’رمضان المبارک‘ اگرچہ عید نہیں، لیکن ہمارے سماج میں کسی طرح عید سے کم بھی تو نہیں۔ ہمیں سارے سال ’ہجری تقویم‘ کی چاہے کچھ خبر نہ ہو، لیکن جوں ہی رمضان قریب ہوتا ہے، اس کی آمد کے لیے دن گنے جانے لگتے ہیں، بالخصوص آخری 2 ماہ میں رمضان کے چاند دیکھے جانے تک ایک انتظار ہوتا۔

ہمیں یاد ہے کہ بچپن میں ہمیں ماہِ رجب کے چاند پر بتایا جاتا تھا کہ اس کے بعد بس ایک چاند اور ہے اور پھر اگلا چاند ہم رمضان کا دیکھیں گے۔ شعبان کے ہلال پر یہ نوید دی جاتی تھی کہ بس اب نیا چاند ماہِ صیام کی ہی خبر لائے گا۔

کیا بچے اور کیا بڑے سب ہی رمضان میں اپنے اندر ایک عجیب طرح کا ولولہ محسوس کرتے ہیں۔ رات کے آخری پہر سیر ہوکر کھانے اور پھر سارا دن کے انتظار کے بعد شام ڈھلے دسترخوان پر کھانا شروع کرنے کے لیے اذان کا انتظار کرنے میں کوئی اَن دیکھا سا کرشمہ ہے۔

سمے کا بہتا دھارا ہماری زندگیوں میں ایک بار پھر رمضان لے آیا۔ مگر یہ ایسا رمضان ہے کہ شاید ایسا پہلے کبھی نہ آیا ہو۔ ہلالِ رمضان سے شاید عید کے چاند تک سب کچھ ’کورونا‘ پھیلنے کے خدشے کے سبب نافذ کیے گئے ’لاک ڈاؤن‘ کے سبب بدلا بدلا سا ہے۔

یوں تو صائمین آج بھی مغرب کے وقت کھانا چُنے گئے دسترخوان پر باادب ہوتے ہیں، لیکن بُرا ہو اس وبا کے سبب ’سماجی فاصلے‘ کا، ہم اپنے افطار میں کسی اور کو شامل نہیں کرسکتے۔ ورنہ افطار سے آدھے پونے گھنٹے پہلے کی جو ایک خوبصورت روایت پاس پڑوس اور قریبی رشتے داروں کے ہاں ’افطار‘ کے تبادلے کی تھی۔ ناجانے ایک چھوٹی سی کٹوری میں ابلے ہوئے چنے، ایک پیالی میں دہی بڑے، 2 سموسے اور 4 بیسنی پھلکیوں میں ایسا کیا راز تھا کہ اِسے لینے والے کو تو خوشی ہوتی ہی تھی، دینے والا بھی نہال ہوا جاتا تھا۔

جلدی جلدی ایک چھوٹی سی سینی میں یہ لوازمات سجاکر اوپر ایک دسترخوان ڈھانپ کر فٹافٹ بچوں کو دوڑایا جاتا کہ ذرا بھاگ کر یہ بڑی پھوپھو کے ہاں تو دے آنا، اور ساتھ ’خالہ خیرن‘ کا حصہ بھی لے جاؤ، اور ذرا جلدی سے آنا ابھی ’چھوٹی آپا‘ کے ہاں بھی جانا ہے۔

بچے دوڑ کے جاتے اور بھاگ کے آتے کہ کہیں راستے میں اذان کا وقت نہ ہوجائے اور کبھی راستے میں ہی روزہ کھل بھی جایا کرتا تھا۔ ہر چند کہ یہ پُرخلوص روایت اب دم توڑنے لگی تھی، لیکن ’وبا‘ نے تو ایک جھٹکے میں ہی سارے عالم میں سناٹا کردیا۔

اب یوں ’افطار‘ لے جانے والا بھی سوچے کہ کسی کے ہاں دستک دی تو کہیں اس سے اسے ’کورونا‘ نہ چمٹ جائے، ادھر لینے والا بھی 100 طرح کے وسوسوں میں گِھرے کہ کہیں ’کورونا‘ اس افطار کے پکوانوں میں نہ جا چھپا ہو۔ کتنا عجیب سا ہے ناں یہ سب کچھ!

رمضان اور عید کے چاند دیکھنے کی روایت تو سر اٹھا کر آسمان نگل لینے والی عمارتوں نے تلپٹ کر ہی ڈالی تھی، ورنہ چاند کی 29ویں کو محلے بھر کے لڑکے بالے مسجد کی چھت کا تالا کھولنے کے لیے مؤذن یا خادمین کی ناک میں دَم کردیا کرتے تھے۔

البتہ گلی کوچوں کی رونق تو اس مہمان مہینے کی آمد کی خبر دے دیا کرتے تھے۔ اس ’لاک ڈاؤن‘ کی وجہ سے اب ایسا سناٹا رہا کہ شاید عام رمضان میں 24 گھنٹوں میں کسی پہر بھی نہ ہوتا ہوگا۔ عروس البلاد کراچی کی اگر راتیں جاگتی تھیں، تو ہمارا محلّہ اس کی عملی مثال تھا اور اس کے مکینوں کے لیے یہاں رمضان میں ایسی کشش تھی کہ برسوں پہلے یہاں سے دوسرے علاقوں میں جا بسنے والے پرانے محلے دار بھی ہر رمضان یہاں ضرور چکر لگاتے کہ ’بھیا، اصل رمضان تو اپنے پرانے محلے میں ہی آکر معلوم چلتا ہے۔!‘

پہلی شب سے ہر فرد عید کی طرح تیار ہوکر مساجد کا رخ کرتا، پھر بھلے آہستہ آہستہ اس میں بے قاعدگی آجاتی ہو، لیکن شروع کے دنوں میں جذبہ دیدنی ہوتا ہے، لیکن اس بار سب ہی گھروں میں محدود رہے۔

رات کو مسجد کے بند دروازے سے آتی تلاوت کی آواز اور یہاں سے وہاں تک کھمبوں سے زمین پر برستی ہوئی زرد روشنی سے سارے علاقے میں ایک اداس سناٹا پنجے گاڑے ہوا تھا۔ دفعتاً مسجد کی کھڑکی سے اندر کا منظر دیکھا۔ فاصلے سے کھڑے ہوئے 4، 6 نمازی صورتحال کی ساری داستان کہہ رہے تھے۔ اریب قریب کی گلیاں بھی اس قدر ویران تھیں کہ دیکھ کر وحشت ہونے لگی۔ کہاں انہی روزوں کے دنوں میں یہ گلی کوچے رات رات بھر سوتے نہ تھے۔

تراویح کے بعد نوعمروں کے رت جگے کے پروگرام ہوتے تھے، یوں معلوم ہوتا تھا کہ دن بھر بولنے چالنے کا بھی روزہ تھا کہ اب گلی کے نکڑوں اور چوراہوں پر بھی یار لوگوں کی محفل جمی ہے۔ قہقہے گونج رہے ہیں، پھر سحری کے لیے کوئی برنس روڈ جارہا ہے تو کوئی قرب وجوار کے دیگر ہوٹلوں کا رخ کرکے اپنی ہم جولیوں کے ساتھ روزوں کا اہتمام کر رہا ہے۔ لیکن اب کے معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ رمضان ایسی سرگرمیوں کے بغیر ہی بیتا جائے گا۔

محلے کی اگلی سڑک پر ’نوری حلوائی‘ کی پرانی دکان پر چاند رات کو کھجلا اور پھینی لینے والوں کی اتنی بھیڑ ہوتی تھی کہ آدھی سڑک گاہکوں سے گِھر جاتی۔ اس کی دکان پر تھالوں میں کھجلے پھینیوں کی یہ اونچی تھپّی کی تھپّیاں اوپر تک جمی ہوئی ہوتی تھیں۔ پھر عصر سے پہلے اس کی کڑاہی سموسے، جلیبی، رول اور اِمرتی وغیرہ کی تیاری کے لیے چڑھی رہتی، اور بہت سے غیر روزے دار ’افطار‘ کے لیے سج جانے والی انہی سموسے، جلیبی، چھولے، فروٹ چاٹ اور دہی بڑے کی پھیریوں سے چپکے سے اپنی بھوک مٹانے کا انتظام کرلیتے کہ کھانے وغیرہ کے ہوٹل تو دن میں بند رہتے۔

شام کے سمے اس سڑک پر اپنے کاموں سے گھر لوٹنے والوں کے سبب بہت زیادہ ہجوم رہتا، تو اپنے افطار کے لیے لوازمات لینے والوں کے سبب بھی یہاں کھوے سے کھوا چھلنے لگتا، بہت سے لوگ آخر وقت میں نکلتے، تاکہ اذان کے وقت یہ ساری ’نعمتیں‘ گرم گرم نوش کی جاسکیں۔ اسی لیے ’نوری‘ کی دکان آخر وقت گاہکوں سے بھری دکھائی دیتی۔

بہت سوں کی اسی بھاگا دوڑی میں ہی اذان ہوجاتی، تو کچھ فاصلے پر ’بھائی بابو‘ کی فروٹ چاٹ پر افطار کا اہتمام ہوجاتا۔ آس پاس کے پھل فروش ان کے ساتھ مل بیٹھتے۔ مگر اب ویرانی راج کرتی ہے، کیونکہ افطار سے 2 گھنٹے پہلے ہی ساری دکانیں سمٹ جاتی ہیں، تو اس ماہِ صیام یہ مناظر بھی ناپید ہو چکے ہیں۔

اگر ہم اس ماہِ مبارک کے ’خالی پن‘ کو موضوع کررہے ہیں، تو جہاں ہم شہر بھر میں سڑکوں اور شاہراہوں کے کنارے پر تقریباً ہر ایک 2 کلو میٹر پر ہونے والے ’افطار کے دستر خوان‘ کو نہیں بھول سکتے، جب ہر چوراہے پر کچھ اللہ کے بندے افطار کی نعمتیں سجائے اور کچھ افطار کے ڈبے لیے ’مسافر روزے داروں‘ کی مہمان داری لیے دیدہ ودل فرش راہ کیے ہوئے ہوتے تھے، وہیں ہم اپنے علاقے میں اس خوبصورت روایت سے جڑی ہوئی شخصیت ’بھائی سلطان‘ کو بھی نہیں بھول سکتے، جو لگ بھگ 50 سال سے اپنا روزہ اہلِ خانہ کے ساتھ کھولنے کے بجائے بس اسٹاپ پر مسافروں کے ساتھ کھولتے ہیں۔

وہ نہ کوئی لنچ بکس بانٹتے ہیں اور نہ ہی کسی دسترخوان کا اہتمام کرتے ہیں، بلکہ ایک ٹرے میں اعلیٰ درجے کی کھجور سجا کر روزے سے کچھ وقت پہلے جب ہر کوئی اپنے دسترخوان پر بیٹھ رہا ہوتا ہے، وہ محلے کے مرکزی راستے کی راہ لیتے ہیں اور عین اذان کے وقت یا اذان کے دوران بولائے بولائے اپنے گھروں کو دوڑنے والے راہ گیروں کے روزے کھلواتے ہیں۔

ان کی کھجور بھی محض کھجور نہیں ہوتی، بلکہ وہ ان کی گھٹلیاں نکال کر اس کی جگہ مکھن بھرتے ہیں اور یہ مکھن والی کھجور واقعی کچھ اور ہی لطف دیتی ہے۔ پرانی محلے داری کے سبب بچپن میں یہ ’خصوصی کھجور‘ ہم نے اپنے گھر میں ہی بہتیری کھائی ہے۔ بچپن میں ہمیں کیا پتا تھا کہ یہ کھجور مسافروں کے لیے ہوتی ہیں، ہم تو بس اپنے ابو سے مکھن والی کھجور کی فرمائش کردیا کرتے تھے۔ ’وبا‘ کے اس ویرانے میں برسوں پرانی یہ رونق بھی اب ماند ہے۔

جوں جوں رمضان کے دن گزرتے تھے توں توں ایک اور مسرت کی گھڑی دل کو شاداں کیے جاتی تھی، اور یہ خوشی عید کی ہوتی تھی۔ پہلے عشرے کے بعد سے سارے جہاں میں گویا ایک الٹی گنتی چل پڑتی تھی اور دوسرے کے بعد تیسرے عشرے میں تو ہر فرد رمضان کی برکتوں کے ساتھ عید کی تیاریوں میں مشغول ہوتا تھا۔

حلوائیوں اور نان بائیوں کے ہاں اس تہوار کی انواع اقسام کی مٹھائیاں اور وضع وضع کے کیک وغیرہ بھی سجنے لگتے۔ دوسری طرف عید کا خصوصی بازار جہاں خریداروں کے لیے دل فریب ہوتا، وہیں چھوٹے پیمانے کی دکان داری کرنے والے بھی سال بھر اس کا انتظار کرتے۔ اب نہیں معلوم اس بازار کی کتنی چھوٹ مل سکے گی، لیکن بہرحال رمضان سے منسلک یہ روایت بھی اس برس بُری طرح متاثر تو ہو ہی چکی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں