افغان صدر کا مزید 2 ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان

24 مئ 2020
اشرف غنی نے امن عمل کے حوالے سے مزید اقدامات کرنے کا وعدہ بھی کیا — فائل فوٹو: رائٹرز
اشرف غنی نے امن عمل کے حوالے سے مزید اقدامات کرنے کا وعدہ بھی کیا — فائل فوٹو: رائٹرز

افغان صدر اشرف غنی نے اعلان کیا ہے کہ طالبان کی جانب سے عید الفطر پر 3 روز کی جنگ بندی کے اقدام کے بعد جذبہ خیر سگالی کے تحت افغان حکومت مزید 2 ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کردے گی۔

افغان خبر رساں ادارے طلوع نیوز کی ویب سائٹ کے مطابق صدر اشرف غنی نے یہ اعلان اتوار کو ہونے والے ایک اجلاس میں کیا، اس کے علاوہ انہوں نے امن عمل کے حوالے سے مزید اقدامات کرنے کا وعدہ بھی کیا۔

رپورٹ کے مطابق اس سے قبل 11 مئی کو افغان حکومت نے طالبان قیدیوں کی رہائی کا عمل معطل کردیا تھا اور کہا تھا کہ طالبان لازمی طور پر پہلے رہا کیے جانے والے افغان سیکیورٹی فورسز کی تعداد کو 200 تک لے آئے، اس حوالے سے حکومت کا دعویٰ تھا کہ اب تک طالبان نے صرف 105 قیدیوں کو رہا کیا ہے۔

خیال رہے کہ 29 فروری 2020 کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان اور امریکا کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے تحت افغان حکومت کو 5 ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرنا تھا تاہم اب تک حکومت نے ایک ہزار طالبان قیدیو کو رہا کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان حکومت اور طالبان کا عیدالفطر پر 3 روزہ جنگ بندی کا اعلان

افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان صدق صدیقی نے ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں کہا کہ طالبان کی جانب سے عید الفطر کے موقع پر 3 روزہ جنگ بندی کے اعلان کے بعد صدر اشرف غنی کی جانب سے جذبہ خیر سگالی کے طور پر 2 ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کے عمل کا آغاز کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ افغان حکومت امن میں توسیع کی پیش کش کرتی ہے اور امن عمل کو کامیاب بنانے کے لیے مزید اقدامات کررہی ہے۔

واضح رہے کہ طالبان نے ہفتے کے روز عید الفطر کے موقع پر ملک میں 3 روزہ جنگ بندی کا اعلان کیا تھا، جسے نہ صرف افغان حکومت بلکہ اس کے پڑوسی ممالک اور افغان جنگ میں اہم ترین حریف امریکا نے بھی سراہا تھا۔

طالبان کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان طالبان رہنما کے عیدالفطر کے پیغام کے بعد جاری کیا گیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ امن معاہدے پر قائم ہیں۔

جنگ بندی کے حوالے سے جاری حکم نامے میں طالبان جنگجوؤں کو لڑائی نہ کرنے بلکہ افغان سیکیورٹی فورسز کے ساتھ اخوت قائم کرنے کی ہدایت بھی کی۔

مزید پڑھیں: زلمے خلیل زاد کا تمام فریقین سے افغانستان میں تشدد میں کمی کا مطالبہ

ہدایات میں طالبان کو کہا گیا کہ کسی بھی جگہ پر دشمن پر حملہ نہ کریں لیکن اگر دشمن کی جانب سے حملہ کیا جاتا ہے تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا، اس کے ساتھ ہی حکم نامے میں طالبان کو دشمن کے علاقے میں داخل نہ ہونے کی تنبیہ کی گئی۔

بعدازاں افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کا خیرمقدم کیا گیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری پیغام میں اشرف غنی نے کہا کہ بطور کمانڈر ان چیف میں نے اے این ڈی ایس ایف کو 3 روزہ جنگ بندی پر عمل کرنے اور صرف حملے کی صورت میں دفاع کی ہدایت کی ہے۔

علاوہ ازیں امریکی نمائندہ خصوصی برائے امن عمل زلمے خلیل زاد نے طالبان اور افغان حکومت کی جانب سے جنگ بندی کے اعلانات کا خیرمقدم کیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں زلمے خلیل زاد نے عید کی مبارکباد دی اور عیدالفطر کے دوران افغان حکومت اور طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔

زلمے خلیل زاد نے کہا کہ کورونا وائرس نے دنیا کے لیے رمضان می مشکل پیدا کی جبکہ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث افٖغانیوں کے لیے خصوصی مشکلات پیدا ہوئیں۔

اس سے قبل 2018 میں افغانستان میں حکومت کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے بعد طالبان نے 17 برس میں پہلی مرتبہ عیدالفطر کے پیش نظر تین دن جنگ بندی کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اس سے قبل اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے مذکورہ اعلان کا خیر مقدم کیا اور تمام فریقین کو موقع سے فائدہ اٹھا کر افغانوں کی قیادت میں افغان امن عمل مکمل کرنے پر زور دیا۔

سیکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفین دوجارک کے مطابق انتونیو گوتریس نے کہا کہ صرف امن کے ذریعے ہی افغانستان کی مشکلات کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔

امریکا-طالبان امن معاہدہ

یاد رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ ہوا تھا جس میں طے پایا تھا کہ افغان حکومت طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کو رہا کرے گی جس کے بدلے میں طالبان حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کریں گے۔

قیدیوں کے تبادلے کا عمل 10 مارچ سے قبل مکمل ہونا تھا اور طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہونا تھا تاہم متعدد مسائل کی وجہ سے یہ عمل سست روی سے آگے بڑھا۔

مزید پڑھیں: بھارت کے حوالے سے زیر گردش خبروں کا افغان طالبان سے کوئی تعلق نہیں، ترجمان

تاہم افغانستان میں تشدد کی حالیہ لہر نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ کردیا ہے، جن میں سے کچھ حملوں بشمول 12 مئی کو میٹرنٹی ہسپتال میں کیے گئے حملے کو داعش سے منسوب کیا گیا۔

جس کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کے خلاف جارحانہ کارروائی کے دوبارہ آغاز کا حکم دیا تھا، افغان حکومت کے اعلان کے ردعمل میں طالبان نے کہا تھا کہ وہ افغان فورسز کے حملوں کے جواب دینے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔

طالبان نے کہا تھا کہ اب سے مزید کشیدگی کی ذمہ داری کابل انتظامیہ کے کاندھوں پر ہوگی۔

18 مئی کو قبل طالبان نے دوحہ معاہدے پر عملدرآمد کا مطالبہ دہرایا تھا، دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا تھا کہ افغان مسئلے کا حل دوحہ معاہدے پر عمل میں ہے، قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل اور بین الافغان مذاکرات شروع ہونے چاہیئیں۔

تاہم اسی شب طالبان نے قندوز میں حملہ کیا، اس حوالے سے افغان وزارت دفاع نے کہا کہ حملے کو ناکام بنادیا گیا اور طالبان کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں