حکومت کو گلگت بلتستان میں الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت انتخابات کروانے کی اجازت

اپ ڈیٹ 01 مئ 2020
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے گلگت 
بلتستان آرڈر 2018 میں ضروری ترمیم کرنے کی اجازت مانگی تھی — فائل فوٹو: اے ایف پی
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے گلگت بلتستان آرڈر 2018 میں ضروری ترمیم کرنے کی اجازت مانگی تھی — فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت گلگت بلتستان میں عام انتخابات کروانے اور قائم مقام حکومت کی تشکیل کے لیے متعلقہ قانون میں ترمیم کی اجازت دے دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گلگت بلتستان حکومت کی 5 سالہ مدت جون کے آخری ہفتے میں ختم ہوجائے گی جس کے بعد 60 روز میں عام انتخابات ہونے ہیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ’فریقین کو سننے کے بعد ہم نے متفقہ طور پر وفاقی حکومت کی درخواست منظور کرلی ہے جس کی وجوہات بعد میں ریکارڈ کی جائیں گی‘۔

عدالت میں اٹارنی جنرل خالد محمود خان نے واضح کیا کہ قانون میں ترمیم صدارتی حکم کے ذریعے نٖفاذ سے کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان کے عوام کو حقوق دینے میں تاخیر پر سپریم کورٹ کا اظہار تشویش

چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 7 رکنی بینچ نے وفاقی حکومت کی جانب سے الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت عام انتخابات کروانے کے لیے گلگت حکومت، گلگت بلتستان آرڈر 2018 میں ترمیم اور عبوری مدت کے لیے قائم مقام حکومت کے قیام کی درخواست پر سماعت کی۔

تاہم سپریم کورٹ نے کہا کہ گلگت بلتستان کی حیثیت سے متعلق دائر پٹیشنز مثلاً وفاقی حکومت کے خلاف ایک توہین عدالت کی درخواست پر عید کی چھٹیوں کے بعد سماعت کرے گی۔

ترامیم پیش کرنے سے قبل اٹارنی جنرل سے وضاحت کی کہ حکومت کو سپریم کورٹ کے 17 جنوری 2019 کے فـیصلے پر عملدرآمد سے قبل علاقائی صورتحال کا جائزہ لینا پڑا۔

فیصلے کے مطابق وفاقی حکومت مطلوبہ ترامیم کے لیے گلگت بلتستان گورننس ریفامرز 2019 کو ایک بل کے ذریعے پارلیمان میں پیش کرنے کی پابند ہے۔

گلگت بلتستان گورننس ریفامرز 2019 کی عدم موجودگی میں گلگت بلتستان آرڈر اب بھی نافذالعمل ہے لیکن اس آرڈر میں ایسی کوئی دفعہ شامل نہیں جس کے تحت قانون ساز اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے بعد قائم مقام حکومت قائم کی جائے۔

مزید پڑھیں:گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی آئینی حقوق فراہم کیے جائیں، سپریم کورٹ کا حکم

یہ طریقہ کار سپریم کورٹ کے حکم کے ذریعے گلگت بلتستان گورننس ریفارمز 2019 کی دفعہ 56(5) میں شامل ہے۔

چنانچہ وفاقی حکومت صدارتی حکم کے ذریعے دفعہ 56(5) کو 2018 کے حکم نامے میں شامل کرکے الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت علاقے میں عام انتخابات کرواسکے گی۔

خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے اپنی درخواست میں سپریم کورٹ سے گلگت بلتستان آرڈر 2018 میں ضروری ترمیم کرنے کی اجازت مانگی تھی تاکہ اصلاحات کے نفاذ سے قبل قائم مقام حکومت تشکیل اور گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے لیے انتخابات کروائے جاسکیں۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: گلگت بلتستان سے متعلق حکومت کی مجوزہ قانون سازی کا مسودہ طلب

اس کے علاوہ درخواست میں اس علاقے میں انتخابی عمل جاری رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کے لیے الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت قواعد و ضوابط اختیار کرنے کی بھی اجازت مانگی گئی تھی۔

درخواست میں واضح کیا گیا تھا کہ حکومت گلگت بلتستان کی مدت جون میں ختم ہورہی ہے اس لیے انتخابات کروانے کے لیے قانونی طریقہ کار فوری طور پر فراہم کرنے کی ضرورت ہے جس میں عبوری حکومت کا قیام بھی شامل ہے۔

سماعت میں گلگت بلتستان چیف کورٹ بار ایسوسی ایشن اور بار کونسل کی نمائندگی کرنے والے وکیل سلمان اکرم راجا نے وفاقی حکومت کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ شفایت کی روح اور آئین پاکستان کے خلاف ہے۔

واضح رہے کہ 2019 میں سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ وفاقی حکومت آئین کی دفعہ 124 میں دیے گئے طریقہ کار کے سوا 2018 کے آرڈر میں کوئی ترمیم نہیں کرے اور اگر نافذ شدہ آرڈر واپس لیا گیا یا پارلیمان کے ذریعے اس کا متبادل پیش کیا گیا اور اگر اس کو چیلنج کیا گیا تو آئین کی کسوٹی پر اسے پرکھا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں