوروں سے انسانوں میں پھیلتا ہے اور آپ کو نہیں پتہ کہ کونسا جانور اس کا آلہ کار ہو۔

مزید اپنی جسمانی و گھریلو صفائی کا خیال رکھیں۔ معیاری غذا کھائیں۔ اچھی نیند کریں تاکہ ایک مضبوط امنیاتی نظام اس وائرس سے لڑسکے۔ ہاتھ دھونے کا ہم سب کو پتہ ہے۔ میں کیونکہ میڈیکل ڈاکٹر نہیں ہوں اس لیے اس موضوع پر زیادہ بات نہیں کرسکتا۔ کوشش کریں کہ گوشت بھی خوب پکا کر کھائیں۔

آئسولیشن کے دنوں کو کارآمد بنائیں۔ کتابیں پڑھیں۔ شعبان کا مہینہ ہے نمازیں پڑھیں۔ قرآن پڑھیں۔ آن لائن کورسز کریں اور تمام خواہشات جو آپ نے وقت کی کمی کے باعث رکھ چھوڑی تھیں اب انہیں پورا کرلیں۔

سماجی دوری ہمارے ملک میں ممکن نہیں
سماجی دوری ہمارے ملک میں ممکن نہیں

ایک اور ضروری کام یہ ہے کے کسی بھی خبر یا معلومات کو تصدیق کے بغیر آگے فارورڈ نہ کریں. اتنے دنیا میں مریض نہیں جتنے نسخے ہمارے لوگوں نے بنا لیے ہیں.

آخری اور اہم کام جو آپ کرسکتے ہیں وہ یہ کہ 2 ہفتوں کا راشن گھر میں ڈال کر بیٹھ جائیں۔ میں آپ کو ذخیرہ اندوزی کی ترغییب نہیں دے رہا مگر جب کرفیو لگے گا تو کیسے خریداری کریں گے؟ یا بار بار آنے جانے سے وبا کی زد میں آنے کا خطرہ اپنی جگہ اور اشیا خوردنی کی روز بروز بڑھتی ہوئی قیمتیں اپنی جگہ۔

ٹیکنالوجی کا کردار

اگر آپ کمپیوٹر پرگرامر ہیں یا آپ کی کمپنی سوفٹ وئیر ڈیولپمنٹ کا کام کرتی ہے یا آپ کا حکومتی ادارہ ان کاموں کا ذمہ دار ہے تو آپ مندرجہ ذیل باتوں سے ملک کی مدد کرسکتے ہیں۔

جیو فینسنگ (Geo-Fencing)

موبائل میں صارف کی لوکیشن کا مکمل ریکارڈ ہوتا ہے۔ جو وہ سیل فون ٹاورز سے کال ڈیٹا ریکارڈ کے طور پر شئیر کر رہا ہوتا ہے۔ اگر آپ کے پاس کورونا وائرس کے مریض کا فون نمبر ہے تو آپ باآسانی معلوم کرسکتے ہیں کہ اس نے کہاں کہاں سفر کیا۔ اور پھر معلوم کرسکتے ہیں کہ وہاں سے اس شخص کی موجودگی میں کون کون گزرا۔

موبائل میں صارف کی لوکیشن کا مکمل ریکارڈ ہوتا ہے—blog.guardso.com
موبائل میں صارف کی لوکیشن کا مکمل ریکارڈ ہوتا ہے—blog.guardso.com

آپ ایسے تمام لوگوں کو ایس ایم ایس یا کال کے ذریعے آگاہ کرسکتے ہیں کہ انہیں شاید وائرس لگ گیا ہو اور وہ اپنا ٹیسٹ کروا لیں تاکہ بروقت شناخت سے ہم اس وائرس کو پھیلنے سے روک سکیں۔ اس سافٹ ویئر کا مکمل کوڈ MIT نے Safepath کے نام سے مفت ریلیز کردیا ہے۔

ماڈلنگ (Modelling)

وبائی امراض کی فیلڈ کے لوگ Epidemic Modelling اور SIR ماڈل سے بخوبی واقف ہیں۔ ایک سافٹ ویئر ڈیولپ کیا جائے جو ان تمام وبائی حملوں کا ریکارڈ رکھے۔ دنیا میں سب سے پہلے کورونا وائرس کے خطرے سے آگاہ کرنے والی ٹیکنالوجی کمپنی جو کینیڈا میں ہے بلیو ڈاٹ Blue Dot وہ بھی پاکستانی ڈاکٹر کامران خان کی ہے۔ آپ ان سے سافٹ ویئر خرید لیں۔ کوئی لاکھ ڈالر ماہانہ میں سبسکرپشن ملتی ہے۔

گروسری ایپ

ایسی ایپ متعارف کروائی جاسکتی ہے جس کی مدد سے لوگ آن لائن سودا سلف خرید سکیں۔ جیسے امریکا میں Instacart ہے۔

ڈرونز

ڈرونز کو سڑکوں اور مارکیٹ پر نظر رکھنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے کہ یہاں لوگ جمع ہیں یا کرفیو کی خلاف ورزی تو نہیں کر رہے۔

خطرے کا اندازہ (Risk Assessment)

کیونکہ یہ فلو کا سیزن ہے اور جیسے جیسے اس وبا کی آگہی بڑھے گی ہر شخص کو یہ محسوس ہوگا کہ اسے بھی کورونا ہے، اس لیے مقامی زبانوں میں ایک سادہ سی ویب سائٹ یا ایپ یا کال سینٹرز کے ذریعے ہر شخص چند سوالوں کے جواب دیکر معلوم کر پائے گا کہ اس میں کورونا کی علامت ہیں یا نہیں۔ وہ ڈاکٹر کے پاس جائے، گھر میں سیلف آئسولیشن میں چلا جائے یا کوئی فکر نہ کرے۔ اسی سادہ سی ویب سائٹ سے ہم آپ ہسپتالوں کا لوٖڈ ہزاروں کی تع اد میں کم کریں گے۔ فارغ بیٹھے بینکوں کے کال سینٹرز یا موبائل فون کمپنیز کے کال سینٹرز بھی یہ کام کرسکتے ہیں۔

کیو ٹیک (QTech)

لوگوں کو معلومات دیں کہ Quarantine Tech کیا ہے؟ وہ کس طرح گوگل کلاس، گوگل شیٹ، سلیک، بیس کمپ، بلیو جینز، اِسکائپ اور اس جیسے درجنوں ٹولز استعمال کرکے گھر بیٹھے آفس کے سارے کام سرانجام دے سکتے ہیں۔

سراغ رسائی (Detection)

تھرمل کیمروں اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے مریضوں کی شناخت کے عمل کو خاطر خواہ بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ آپ Kaggle پر موجود ڈیٹا سیٹ اور چیلنجز کو ضرور دیکھیں۔

تخمینہ لگائیں

یہ وبا کتنے لوگوں تک پھیلے گی؟ کتنی تیزی سے پھیلے گی؟ کتنے لوگوں کی ہلاکت کا خدشہ ہے اور ہم آج کیا کرسکتے ہیں کہ اس تعداد کو کم کیا جاسکے، رفتار کو سست کرسکیں اور وبا کو روک سکیں۔ یہ ساری کہانی ہے جو کورونا کی پریڈکشن prediction اور ڈیٹا سائنس کے گرد گھومتی ہے۔

پاکستان میں یہ اندازہ کیسے لگایا جائے؟

آئیے بنیادی جانکاری سے شروع کرتے ہیں۔ دنیا میں اس وقت 172 ممالک میں ساڑھے 4 لاکھ مریض سامنے آچکے ہیں۔ تقریباََ 20 ہزار اموات ہوچکی ہیں جبکہ اٹلی نے پچھلے 24 گھنٹوں میں 729 جنازے اٹھائے ہیں اور امریکا نے 100۔ ہلاک ہونے والے لوگوں کی عالمی اوسط 4 فیصد ہے مگر یہ ملک پر منحصر ہے اور لوگوں کی عمر اور میڈیکل کیفیت پر۔ جاپان میں مرنے والوں کی اوسط 3 فیصد، اسپین میں 4 اشاریہ 6 فیصد، برطانیہ میں 5 فیصد، ایران میں 7 فیصد، انڈونیشیا اور فلپائن میں 8 فیصد اور اٹلی میں 8.2 فیصد ہے۔

بوڑھوں میں شرح 14.8 فیصد ہے۔ اگر دل کے مریضوں کی بات کریں تو ان میں 13.2 فیصد، ذیابیطس کے مریضوں میں 9.2 فیصد، کینسر کے مریضوں میں 7.6 فیصد، سانس کی بیماری میں مبتلا لوگوں کے لیے 8 فیصد ہے۔ اسی طرح مردوں کے لیے 4.7 فیصد اور عورتوں کے لیے 2.8 فیصد ہے۔ اس وقت صورتحال کچھ یہ ہے کہ دنیا میں ہر منٹ میں 18 نئے مریض سامنے آرہے ہیں.

مختلف شہروں میں لاک ڈاؤن کے باعث سڑکیں سنسان، مارکیٹیں ویران

پاکستان میں ہمارے اندازے کے مطابق یہ اوسط 7 فیصد رہے گی۔ ہمارے ملک میں 80 لاکھ بوڑھے لوگ ہیں۔ دل کے مریضوں کی تعداد 3 کروڑ 20 لاکھ ہے جبکہ ہر چوتھا شخص ذیابیطس کا شکار ہے۔ 3 کروڑ 75 لاکھ اور ایک کروڑ 70 لاکھ لوگوں کو ہیپاٹائٹس بی یا سی ہے۔ ایبولا وائرس نے 4 سالوں میں اتنے لوگ نہیں مارے جتنے کورونا نے 3 مہینوں میں مار ڈالے۔

اگر ہم نے مکمل شٹ ڈاؤن نہیں کیا تو اگلے ایک ماہ میں 10 ہزار یا اس سے زیادہ افراد کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے اور اگلے 3 ماہ میں خدشہ ہے کہ ہلاکتیں 7 ہزار 994 تک پہنچ سکتی ہیں۔

کورونا کے مریض پر شروع کے 5 دن تک کوئی آثار ظاہر نہیں ہوتے۔ پانچویں روز سے 10ویں دن تک آثار نمایاں ہوتے ہیں پھر 10 سے 14 دن تک ہسبتال اور آئی سی یو۔ اس پورے عمل میں 25 دن لگتے ہیں جس میں اندازہ ہوجاتا ہے کہ مریض کی جان بچ سکتی ہے یا نہیں۔

اگر مکمل شٹ ڈاؤن نہیں ہوا تو اگلے ایک ماہ میں 10 ہزار یا اس سے زیادہ افراد کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے اور اگلے 3 ماہ میں خدشہ ہے کہ ہلاکتیں 7 ہزار 994 تک پہنچ سکتی ہیں—اے پی
اگر مکمل شٹ ڈاؤن نہیں ہوا تو اگلے ایک ماہ میں 10 ہزار یا اس سے زیادہ افراد کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے اور اگلے 3 ماہ میں خدشہ ہے کہ ہلاکتیں 7 ہزار 994 تک پہنچ سکتی ہیں—اے پی

اگر عالمی سطح پر رپورٹ کیے جانے والے کیس اور وہ لوگ جو خود بخود ٹھیک ہوگئے، ان کو جمع کریں اور پھر مرنے والوں کی اوسط نکالیں تو یہ 0.8 فیصد بنتی ہے یعنی ہر 125 میں سے ایک ہلاکت کا خدشہ ہے۔

ہم نے 24 مارچ کو 8 ہلاکتیں کنفرم کیں یعنی 25 دن پہلے 29 فروری کو ہمارے ملک میں ایک ہزار کیسز تھے جب کہ ہمیں صرف 3 کی خبر تھی۔ اس حساب سے پاکستان میں اس وقت کورونا کے 2 لاکھ 23 ہزار 596 مریض ہیں۔ ان میں سے اکثریت کو اس کا پتہ بھی نہیں چلے گا اور وہ ٹھیک ہوجائیں گے۔ مگر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ صورتحال آپ کی سوچ سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔

اب اس ماڈل میں آپ موسمی درجہ حرارت، غیر ملکوں کے اسفار، لوگوں کی آمدورفت، مریضوں کی منتقلی اور ایسے ہی درجنوں ویری ایبلز شامل کرتے چلے جائیں، ماڈل پیچیدہ ترین اور قیاس قریب ترین ہوتا چلا جائے گا۔

علما کرام کا کردار

اس وبا سے نمنٹنے کے لیے ہمارے ملک میں جو سب سے اہم کردار ہے وہ علما کرام کا ہے۔ نہ وزیرِاعظم کا، نہ آرمی چیف کا، نہ ڈاکٹر اور نرس کا۔ ہم ہمیشہ سے ایک جذباتی قوم چلے آئے ہیں، مختصر یاداشات، کتابوں سے محرومی ہمیں اس جگہ لے آئی ہے جہاں سچ اور جھوٹ میں کوئی فرق نہیں بچا۔ جس کی جو مرضی آئے بول دیا، گھڑ لیا، مان لیا اور آگے فارورڈ کردیا.

صٖٖفائی ستھرائی اور پاکی ناپاکی پر جتنا زور اسلام نے دیا ہے کسی اور مذہب میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ وبا سے بچنے کی تدبیر کرنا اور پھر اللہ پر توکل رکھنا اتنا ہی شرعی ہے جتنا نماز اور روزہ۔

وائرس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا نہ ہی اسے اچھے بُرے کی تمیز ہے وہ تو اپنی بقا کی جنگ لڑرہا ہے اور اس دوران کتنے ہی لوگ ہلاک ہوجائیں اس کی بلا سے۔

جن گناہوں میں ہم مبتلا رہے ہیں ان پر توبہ کا یہ بہترین موقع ہے، مفتی تقی عثمانی — فوٹو: ڈان نیوز
جن گناہوں میں ہم مبتلا رہے ہیں ان پر توبہ کا یہ بہترین موقع ہے، مفتی تقی عثمانی — فوٹو: ڈان نیوز

کعبے میں طواف رک گیا تو قیامت آجائے گی۔ ارے بھائی، سیاق و سباق کے ساتھ دیکھو۔ اور بھی بہت سی نشانیاں پوری ہونی ہیں ساتھ میں۔ نہ کوئی پہلی بار وبا آئی ہے نہ ہی پہلی بار طواف رکا ہے۔

  • سن 251 ہجری میں اسماعیل بن یوسف نے ایک لاکھ سے زائد حاجیوں کو قتل کر دیا اور اس سال حج نہ ہو سکا۔
  • 317 ہجری میں قرامطہ والے ہجرہ اسود نکال کر لے گئے اور حج 10 سال تک موقوف رہا.
  • 357 ہجری میں بالکل آج کی طرح ماشری نام کی وبا پھیل گئی۔ بہت سے حاجی انتقال کرگئے اور بہت کم لوگوں نے حج کیا۔
  • 390 اور 492 ہجری میں بھی حج نہ ہوسکا کہ مہنگائی اور راستوں کے خطروں نے حاجیوں کو روکے رکھا۔
  • 1246 ہجری میں ہندوستان میں ایک کثیر تعداد حاجیوں کی انتقال کرگئی وبا کی وجہ سے۔
  • 1871 میں کولیرا پھیلا مدینہ شریف میں اور اکثریت کا انتقال عرفات و منیٰ میں ہوا۔
  • ابھی حال ہی میں 1979 میں(1400 ہجری کے پہلے دن) جہیمان نے دعوت المہتسبہ (تحریک انصاف) کے نام سے گروہ بنایا اور کعبہ پر قبضہ کر لیا، 2 ہفتوں کی لڑائی، سیکڑوں ہلاکتوں کے بعد حرم واپس ملا تو بھی طواف بند ہی تھا۔

علمائے کرام اپنے منبر کو آئی سی یو اور لاوڈ اسپیکر کو وینٹی لیٹر سمجھیں اور اس جذباتی قوم کو سمجھائیں کہ گھر بیٹھیں۔ اللہ تعالی کو کمزور مومن کے مقابلے میں طاقتور مومن زیادہ پسند ہے۔


ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ اسکالر اور آئزن ہاور فیلو ہیں. آپ ایک مانے ہوئے ڈیٹا سائنٹسٹ ہیں. ڈاکٹر عثمانی اب تک درجنوں کتابیں اور تحقیقی مقالات لکھ چکے ہیں. آپ پرنسٹن، نیو جرسی میں رہتے ہیں. [email protected]