قیدیوں کی رہائی کے فیصلے کالعدم قرار، رہائی پانے والوں کی دوبارہ گرفتاری کا حکم

اپ ڈیٹ 07 اپريل 2020
سپریم کورٹ نے ہائی کورٹس سے قیدیوں کی رہائی سے متعلق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کی پیش کردہ سفارشات کو تسلیم کرلیا—تصویر: سپریم کورٹ ویب سائٹ
سپریم کورٹ نے ہائی کورٹس سے قیدیوں کی رہائی سے متعلق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کی پیش کردہ سفارشات کو تسلیم کرلیا—تصویر: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے ہائی کورٹس سے قیدیوں کی رہائی سے متعلق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کی پیش کردہ سفارشات کو تسلیم کرتے ہوئے سندھ، اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کے فیصلے کالعدم قرار دے دیے۔

ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے ہائی کورٹس سے رہا ہونے والے تمام قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کرنے کا بھی حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں فوری گرفتار کیا جائے۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس مظہر عالم خان مندوخیل، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل بینچ نے ہائی کورٹس کی جانب سے قیدیوں کی ضمانت کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے زیر سماعت قیدیوں کی رہائی کے تمام فیصلے معطل کردیے

سپریم کورٹ نے عدالت عالیہ سے قیدیوں کی ضمانت پر رہائی کے خلاف دائر درخواست کو دفعہ 184(3) کے تحت قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے سنگین جرائم، نیب اور منشیات کے مقدموں میں دی گئی ضمانتیں بھی منسوخ کردیں۔

عدالتی فیصلے کے تحت جن افراد کورہائی دی جاسکتی ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:

  • ایسے قیدی جنہیں جسمانی یا ذہنی امراض لاحق ہوں

  • زیر سماعت وہ قیدی جن کی عمر 55 سال سے زائد ہو

  • خواتین اور کم عمر قیدی

  • وہ مرد قیدی جن کا ماضی میںکوئی مجرمانہ ریکارڈ نہ ہو

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملک میں کورونا وائرس کے سبب پیدا ہونے والی غیر معمولی صورتحال کے پیشِ نظر 408 قیدیوں کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

مذکورہ فیصلے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ کے احکامات سے 829 قیدیوں میں سے 519 رہا ہوچکے ہیں۔

اٹارنی جنرل کی تجاویز

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے جیلوں سے قیدیوں کی رہائی یا ضمانتوں حوالے سے تجویز دی تھی کہ خواتین اور بچوں پر تشدد میں ملوث انڈر ٹرائل ملزمان کو ضمانت پر رہائی نہیں ملنی چاہیے۔

ساتھ ہی انہوں نے ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں مبتلا زیر سماعت قیدیوں کو اس صورت میں ضمانت پر رہا کرنے کی سفارش کی تھی کہ اگر ان کی سزا 3 سال سے کم ہو۔

اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ 3 سال تک سال سزا کے جرم میں قید زیر سماعت خواتین اور بچوں کے علاوہ ایسے سزا یافتہ قیدی جو سزا پوری کر چکے ہیں لیکن جرمانہ ادا نہیں کر سکتے اُنہیں رہا کر دینا چاہیے۔

اس کے علاوہ انہوں نے ایسی خواتین اور بچے جو 75 فیصد سزا مکمل کر چکے ہیں ان کی بھی رہائی کی سفارش کی تھی۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ایسے قیدی جو بچوں اور خواتین پر تشدد میں ملوث نہیں اگر اُن کی سزا 6 ماہ سے کم رہ گئی ہے تو اُنہیں رہا کیا جائے اور ایسی خواتین اور بچے جن کی سزا ایک سال سے کم رہ گئی ہے اُنہیں بھی رہا کیا جائے۔

تحریری فیصلہ

ہائی کورٹس سے ضمانت پر قیدیوں کی رہائی کے خلاف درخواست کا 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جسٹس قاضی امین احمد نے تحریر کیا۔

عدالتی حکم میں کہا گیا کہ قیدیوں کی سزا معطل کر کے لیے قانون میں طریقہ کار واضح ہے، ہائی کورٹ ہیلتھ ایمرجنسی کی بنیاد پر اجتماعی ضمانتیں نہیں دے سکتی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ قانون میں خواتین، کم عمر ملزمان یا بیمار اور ذہنی مسائل کے شکار افراد کی رہائی کا طریقہ کار موجود ہے اسی طرح مجرمان کی بھی سزا معطل کر کے انہیں رہا کرنے کا میکانزم موجود ہے۔

عدالت نے حکم دیا کہ ایسے ملزمان جن کی عمر 55 سال سے زیادہ ہیں وہ رہائی کے مستحق ہوں گے اس کے علاوہ رہائی کی خصوصی رعایت کا اطلاق خواتین اور بچوں پر بھی ہوگا جبکہ ماضی میں مجرمانہ ریکارڈ نہ رکھنے والے ملزمان بھی رہائی کے مستحق ہوں گے۔

عدالت نے واضح کیا کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اعلان کردہ ہیلتھ ایمرجنسی کی بنیاد پر قیدیوں کی رہائی کا کوئی تصور موجود نہیں کیوں کہ عالمی تنظیموں کی جانب سے رکن ممالک کو جاری کی گئی ہدایات میں ایسی کوئی ہدایات نہیں دی گئی کہ جس میں رکن ممالک کو اپنی جیلیں خالی کرنے کا کہا گیا ہو لہٰذا نافذ کردہ حکم ایک غلط سمت کے احاطے پر قائم کیا گیا۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ہائی کورٹ کو ازخود نوٹس لینے کا اختیار نہیں، حالات کیسے بھی ہوں قانون کا قتل نہیں ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: جیلوں میں قرنطینہ مراکز قائم کرنے، نئے قیدیوں کی اسکریننگ کرنے کا حکم

عدالت نے سندھ اور خیبرپختونخوا حکومتوں کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کالعدم قرار دی اور نشاندہی کی کہ خیبرپختونخوا اور پنجاب میں قیدیوں کی رہائی کا کوئی فیصلہ نہیں دیا گیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ہائی کورٹ اس صورت میں ملزم کو رہا کرسکتی ہیں کہ اگر اسے وارنٹ کے بغیر گرفتار کر کے عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ہو اور اس نے کوئی سنگین جرم نہ کیا ہو اور اس کے لیے بھی پہلے پراسیکیوشن کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا جائے گا۔

عدالت نے جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی موجودگی کے جواب میں کہا کہ دنیا میں سوائے چند ممالک جہاں جرائم کی شرح خاصی کم ہے زیادہ تر جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی موجود ہیں اور متاثرہ شخص کی غیر موجودگی میں جیلیں محفوظ ہیں۔

اس لیے بجائے قیدیوں کو رہا کرنے کے نئے آنے والے قیدیوں کی اسکریننگ کرنا زیادہ بہتر ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے کسی جج کو بادشاہ کی طرح تخت پر نہیں بٹھایا جاتا کہ جو اس کی خواہش ہو وہ کرے بلکہ ہر لحاظ سے وہ آئین و قانون کی پاسداری کا پابند ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ہائی کورٹ کی جانب سے ایک مجرمانہ متفرقہ درخواست پر دائرہ اختیار سے بڑھ کر ایسے فیصلے دینے کی کوئی قانونی بنیاد نہیں کہ جس کا اثر سماجی زندگی کے ہر پہلو پر پڑے۔

قیدیوں کی رہائی کا معاملہ

خیال رہے کہ 20 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے کورونا وائرس کے باعث اڈیالہ جیل میں موجود معمولی جرائم والے قیدیوں کو ضمانتی مچلکوں پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ’اگر کسی جیل کے قیدیوں میں وائرس پھیل گیا تو بہت مشکلات ہو جائیں گی، ابھی تک صرف چین ہی اس وائرس کا پھیلاؤ روکنے میں کامیاب ہو رہا ہے اور چین میں بھی 2 جیلوں میں وائرس پھیلنے کے بعد معاملات خراب ہوئے تھے‘۔

بعدازاں 24 مارچ کو بھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر 408 قیدیوں کی ضمانت پر مشروط رہائی کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس نے حکم دیا تھا کہ چیف کمشنر، آئی جی پولیس اور ڈی جی اے این ایف مجاز افسر مقرر کریں اور تمام مجاز افسران پر مشتمل کمیٹی کے مطمئن ہونے پر قیدیوں کو ضمانت پر رہا کیا جائے۔

انہوں نے یہ بھی ہدایت کی تھی کہ جس ملزم کے بارے میں خطرہ ہے کہ وہ باہر نکل کر معاشرے کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے، اسے ضمانت پر رہا نہ کیا جائے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے مذکورہ احکامات کے بعد سید نایاب حسن گردیزی نے راجہ محمد ندیم کی جانب سے سپریم کورٹ میں 6 صفحات پر مشتمل پٹیشن دائر کی تھی جس میں سوال اٹھایا گیا کہ کیا اسلام آباد ہائیکوٹ (آئی ایچ سی) کے دائرہ اختیار میں ازخود نوٹس شامل ہے؟

یہ بھی پڑھیں: ’تمام حکومتی اقدامات صرف کاغذوں میں ہیں عملی طور پر کچھ نہیں ہورہا‘

اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ 20 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے دیا گیا حکم اختیارات کے منافی ہے کیونکہ یہ خالصتاً ایگزیکٹو کے دائرہ اختیار میں آتا ہے کہ وہ کورونا وائرس کے تناظر میں زیر سماعت قیدیوں کے معاملے پر نظر ثانی کرے۔

جس پر عدالت عظمیٰ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس ازخود نوٹس کے اختیارات سے متعلق پٹیشن پر سماعت کرنے کے لیے 5 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا کہ جس کے تحت ہائی کورٹ نے 20 مارچ کو زیر سماعت قیدیوں (یو ٹی پی) کو ضمانت دے دی تھی۔

جس کے بعد 30 مارچ کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے تمام ہائی کورٹس اور صوبائی حکومتوں، اسلام آباد اور گلگت بلتستان کی انتظامیہ سمیت متعلقہ حکام کو یکم اپریل تک نوول کورونا وائرس کے باعث زیر سماعت قیدیوں کی جیلوں سے رہائی یا اس سلسلے میں کوئی بھی حکم دینے سے روک دیا تھا۔

ساتھ ہی عدالت عظمٰی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کے فیصلے سمیت قیدیوں کی رہائی کیلئے دیگر عدالتوں سے جاری فیصلے بھی معطل کردیے تھے۔

بعدازاں یکم اپریل کو اس کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ نے صوبائی جیلوں میں قرنطینہ مراکز قائم کرنے کا حکم دیتے ہوئے تمام نئے قیدیوں کی اسکریننگ کرنا لازمی قرار دیا تھا۔ ‏

تبصرے (0) بند ہیں