چار دہائیاں قبل 1980 میں ملک کے نامور ماہر نفسیات اور سماجی رہنما ڈاکٹر ظفر محمد قریشی سے ایک خاتون نے رابطہ کیا تاکہ وہ ذہنی مرض میں مبتلا ایک غریب اور مستحق مریض کا اچھے اور انتہائی کم خرچ پر علاج کروا سکیں۔

انہوں نے ڈاکٹر سے ایک تکلیف دہ سوال کیا کہ ذہنی امراض میں مبتلا غریب افراد کا سستے میں علاج کہاں سے کروایا جا سکتا ہے؟

خاتون کے سوال کے بعد ڈاکٹر ظفر محمد کو خیال آیا کہ دراصل صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں کوئی ایسا مرکز نہیں ہے جہاں غریبوں کا علاج کیا جاتا ہو۔

اس واقعے کے بعد ہی ڈاکٹر ظفر محمد قریشی نے اپنے ذہن میں آنے والے خیال کو حقیقت میں بدلا اور انہوں نے کاروان حیات انسٹی ٹیوٹ فار مینٹل ہیلتھ کا آغاز کیا، جہاں پر ایسے ذہنی امراض یا مسائل میں مبتلا افراد کا علاج کیا جانے لگا جو طبی اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔

چند معروف ماہر نفسیات، سماجی رہنما و انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے افراد جن میں بیگم رانا لیاقت علی خان، بیگم شائستہ اکرام اللہ، پروفیسر زکیہ حسن، مسٹر رستم جی آف بی وی ایس پارسی اسکول، انیتا غلام علی اور کارڈینیل جوزف کارڈیرو سمیت دیگر رہنما کاروان حیات کے بانی رکن بنے۔

دیکھتے ہی دیکھتے کاروان حیات میں آنے والے ذہنی مسائل میں مبتلا غریب مریضوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا گیا۔

کئی رہنما ڈاکٹر ظفر محمد کے ساتھ ذہنی صحت اور ذہنی مسائل کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لیے منعقد کیے جانے والے سیمینار میں بھی شرکت کرنے لگے اور پھر آگے چل کر 1983 میں باضابطہ طور پر کاروان حیات کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔

ابتدائی طور پر کراچی کے علاقے پنجاب چورنگی پر مذکورہ تنظیم کا آٖغاز کرائے کے 2 کمروں سے شروع کیا گیا اور آغاز میں مریضوں کو صرف زبانی طور پر ذہنی صحت اور مسائل سے متعلق سمجھایا جانے لگا۔


آج کاروان حیات کراچی کے علاقے کیماڑی میں 100 بستروں کا ہسپتال اور نفسیاتی بحالی کا مرکز، جامی میں او پی ڈی اور کورنگی میں کمیونٹی نفسیاتی سینٹر چلا رہا ہے۔


اس وقت کاروان حیات اپنی نوعیت کی واحد تنظیم ہے جو کہ نہ صرف ذہنی بیماریوں کا علاج فراہم کرتی ہے بلکہ یہ تنظیم ذہنی صحت کی بہتری اور بحالی کے لیے مریضوں کی صحت یابی کے حوالے سے تربیت سمیت دیگر اقسام کی سہولیات بھی فراہم کرتی ہے۔

کاروان حیات کا بنیادی مقصد ذہنی بیماریوں کی روک تھام، ان سے بچاؤ کے طریقے بتانا اور ان بیماریوں کاعلاج فراہم کرنا ہے، خصوصی طور پر یہ تنظیم پسماندہ طبقے کے غریب اور لاچار ذہنی مسائل اور بیماریوں میں مبتلا افراد کا علاج کرتی ہے اور ان کی ذہنی صحت کو یقینی بنانے کے لیے انہیں مختلف طرح کی خدمات فراہم کرتی ہے۔

مذکورہ تنظیم معروف ماہر نفسیات اور پیشہ ور ماہرین کی خدمات کو حاصل کرتے ہوئے پسماندہ طبقے کے ذہنی مسائل میں مبتلا افراد کو علاج کی سہولیات فراہم کر رہی ہے۔

علاوہ ازیں تنظیم معاشرے میں بھی ذہنی مسائل اور بیماریوں سے متعلق شعور اجاگر کرنے کے حوالے سے متعدد منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔

کاروان حیات نے 2004 میں ذہنی امراض میں مبتلا پسماندہ مریضوں کا علاج کرنے کے لی پہلے ہسپتال کا افتتاح کیا اور اسی ہسپتال میں صرف 2005 اور 2006 کے درمیان 9 ہزار 757 مریضوں کا علاج کیا گیا۔

اس وقت کاروان حیات سالانہ 80 ہزار ذہنی امراض و مسائل میں مبتلا پسماندہ طبقے کے مریضوں کا علاج کر رہی ہے اور اس تنظیم کی خدمات سے 56 لاکھ افراد کی زندگیوں پر مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

اس تنظیم میں 96 فیصد مریض مکمل طور پر علاج اور ادویات مفت حاصل کرتے ہیں یا انہیں انتہائی کم قیمت پر سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔

امریکی ریاست نیو جرسی میں واقع یونیورسٹی آف میڈیسن اینڈ ڈینٹسٹری سے عملے کی انتہائی پیشہ ورانہ تربیت کروانے کے بعد کاروان حیات نے کراچی کے علاقے کیماڑی میں نفسیاتی بحالی کے اسٹیٹ آف دی آرٹ سینٹر کی تعمیر کی ہے۔

یہ اپنی نوعیت کا منفرد نفسیاتی بحالی کا سینٹر ہے جہاں نہ صرف ذہنی بیماریوں کے شکار پسماندہ طبقے کے افراد کا علاج کیا جا رہا ہے بلکہ انہیں معاونت فراہم کرکے دوبارہ معمول کی زندگی جانب لوٹنے اور اپنے پیاروں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزارنے کا موقع بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔

سال 2011 میں کاروان حیات نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے کراچی کے علاقے کورنگی میں ذہنی امراض میں مبتلا مریضوں کے لیے آؤٹ پیشنٹ ڈیپارٹمنٹ (او پی ڈی) کے لیے ایک کلینک کا آغاز بھی کیا۔

اس مرکز کی سہولیات کی بنیاد پر نفسیاتی مسائل سے دوچار افراد کو ماہرین اور سماجی ورکرز گھر میں علاج کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔

نفسیاتی مسائل سے دوچار افراد کی ذہنی صحت پر مذکورہ سرگرمی بہت ہی مثبت اثرات چھوڑ رہی ہےکیوں کہ اس تکنیکی علاج کے دوران ایسے افراد اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔

احمد کی کہانی

احمد (فرضی نام) جب 25 سال کا تھا تب اس میں شیزوفینیا کے مرض کی شدید علامات ظاہر ہوئیں تو ان کے اہل خانہ نے انہیں نہیں سمجھا اور بعد میں انہیں دیہی سندھ کے ایک مزار پر زنجیروں کے ساتھ جکڑ دیا۔

بعدازاں جب انہیں کاروان حیات نامی ادارے کا علم ہوا تو اس وقت تک احمد اپنی زندگی کے 10 سال کھو چکا تھا۔

کاروان حیات میں صرف ایک سال تک علاج کے بعد احمد صحت یاب ہوگیا تو اسے چھٹی دے دی گئی اور آج وہ نہ صرف اپنی ذمہ داریاں سمجھتا ہے بلکہ وہ کوئی بھی کام کرنے کا اہل ہو چکا ہے۔

احمد خوش نصیب تھا کہ اسے کاروان حیات جیسے ادارے کا علم ہوا، جہاں اسے منتقل کیا گیا اور وہ آج نئی زندگی گزار رہا ہے لیکن ان جیسے بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو معاشرے کی فرسودہ روایات کی وجہ سے ذہنی بیماریوں اور نفسیاتی مسائل کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔


ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ڈیڑھ کروڑ افراد ذہنی بیماری کا شکار ہیں جبکہ کراچی میں 20 لاکھ لوگ معمولی سے شدید ذہنی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں


کاروان حیات کے لیے ہمیشہ ہی یہ چیلنج رہا ہے کہ محدود وسائل اور فنڈز کے تحت وہ بڑھتے مریضوں کا علاج برقرار رکھے۔

ساتھ ہی تنظیم کی کوشش رہی ہے کہ وہ ایسے مسائل سے دوچار افراد کا ہنستے مسکراتے اور عزت نفس کے ساتھ علاج کرے تاکہ وہ بھی اپنے پیاروں کے ساتھ پرسکون زندگی گزار سکیں۔

پاکستان سینٹر آف فلانتھراپی کے مطابق 98 فیصد پاکستانی فلاحی اور انسانی خدمات کے منصوبوں کے لیے امداد فراہم کرتے ہیں اور یہی عمل ہمارے ملک کو ایک منفرد اہمیت بخشتا ہے۔

حالیہ وقت میں مختلف طرح کے مسائل سے نبرد آزما ہونے پر کاروان حیات کے سی ای او ظہیر الدین بابر کا کہنا تھا کہ اس وقت پوری دنیا کو کورونا وائرس کی وجہ سے کئی طرح کے چیلنجز درپیش ہیں اور اسی وبا نے پاکستان میں بھی کئی طرح کے مسائل پیدا کردیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان جیسے ممالک کی معیشت پر برے اثرات پڑنے سے یہاں صحت سمیت کئی طرح کے مسائل پیدا ہوں گے جبکہ یہاں پہلے ہی صحت کا نظام کمزور ہے۔

ان کے مطابق اس وقت بہت بڑی آبادی گھروں تک محدود ہے اور لوگ وہ خود کو بے بس محسوس کرنے کی وجہ سے ذہنی مسائل کا شکار بھی ہو رہے ہیں لہٰذا ایسے وقت میں ہم سب کو عالمی سطح پر ذہنی و نفسیاتی مسائل سے لڑنے کے لیے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کورونا کی وبا کے دوران سوشل میڈیا و میڈیا پر طرح طرح کی خبریں آنے کے بعد لوگ ذہنی دباؤ کا شکار بن رہے ہیں جبکہ اس سے قبل کبھی بھی اتنی تیزی اور شدت سے لوگ ذہنی مسائل کا شکار نہیں ہوئے۔

کاروان حیات نے ہمیشہ ہی ایسے ہی مسائل سے دوچار پسماندہ اور دبے ہوئے طبقے کے افراد کی ذہنی صحت اور نفسیاتی بحالی پر کام کیا ہے۔

کارپوریٹ اداروں اور مخیر حضرات کاروان حیات کو اپنے منصوبے خوش اصلوبی سے آگے بڑھانے کے لیے معاونت فراہم کریں تو معاملات اور بھی بہتر ہوں گے، اس سے ذہنی مسائل اور بیماریوں میں مبتلا افراد کو صحت یاب کرنے میں نہ صرف مدد ملے گی بلکہ وہ اپنی زندگی کی طرف لوٹ کر اپنے پیاروں کے ساتھ زندگی بھی گزار سکیں گے۔

کاروان حیات سے درج ذیل ایڈریس پر رابطہ کیا جا سکتا ہے

کاروان حیات نفسیاتی کلینک اور بحال مرکز کے پی ٹی ہسپتال اور ضیاء الدین ہسپتال، کیماڑی کراچی

فون یو اے این: (021) 111-534-111

ای میل: [email protected]

ویب سائٹ: www.keh.org.pk


مذکورہ مواد کاروان حیات کی جانب سے اشتہار کی مد میں شائع کیا گیا ہے، اس سے ڈان کے ایڈیٹوریل اسٹاف کا کوئی تعلق نہیں اور اس میں پیش کیے گئے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں