اسرائیل کا مقبوضہ علاقوں سے بھی فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کا منصوبہ

اپ ڈیٹ 13 مئ 2020
اسرائیلی شہریت کے حامل فلسطینیوں کو گنجان آباد عالقوں تک محدود کردیا گیا ہے— فوٹو: رائٹرز
اسرائیلی شہریت کے حامل فلسطینیوں کو گنجان آباد عالقوں تک محدود کردیا گیا ہے— فوٹو: رائٹرز

انسانی حقوق کی تنظیم نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی شہریت کے حامل فلسطینیوں کو مکانات بنانے اور آبادی کی افزائش کے لیے زمین فراہم نہیں کی جا رہی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل اب فلسطینیوں کو مقبوضہ علاقوں سے بھی باہر کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

مزید پڑھیں: امن منصوبے سے انکار پر اسرائیل فلسطین کو ریاست تسلیم نہ کرے، امریکی عہدیدار

امریکا کے انسانی حقوق کے گروپ 'ہیومن رائٹس واچ' کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت کی پالیسیاں یہودی شہریوں کے حق میں ہیں اور دہائیوں سے جاری امتیازی سلوک اور زمین پر قبضے کے سبب فلسطینی شہری گنجان آباد علاقوں اور گاؤں میں رہنے پر مجبور ہیں جس میں مزید توسیع کی کوئی گنجائش نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکومت یہودی آبادی کی توسیع و ترقی کی مکمل حمایت کر رہی ہے اور ان یہودی بستیوں میں سے اکثر کو 1948 میں نکبہ میں تباہ ہونے والے فلسطینی گاؤں پر تعمیر کیا گیا ہے۔

انسانی حقوق کے ادارے نے کہا کہ فلسطینی اسے اپنی تباہی تصور کرتے ہیں کیونکہ جنگ کے بعد ہزاروں کی تعداد میں فلسطینیوں کو زبردستی ان کے گھروں سے نکال کر کر اسرائیلی بستیوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل فلسطین میں بستیوں کی تعمیر بند کرے: اقوام متحدہ

تنظیم کے مشرق وسطیٰ کے قائم مقام چیف ایگزیکٹو ایرک گولڈ اسٹین نے کہا کہ گرین لائن کے دونوں اطراف اسرائیلی پالیسی کے سبب فلسطینی گنجان آباد علاقوں میں محدود ہو کر رہ گئے ہیں جبکہ زمین کا اکثر حصہ اسرائیلیوں کو دستیاب ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ طریقہ کار مقبوضہ مغربی کنارے میں عام ہے لیکن اب اسرائیلی حکام اپنے ملک اسرائیل کے اندر بھی زمین کے معاملے میں امتیازی سلوک کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

اننسانی حقوق کی تنظیم کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیلی آبادی کا 21 فیصد حصہ فلسطینی شہریوں پر مشتمل ہے لیکن اس کے باوجود اسرائیلی اور فلسطینی انسانی حقوق کی تنظیموں نے تخمینہ لگایا تھا کہ اسرائیل کی حدود کی تین فیصد سے بھی کم زمین فلسطینی آبادیوں کو رہائش کے لیے دستیاب ہے۔

اسرائیلی حکومت ملک کی براہ راست 93 فیصد زمین کو کنٹرول کرتی ہے جس میں مقبوضہ مشرقی یروشلم کا علاقہ بھی شامل ہے اور حکومتی ایجنسی اسرائیل لینڈ اتھارٹی زمین کے تمام تر امور کو دیکھتی ہے۔

مزید پڑھیں: فلسطین نے امریکا اور اسرائیل سے تمام تعلقات ختم کردیے

اسرائیل لینڈ اتھارٹی کے تقریباً آدھے اراکین کا تعلق جیوش نیشنل فنڈ سے ہے جس کے پاس یہودیوں کے سوا کسی اور کو زمین نہ دینے اور اسی ایجنسی کے پاس یہودیوں کی آباد کاری کے حقوق اور انہیں ترقیاتی کاموں کی اجازت دینے کا حق ہے۔

اس کے علاوہ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ یہودیوں کی ہر بستی میں داخلے کی ایک باقاعدہ کمیٹی ہے جو فلسطینیوں کو داخلے کی اجازت نہیں دیتی اور ان کے پاس اس بات کے قانونی حقوق ہیں۔

کچھ یہی معاملہ ناگیو میں فلسطینی گاؤں بدون کا بھی ہے جس میں قائم عمارتوں کو یہ کہہ کر گرانے کا حکم دیا گیا ہے کہ ان کے پاس عمارتیں بنانے کا اجازت نامہ نہیں اور موجودہ حالات میں ان افراد کے لیے یہ اجازت نامہ حاصل کرنا ناممکن ہے۔

1948 سے اب تک اسرائیل نے اپنی سرزمین پر 900 سے زائد یہودی بستیاں بنانے کی اجازت دی ہے لیکن اس کے برعکس اسرائیلی شہریت کے حامل فلسطینیوں کو انتہائی کم تعداد میں عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا اسرائیل اور فلسطین کے لیے امن منصوبے کا اعلان

ہیومن رائٹس واچ کے فلسطین اور اسرائیل کے ڈائریکٹر عمر شاکر نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ فلسطینی گاؤں اور بستیوں کو انتہائی محدود کردیا گیا ہے اور اسرئیلی پالیسیوں نے اب انہیں انتہائی گنجان آباد علاقوں تک محدود کر دیا ہے جس میں مزید تعمیر کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ اس کے برعکس یہودیوں کو مستقل توسیع کی اجازت دی جارہی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق یروشلم کے علاوہ اسرائیل میں تعمیر 60 سے 70 ہزار فلسطینیوں کے مکانات کو گرائے جانے کا خطرہ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں