لکھاری لاہور میں ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔
لکھاری لاہور میں ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔

پابندیوں میں نرمی کے بعد لاک ڈاؤں سے متعلق مباحثے نے مزید شدت پکڑ لی ہے۔ افسران، دکاندار اور میڈیا، جو بے بنیاد اندازے بتانے کے الزامات کے ساتھ شدید تنقید کا نشانہ بنتا ہے، سب کے سب بازاروں میں بغیر ماسک پہنے لوگوں کا رش دیکھ کر ہکے بکے رہ گئے ہیں۔

اس صورتحال کے بعد وہی گھسی پٹی پرانی وضاحت پیش کردی گئی کہ 'ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ لوگوں کا ردِعمل ایسا ہوگا'۔ جبکہ خود کو تسلیاں دینے میں مصروف افسران اور دیگر ایسے حضرات جو بظاہر خود کو اس کا ذمہ دار تصور کرتے ہیں وہ اس تردیدی بیان میں اخلاقی تقاضوں کا پاس رکھتے ہوئے یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ 'ہم ایسی صورت میں کچھ نہیں کرسکتے جب لوگ خود اس قدر بڑی تعداد میں قوانین و ضوابط کو دھجیاں اڑا رہے ہیں'۔

یہ رش زدہ اور پُررونق بازار بتارہے ہیں کہ لوگ اس وبا سے پہلے جس طرح زندگی گزارنے کے عادی تھے، وہ اب بھی ویسی ہی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔

اب ایک بات تو بالکل واضح ہوچکی کہ اس کے بغیر ہمارا گزارا نہیں اور ان کی باتوں پر تو بالکل بھی کان نہیں دھرا جائے گا جو اس عالمی وبا سے لڑنے میں مصروف افراد کی خاطر اور ان افراد سے اظہارِ یکجہتی کے لیے کفایت شعاری کا مشورہ دے رہے ہیں جو اس بیماری کی وجہ سے اپنے پیاروں سے محروم ہوگئے ہیں۔

اس کی بھی ایک بڑی وجہ ہے اور وہ یہ کہ ہم طویل عرصے سے دہشتگردوں اور تعصب سے بھرے افراد سے جنگ لڑ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ہماری زندگی گزارنے کی عادتوں میں کوئی تبدیلی نہیں آسکی، تو بھلا ایک وبا یا بیماری ان عادتوں کو کیسے تبدیل کرسکتی ہے؟

ہاں، اگر لوگوں کو اس کام سے روکنا ہے تو اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے مکمل پابندی۔

عالمی وبا کے باعث ہماری طرزِ زندگی کو نہ چھیننے کا مطالبہ سب سے زیادہ دکاندار نے کیا ہے اور یہ کوئی اتفاق کی بات بھی نہیں ہے۔ یہ ان کے لیے اور ہمارے لیے خوش قسمتی کی بات ہے کہ دکاندار ان چند افراد میں شامل ہے جنہوں نے نئی قوتوں کو ان کی آوازیں دبانے کا موقع نہیں دیا۔ وہ ایک ایسی دنیا کا نمائندہ ہے جو اس دنیا سے دُور پڑتی ہے جو ہمارے گرد بدلتی حقیقتوں کی وجہ سے تقریباً مِٹ چکی ہے۔

دکاندار بازاروں کو کھولنے کے حق میں ہیں۔ تاجروں نے دھمکی دی کہ وہ کاروبار کی بندش سے متعلق حکومتی احکامات کی ہر صورت خلاف ورزی کریں گے، چاہے اس کی کوئی بھی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔ جب سے ملک کے اندر بے دلی کے ساتھ تذبذب بھرا لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے تب سے ہی یہ دھمکیاں اخبارات اور ٹی وی کی زینت بن رہی ہیں۔

حال ہی میں آپ نے معتبر دکھنے والے دکانداروں کے نمائندوں کو بڑے بڑے سرکاری عہدیداروں کے پاس جاتے ہوئے بھی دیکھا ہوگا۔ پسینے سے تر پیشانیوں کے ساتھ وہ شدید دباؤ کے شکار حکام کے سامنے پیش ہوئے اور کامیابی سے ان کو اس بات پر راضی کرلیا کہ لاک ڈاؤن میں نرمی لانا کتنا ضروری ہوچکا ہے۔ یہ ہمارے (واحد) نمائندے بھی ہیں۔ انہوں نے اس طرزِ زندگی کو بحال کرنے میں مدد فراہم کی جس کے تحفظ کے لیے ہم ایک وقت سے لڑتے اور جھگڑتے چلے آ رہے ہیں۔

پھر بازار ہم میں بدل گیا اور ہم بازار میں بدل گئے۔ پس پردہ کیا کچھ ہوا؟ اس سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔ پھر وہ لاکھوں افراد جو ان بازاروں کی نمایاں دکانوں میں مال بھرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں وہ نہ ماضی میں کبھی دکھائی دیے اور اب اس کورونا سیزن کے دوران بھی وہ اجنبی ہی رہے ہیں۔

بڑے شہروں کے چند چوراہوں پر کچھ احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے اور جن تاجروں نے اس کا اہتمام کیا انہوں نے بڑی ہوشیاری سے اپنے نعروں کو جذباتی تاثر دینے کے لیے مزدور کا لفظ استعمال کیا۔ ان مظاہرین میں بے ضابطہ مزدور بھی شامل تھے جو مزدوروں میں سب سے زیادہ استحصال کا شکار بنتے ہیں لیکن جب ٹریڈ یونین جیسی تنظیموں کا ذکر چھیڑا جاتا ہے تو گویا آپ یکسر ایک الگ دنیا اور الگ زندگی اور جینے کے اصول کی بات کرنے لگتے ہیں۔

ٹریڈ یونین کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران ایک بار منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ ڈاکٹروں نے مطالبہ کیا ہے کہ تحفظ کے کم سے کم معیارات پر پورا اترنا لازمی ہے۔ یہاں تک کہ ان مخصوص خطرناک وقتوں میں کام کرنے والوں کو مناسب مالی معاوضہ دینے کی بھی باتیں کی گئی ہیں۔

پائلٹوں کی یونین بھی بیرونِ ملک پھنسے پاکستانیوں کو وطن واپس لانے والی خصوصی پروازوں پر چند خاص معیارات کو یقینی بنانے کا عزم دہراتی نظر آتی یے۔ صحافیوں کے حفاظتی حصار کو ہر ممکن سطح پر بڑھانے کے لیے بھی چند کمزور آوازیں اٹھائی گئی ہیں۔ مگر جس مزدور یا کارکن کی تصویر آپ کے ذہن میں ابھرتی ہے وہ اس منظرنامے میں کہیں دکھائی نہیں دیتا البتہ ان کی غائبانہ موجودگی ان عداد و شمار میں ضرور پائی جاتی ہے جن سے کھیلنے کا ماہرین کافی شوق رکھتے ہیں۔

پھر فیکٹریوں کو کھولنے کی بھی باتیں چل رہی ہیں۔ کچھ فیکٹریاں تو کھل بھی چکی ہیں اور اگر آپ کا لاہور کے قائدِاعظم اسٹیٹ جانا ہو تو وہاں آپ کو بہت سی ایسی غیر تسلیم شدہ فیکٹریاں نظر آجائیں گی کہ جہاں ماسک کے بغیر ایک دوسرے سے قریب بیٹھے مزدور دکھائی دیں گے، لیکن اس حوالے سے کوئی بات کرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ یہاں ہر کوئی بازاروں میں رش سے متعلق مباحثے میں مصروف ہے۔

اس مزدور کی اپنی معاشی ضروریات ہیں اور چونکہ یہ ایسے حالات ہیں جہاں ملازمت کا تحفظ سب سے بڑی پریشانی بن چکا ہے، اس لیے وہ اپنی صحت کے لیے خطرناک ماحول میں بھی کام کرنے پر بھی راضی ہوجاتے ہیں۔

اب چونکہ معاشی ضروریات کی خواہش کو پورا کرنا ہی ہماری لیے سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں اور اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے بازار اور صنعتی پیداوار کا کردار کلیدی ہے، اس لیے ہم انہیں ہی زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور یوں مزدوروں کے مسائل اور ان کی پریشانیوں کو زیادہ وقت دینے کے لیے ہمارے پاس وقت ہی نہیں بچتا۔

اپنی منصفانہ اجرت کا مطالبہ کرنے والے ایک مؤثر کارکن کے عمومی سانچے سے باہر نکل کر مزدور تخلیقی طریقوں پر اثرات مرتب کرتا رہے گا۔ لاک ڈاؤن کے ذریعے پاکستانیوں پر ڈالی جانے والی مالی مشکلات سے متعلق منظرِ عام پر آنے والی چند سب سے زیادہ ڈراؤنی تصاویر میں سے ایک وہ تصویر ہے جس میں کارکن کو ہتھوڑی اور بیلچے سے لیس امیر کے پیچھے چلتا دیکھا جاسکتا ہے۔ درحقیقت یہ سب اچھی زندگی گزارنے والوں کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔

کچھ ایسی بھی کہانیاں گردش کر رہی ہیں کہ کس طرح ملازمتوں سے فارغ ہونے والوں کی ایک کثیر تعداد زندگی میں سخت محنت کرکے اپنی مالی حیثیت اچھی بنانے والوں کو گروہ کی صورت میں لوٹنے کے لیے تیار بیٹھی ہے اور وہ اسے انقلاب کا نام دے سکتے ہیں۔

فینسی دکانوں کے دروازے کھلنے کے بعد ہم نے فوراً وہاں پہنچ کر کورونا وائرس کی وبا کے بعد کی دنیا میں آنے والی ایک بڑی تبدیلی کی امیدوں کو زبردست جھٹکا پہنچا دیا ہے۔ حل آج اور آنے والے وقتوں کے لیے گوشگزار کردیا گیا ہے۔ ہم اگر اپنی دنیا میں ترقی اور خوشحالی کے خواہاں ہیں تو ہمیں خوف میں ڈالنے والے خونخوار مزدور کو اس کی دنیا میں مشقت میں چُور رکھنا ہوگا۔


یہ مضمون 15 مئی 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Shaukat ali ch May 21, 2020 10:06pm
پاکستان میں کرونا واہرس کی وبا کے بعد سب سے زیادہ متاثر فارمل اور انفارمل ورکرز ہوے ہیں ۔لیکن فارمل سیکٹر کے مزدور جن کی تعداد سب سے زیادہ ہے وہ سب سے زیادہ متاثر ہوے ہیں اور ان تک سرکاری امداد بھی پوری طرح نہی پہنچ پائ۔آپ نے اپنے کالم میں صورت کی اچھی نشاندہی کی ہے۔