نیب کا گندم، چینی اسکینڈل کی تحقیقات کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 22 اپريل 2020
وزیراعظم نے عوام کو گندم، چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کروائی تھی—فائل فوٹو: وکیمیڈیا
وزیراعظم نے عوام کو گندم، چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کروائی تھی—فائل فوٹو: وکیمیڈیا

قومی احتساب بیورو (نیب) نے گندم اور چینی بحران کے میگا اسکینڈل کی تحقیقات کا فیصلہ کرلیا۔

یہ فیصلہ اسلام آباد میں چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں ہونے والے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں کیا گیا جس میں گندم چینی بحران میں ’اربوں روپے کی بد عنوانی، قیمتوں میں اضافہ، مبینہ اسمگلنگ اور سبسڈی وغیرہ کی آزادانہ اور تفصیلی تحقیقات کی جائیں گی‘۔

یاد رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی گئی تھی جس کے بعد وزیر اعظم عمران نے عوام کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اعلیٰ سطح کے کمیشن کی جانب سے آڈٹ رپورٹ کا تفصیلی نتیجہ آنے کے بعد گندم اور چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: چینی اور آٹے کے بحران میں حکومت کی کوتاہی قبول کرتا ہوں، وزیر اعظم

نیب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ ایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں مزید 3 انکوائریز کی منظوری دی گئی جس میں کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے افسران، اہلکاروں اور دیگر، جبکہ ریور گارڈن ہاؤسنگ اسکیم کی انتظامیہ اور پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ میں میگا کرپشن کی انکوائریز شامل ہیں۔

علاوہ ازیں اجلاس میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی انتظامیہ اور دیگر کے خلاف شکایات کی جانچ پڑتال، متعلقہ محکمے کو کارروائی کے لیے ارسال کرنے کی بھی منظوری دی گئی۔

نیب اعلامیے کے مطابق ایگزیکٹو بورڈ نے پرائیویٹائزیشن آف پاکستان کے افسران/اہلکاروں اور دیگر، سابق اٹارنی جنرل پاکستان جسٹس ملک محمد قیوم اور دیگر، پمز میں شبہ ڈرمیٹالوجی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر اکرام اللہ اور دیگر، انٹیریئر ایمپلائز کووآپریٹنگ ہاؤسنگ سوسائٹی کی منیجنگ کمیٹی راجہ علی اکبر اور دیگر کے خلاف انکوائری کو اب تک شواہد نہ ملنے پر بند کرنے کی بھی منظوری دی۔

اجلاس میں چیئرمین نیب نے کہا کہ ادارہ چہرے کو نہیں کیس کو قانون کے دائرے میں منطقی انجام تک پہنچانے پر یقین رکھتا ہے۔

مزید پڑھیں: 'چینی بحران رپوٹ کے بعد وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ ان کے معیار کے مطابق ہے'

اس کے ساتھ ملک سے بدعنوانی کے خاتمے، بدعنوان عناصر سے لوٹی ہوئی رقم برآمد کرنے کے ساتھ ساتھ میگا کرپشن کے وائٹ کالر مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانے اور بڑے پیمانے پر جعلی ہاؤسنگ یا کوآپریٹو سوسائٹیز سے عوام کی لوٹی ہوئی رقوم کی واپسی کو اولین ترجیح سمجھتا ہے۔

نیب کے مطابق گزشتہ 2 سال کے عرصے میں 610 مقدمات میں بدعنوانی کے ریفرنسز احتساب عدالتوں میں دائر کیے گئے اور ایک کھرب 78 ارب روپے برآمد کر کے قومی خزانے میں جمع کروائے گئے۔

اعلامیے میں بتایا گیا کہ نیب کے دائر کردہ ایک ہزار 275 ریفرنسز احتساب عدالتوں میں زیر سماعت ہیں جن کی مالیت تقریباً 9 کھرب 43 ارب روپے ہے۔

چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ

ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: چینی بحران رپورٹ: شواہد بتارہے ہیں وزیراعظم کرپٹ، نالائق ہے، شاہد خاقان عباسی

معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کہ چونکہ انہوں نے عوام سے رپورٹ منظر عام پر لانے کا وعدہ کیا تھا اس لیے اب یہ وقت ہے کہ وعدہ پورا کیا جائے۔

دستاویز کے مطابق سال 17-2016 اور 18-2017 میں چینی کی پیداوار مقامی کھپت سے زیادہ تھی اس لیے اسے برآمد کیا گیا۔

واضح رہے کہ پاکستان میں چینی کی سالانہ کھپت 52 لاکھ میٹرک ٹن ہے جبکہ سال 17-2016 میں ملک میں چینی کی پیداوار 70 لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن ریکارڈ کی گئی اور سال 18-2017 میں یہ پیداوار 66 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن تھی۔

تاہم انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ برآمد کنندگان کو 2 طرح سے فائدہ ہوا، پہلا انہوں نے سبسڈی حاصل کی دوسرا یہ کہ انہوں نے مقامی مارکیٹ میں چینی مہنگی ہونے سے فائدہ اٹھایا جو دسمبر 2018 میں 55 روپے فی کلو سے جون 2019 میں 71.44 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔

مزید پڑھیں: گندم بحران تحقیقاتی رپورٹ: صوبائی وزیر خوراک مستعفیٰ، 2 بیوروکریٹس سبکدوش

ملک میں چینی کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں 2018 میں چینی کی برآمد کی اجازت دینے کے فیصلے اور اس کے نتیجے میں پنجاب کی جانب سے 3 ارب روپے کی سبسڈی دینے کو بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

کس نے کتنا فائدہ اٹھایا

کمیٹی کی رپورٹ میں چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین) کو ہوا اور اس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیا۔

رپورٹ کے مطابق اس کے بعد سب سے زیادہ فائدہ آر وائی کے گروپ کو ہوا جس کے مالک مخدوم خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار خان ہیں اور انہوں نے 18 فیصد یعنی 45 کروڑ 20 روپے کی سبسڈی حاصل کی۔

اس گروپ کے مالکان میں چوہدری منیر اور مونس الہٰی بھی شامل ہیں جبکہ اس کے بعد تیسرے نمبر پر زیادہ فائدہ المُعیز گروپ کے شمیم احمد خان کو 16 فیصد یعنی 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی صورت میں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کی عوام کو گندم، چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی

رپورٹ میں بتایا گیا کہ شمیم احمد خان کی ملکیت میں موجود کمپنیوں نے گزشتہ برس چینی کی مجموعی پیداوار کا 29.60 فیصد حصہ برآمد کیا اور 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔

رپوورٹ کے مطابق اومنی گروپ جس کی 8 شوگر ملز ہیں اس نے گزشتہ برس برآمداتی سبسڈی کی مد میں 90 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیے، خیال رہے کہ اومنی گروپ کو پی پی پی رہنماؤں کی طرح منی لانڈرنگ کیس کا بھی سامنا ہے۔

تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اس اہم پہلو کو بھی اٹھایا ہے کہ برآمدی پالیسی اور سبسڈی کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے سیاسی لوگ ہیں جن کا فیصلہ سازی میں براہ راست کردار ہے، حیران کن طور پر اس فیصلے اور منافع کمانے کی وجہ سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا اور اس کی قیمت بڑھی۔

تبصرے (0) بند ہیں