انتظامی رکاوٹوں کے باعث زندگی بچانے والی ادویات کی کمی

اپ ڈیٹ 22 اپريل 2020
سندھ اور خیبرپختونخوا میں ان ادویات کا اسٹاک ختم ہونا شروع ہوگیا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
سندھ اور خیبرپختونخوا میں ان ادویات کا اسٹاک ختم ہونا شروع ہوگیا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی: نیشنل کنٹرول لیبارٹری کی جانب سے سرٹیفکیشن کا عمل روک دیے جانے کے باعث ملک میں زندگی بچانے والی مصنوعات مثلاً ویکسین اور انسولین کی قلت کا خدشہ ہے۔

درآمد کنندگان اور حکومتی عہدیداران کے مطابق وفاقی چیف اینالسٹ جن کے پاس دستخط کا اختیار ہوتا ہے ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد سے یہ عہدہ ایک ماہ سے خالی ہے اور ابھی تک ان کی جگہ کسی اور کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا۔

اس حوالے سے ایک درآمدر کنندہ نے بتایا کہ اس صورتحال میں درآمد کنندگان کو خوف ہے کہ آئندہ ہفتے سے اہم مصنوعات کی قلت ہوسکتی ہے جو ’شدید بیمار افراد کے لیے تباہ کن ہوسکتا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: مارکیٹس میں 60 سے زائد انتہائی اہم ادویات کی قلت

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سندھ اور خیبرپختونخوا میں ان ادویات کا اسٹاک ختم ہونا شروع ہوگیا ہے اور (اس کی) تاخیر سے ہزاروں مریضوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’جن مصنوعات کی فراہمی کم ہے اس میں ریبیز، ٹیٹنس، ٹائیفائڈ اور ہیپاٹائٹس کی ویکسین، ٹیٹنس امیونو گلوبین، ریبیز امیونوگلوبین، انسولین اور مزید کئی ادویات شامل ہیں‘۔

دوسری جانب ایک آخری حربے کے طور پر پریشان تاجروں نے فوری کارروائی کے لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈریپ) کے سربراہ سے رابطہ کیا۔

اس سلسلے میں پاکستان کیمسٹ اینڈ ڈرگسٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے ڈریپ کو لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ وفاقی وزارت صحت نے نیشنل کنٹرول لیبارٹری سے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے لیے چیف اینالسٹ یا دستخط کے مجاز افسر کا تقرر نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: حکومت نے بھارت سے جان بچانے والی ادویات کی درآمد کی اجازت دیدی

خط میں کہا گیا کہ ’ایک ایسے مشکل وقت میں کہ جس سے ہمارا ملک گزر رہا ہے، ہماری رکن کمپنیاں متعدد زندگی بچانے والی حیاتیاتی مصنوعات مارکیٹ میں فراہم نہیں کرسکتیں کیوں کہ سرٹیفکیٹس جاری نہیں کیے جارہے‘۔

ڈرگسٹ ایسوسی ایشن نے اسے ‘نازک صورتحال‘ قرار دیا کیوں کہ زیادہ تر مصنوعات کی فراہمی پہلے ہی کم ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ اس سے ان اہم اشیا کے منتظر مریضوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا۔


یہ خبر 22 اپریل 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں