آٹا بحران انکوائری: ایف آئی اے نے ضمنی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کردی

اپ ڈیٹ 16 اپريل 2020
انکوائری کمیٹی نے ضمنی رپورٹ کی تیاری میں وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار سے بھی ملاقات کی—فائل فوٹو: اے ایف پی
انکوائری کمیٹی نے ضمنی رپورٹ کی تیاری میں وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار سے بھی ملاقات کی—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے 2018 کی دوسری ششماہی میں زائد گندم کی برآمد سے متعلق پاکستان زرعی اسٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن (پاسکو) اور محکمہ خوراک پنجاب و سندھ کے فیصلے کے پیھچے چھپا جواز تلاش کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم کے دفتر میں جمع کرائی گئی گندم کے بحران سے متعلق انکوائری کمیٹی کی ضمنی رپورٹ کی تیاری میں کمیٹی نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، قومی فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ سیکریٹری، پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کے صوبائی فوڈ سیکریٹریز، پنجاب کے ڈائریکٹر فوڈ سیکریٹریز اور پنجاب کے سابق فوڈ سیکریٹریز شوکت علی اور ظفر نصراللہ خان سے متعدد ملاقاتیں کیں۔

مزیدپڑھیں: گندم کی خریداری میں کمی آٹے کے بحران کی وجہ بنی، رپورٹ

رپورٹ کے مطابق ضرورت سے زیادہ ذخیرہ، پرانے اسٹاک کی موجودگی جس سے بیماری اور نقصان کا خدشہ تھا، پبلک اسٹاک سے گندم کی سست روی سے تقسیم، نئی فصلوں کے لیے جگہ کی ضرورت اور بینک قرضوں پر بھاری مارک اپ (سود) نے صوبائی حکومتوں اور پاسکو کو برآمدات سے متعلق سفارش پر مجبور کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ آئندہ خریداری کے لیے جگہ اور مالی وسائل پیدا کرنے، مالی بوجھ کو کم کرنے اور پرانے اسٹاک کو آلودگی سے بچانے کے لیے تمام اداروں پر برآمدات کےلیے زور دیا گیا۔

پاسکو کے ساتھ پنجاب اور سندھ حکومتوں کو 2018 کی دوسری ششماہی میں گندم کی برآمد کی سفارش کرنے پر کیوں مجبور کیا گیا سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا کہ وزارت قومی فوڈ سیکیورٹی، پاسکو اور دونوں صوبوں کے محکمہ فوڈ کے ریکارڈ کے مطابق پاسکو اور صوبائی حکومتوں نے گندم کی برآمدات کی سفارش کی کیونکہ خاص طور پر پاسکو، پنجاب اور سندھ کے پاس اضافی مقدار میں گندم موجود تھی۔

رپورٹ میں نتیجہ اخذ کیا گیا کہ 2018 کے آخر میں برآمد کی گئی گندم کے نتیجے میں کسی خاص شخص یا کمپنی کو فائدہ نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: چینی اور آٹا بحران انکوائری رپورٹ پر شیخ رشید کا ردِ عمل سامنے آگیا

ادھر پولٹری ایسوسی ایشن کو سرکاری شعبے سے زائد گندم کی تقسیم کے لیے منظوری سے متعلق سوال کی تحقیقات کرتے ہوئے ضمنی رپورٹ میں کہا گیا کہ پاسکو ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام 16 درخواست دہندگان کو ان کے مطالبے کے مطابق متناسب تقسیم کی گئی اور کسی بھی جماعت کو کوئی غیر متناسب گندم فراہم نہیں کی گئی۔

خریداری سیزن کے دوران صرف 2 ماہ کے لیے پنجاب میں سیکریٹری کی تعیناتی اور وسیع پیمانے پر متعلقہ افسران و عملے کے تبادلے و منتقلی سے متعلق ضمنی رپورٹ میں کہا گیا کہ چاروں سیکریٹریز کی تعیناتی کے لیے کوئی بھی ایسی سمری ارسال نہیں ہوئی جس میں محکمہ فوڈ کے سیکریٹریز کو ہٹانے سے متعلق کوئی وجوہات ہوں۔

مجموعی طورپر خریداری بحران میں 25 لاکھ ٹن کے خسارے سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا کہ صوبہ سندھ کے لیے خریداری کا سیزن مارچ میں شروع ہوتا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ کابینہ نے سمری پر کوئی فیصلہ نہیں کیا اور اس طرح کوئی خریداری نہیں کی گئی، ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ یہ ایک ناقابل معافی کارروائی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ ان عوامل سے جڑی ہوئی نہیں ہے جس نے پاسکو، پنجاب اور خیبر پختونخوا کو متاثر کیا۔

سندھ کی جانب سے گندم کی خریداری نہ کرنے کی وجوہات کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا کہ سندھ کابینہ نے خریداری سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا۔

مزیدپڑھیں: آٹے کے بعد کس چیز کا بحران آنے والا ہے؟

رپورٹ کے مطابق محکمہ خوراک سندھ نے جنوری 2019 میں 50 ہزار ٹن گندم کی خریداری کے لیے سمری پیش کی تھی، سمری ایک ماہ بعد کابینہ کے سامنے رکھی گئی تھی لیکن کابینہ نے فوری فیصلہ نہیں لیا۔

مذکورہ رپورٹ کے مطابق ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ محکمہ خوراک سندھ بار بار سمری اور خصوصی نوٹ کے ذریعے درخواستیں دیتا رہا تاکہ 50 ہزار ٹن گندم کی خریداری کے لیے منظوری حاصل ہو، علاوہ ازیں محکمہ خوراک نے حکومت کو واضح طور پر باور کرایا کہ جلد فیصلہ ضروری ہے کیونکہ خریداری کے عمل کو جلد سے جلد شروع کرنے کی ضرورت ہے، ساتھ ہی محکمے نے حکومت کو یہ بھی بتایا کہ پنجاب اور پاسکو نے خریداری کا عمل شروع کردیا ہے۔

تاہم سندھ کابینہ نے گندم کی اوپن مارکیٹ قیمت اور اس کے برآمد کے آپشن کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تاکہ اس کے مطابق خریداری سے متعلق فیصلہ کیا جاسکے۔

رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ مکمل طور پر ناقابل وضاحت تھا کہ گندم کی برآمد کی بنیاد پر کابینہ کس طرح خریداری کرسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آٹے کا بحران پیدا کرنے میں 204 فلور ملز ملوث ہیں، محکمہ خوراک

واضح رہے کہ 5 اپریل کو ملک میں آٹے کے بحران اور اس کے نتیجے میں بڑھنے والی قیمتوں کی انکوائری کرنے والی کمیٹی نے کہا تھا کہ خریداری کی خراب صورتحال کے نتیجے میں دسمبر اور جنوری میں بحران شدت اختیار کرگیا تھا۔

کمیٹی نے کہا تھا کہ سرکاری خریداری کے طے شدہ ہدف کے مقابلے میں 35 فیصد (25 لاکھ ٹن) کمی دیکھنے میں آئی۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سندھ میں گندم کی خریداری صفر رہی جبکہ اس کا ہدف 10 لاکھ ٹن تھا اسی طرح پنجاب نے 33 لاکھ 15 ہزار ٹن گندم خریدی جبکہ اس کی ضرورت و ہدف 40 لاکھ ٹن تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں