آسیب کہانیاں – دسویں اور آخری قسط

جب چھت کے دروازے کی چابی میرے پاس ہے تو یہاں کوئی کیسے آسکتا ہے؟


عبیداللہ کیہر


اس سیریز کی بقیہ اقساط۔ پہلی، دوسری، تیسری، چوتھی، پانچویں، چھٹی، ساتویں، آٹھویں اور نویں قسط


جی الیون کے جن

میں یکم جنوری 2001ء کے دن، یعنی نئی صدی کے آغاز پر ،کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا تھا کیونکہ میری ملازمت بطور آڈیو ویژؤل انجنیئر اسلام آباد کے معروف شفا ہسپتال میں ہوگئی تھی۔

پہلے تو میں کراچی سے اکیلا ہی پہنچا، تاکہ یہاں کوئی مناسب گھر کرائے پر تلاش کروں اور پھر کراچی سے فیملی کو یہاں بلاؤں۔ میں چاہتا تھا کہ شفا ہسپتال سے قریب ہی کوئی گھر مل جائے تاکہ آنے جانے میں آسانی رہے، لیکن شفا کے اطراف والے سیکٹرز میں گھر خاصے مہنگے تھے۔ ان دنوں اسلام آباد کا سب سے آخری سیکٹر جی الیون G-11 ہوا کرتا تھا۔ یہ سیکٹر ابھی پوری طرح آباد نہیں تھا۔ کئی پلاٹ ابھی خالی تھے اور سیکٹر کی مرکزی مارکیٹ بھی ابھی موجود نہیں تھی، اس لیے یہاں موجود گھروں کے کرائے کچھ مناسب تھے۔ چنانچہ ایک دن تلاش کرتے کرتے جی الیون 2 میں مجھے گلی کے کارنر پر ایک خوبصورت سے گھر کا نچلا پورشن صرف ساڑھے 4 ہزار روپے ماہانہ کرائے پر مل گیا۔ یہ جگہ شفا ہسپتال سے دُور تو تھی، لیکن اسلام آباد کا یہ دُور دراز فاصلہ بھی دس کلومیٹر ہی بنتا تھا۔ درختوں اور سبزے سے گھری کھلی کھلی صاف ستھری سڑکوں اور بہت کم ٹریفک کی و جہ سے یہ فاصلہ مجھ جیسے کراچی والے کے لیے تو بس روزانہ کی سیر و تفریح ہی تھا۔

گھر لینے کے چند ہی دن بعد میری والدہ، اہلیہ اور دونوں بچے بھی اسلام آباد پہنچ گئے اور زندگی ایک نئی ڈگر پر چل پڑی۔ نوکری کے علاوہ جو بھی فرصت ملتی وہ اسلام آباد کے مرغزاروں کی سیر و تفریح اور فطرت کی قربت میں گزرنے لگی۔ ہر لانگ ویک اینڈ کا شدت سے انتظار ہوتا اور ان دنوں ہم ذرا لمبے سفر پر نکل جاتے۔ مری، نتھیا گلی، ایوبیہ، کاغان ناران، سوات، یہاں یہ سب کچھ ہماری پہنچ میں تھا اور اسلام آباد سے بس چند گھنٹوں ہی کی دُوری پر تھا۔ اس لیے زندگی بڑی سرخوشی میں گزرنے لگی۔

نوکری کے علاوہ جو بھی فرصت ملتی وہ اسلام آباد کے مرغزاروں کی سیر و تفریح اور فطرت کی قربت میں گزرنے لگی۔ ہر لانگ ویک اینڈ کا شدت سے انتظار ہوتا اور ان دنوں ہم ذرا لمبے سفر پر نکل جاتے
نوکری کے علاوہ جو بھی فرصت ملتی وہ اسلام آباد کے مرغزاروں کی سیر و تفریح اور فطرت کی قربت میں گزرنے لگی۔ ہر لانگ ویک اینڈ کا شدت سے انتظار ہوتا اور ان دنوں ہم ذرا لمبے سفر پر نکل جاتے

ہمارا گھر جی الیون سیکٹر میں جس جگہ پر تھا وہ گلی کا کارنر تو تھا ہی، جبکہ اس کے ساتھ ایک خاصا وسیع خالی پلاٹ بھی تھا جس کے آخر میں ایک گہرا برساتی نالا گزرتا تھا۔ خالی پلاٹ کو تو ہمارے مالک مکان نے گھاس پھول لگا کر ایک مناسب سا باغ بنا دیا تھا۔ باغ کے ساتھ گزرنے والے نالے کا پاٹ بھی طرح طرح کے سرسبز خودرو پودوں اور جنگلی پھولوں سے بھرا رہتا تھا اور اس کی تہہ میں نمی کی وجہ سے رات کو یہاں اکثر جگنو بھی اڑتے نظر آتے تھے۔

رات کے اندھیرے میں اڑتے ان ننھے ننھے چراغوں جیسے جگنوؤں کا نظارہ ہم کراچی کی گنجان آبادی میں رہنے والوں کے لیے ایک خوابناک منظر کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہ گھر 3 کمروں اور ایک مختصر سے لاونج پر مشتمل تھا۔ بیرونی کمرہ تو ڈرائنگ روم تھا، پچھلا کمرہ ہم نے امّاں اور بیٹے کو دیا اور درمیان والا کمرہ ہم میاں بیوی اور بیٹی کے حصے میں آیا۔ اس کمرے کی بیرونی دیوار میں ایک بڑی سی کھڑکی کھلتی تھی جس کے باہر خالی پلاٹ والا باغ تھا۔

اس باغ کے آخر میں برساتی نالے کے اندر اُگے بلند پودوں کے پتے سرسراتے نظر آتے تھے اور انہی پودوں میں ستمبر اکتوبر کی خنک راتوں میں جگنو اڑتے نظر آتے تھے۔ ویسے اس پائیں باغ کا نظارہ دن کی روشنی میں تو بڑا دلکش ہوتا تھا، لیکن رات کے اندھیرے میں یہ کچھ خوفناک خوفناک سا ہوجاتا تھا۔ باغ کے پودے اور درخت سیاہ ہیولوں کی شکل اختیار کر لیتے تھے اور اس مہیب اندھیرے میں دُور اڑتے جگنوؤں کی ریڈیم لائٹ جیسی سبز روشنی ایک پُراسرار ماحول تخلیق کردیتی تھی۔

مکان کے اوپر والے پورشن میں امرتسر کی ایک مفتی فیملی رہائش پذیر تھی۔ ماں باپ، 2 بیٹے جاوید اور زبیر، اور 4 بچیاں۔ انتہائی خوش اخلاق اور مہمان نواز خاندان۔ یہ لوگ معروف ادیب ممتاز مفتی کے رشتہ دار بھی تھے۔

اس مکان میں منتقل ہونے کے چند دن میں ہی ہمارے بہت خوشگوار تعلقات پیدا ہوگئے۔ خصوصاً جاوید مفتی اور میں تو جلد ہی گہرے دوست بن گئے۔ جاوید بھی ایک پُراسرار شخصیت تھا۔ وہ اکثر کچھ ایسی عجیب و غریب باتیں کرتا کہ جن پر مجھے یقین ہی نہیں آتا تھا۔ وہ اس مکان کے بارے میں بھی عجیب باتیں کرتا تھا۔ کہتا تھا کہ اس گھر پر کسی آسیب کا سایہ ہے۔

’تمہیں کیسے پتہ چلا کہ یہاں کچھ اثرات ہیں؟‘

میں اس سے پوچھتا تو وہ کئی واقعات سنانے لگتا۔

مثلاً وہ کہتا کہ اس گھر کے دائیں بائیں والے مکان دُور بھی ہیں اور ایک منزلہ بھی ہیں، اس لیے ان پر سے کسی کا اس مکان کی چھت پر آنا مشکل ہے، لیکن اکثر راتوں میں چھت سے ایسی آوازیں آتی ہیں کہ لگتا ہے اوپر کوئی چہل قدمی کر رہا ہے۔

ساڑھے 4 ہزار روپے میں لیا گیا وہ گھر
ساڑھے 4 ہزار روپے میں لیا گیا وہ گھر

’میں اور زبیر ایک دو دفعہ ہمت کرکے فوراً چھت پر پہنچے تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ ایک دفعہ تو غضب ہی ہوگیا‘، وہ بولا۔

’کیا؟‘ میں نے پوچھا۔

‘میں صبح سویرے چھت پر گیا تو یہ دیکھ کر پریشان ہوگیا کہ وہاں کئی جگہ انسانی فضلہ پڑا ہوا ہے، یوں لگتا تھا جیسے کوئی بچہ ابھی تھوڑی دیر پہلے یہاں فارغ ہوکر گیا ہے۔ میں تو حیران ہی رہ گیا، کیونکہ چھت کے دروازے کا تالا میں نے ابھی خود ہی کھولا تھا اور اتنی اونچی چھت پر کسی کا باہر سے چڑھ کر آنا ممکن ہی نہیں تھا اور پھر اگر کوئی آ بھی گیا تھا تو کیا وہ صرف یہ فضلہ بکھیرنے کے لیے آیا تھا؟’

میں بھی حیران ہوا۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ ہمیں یہاں رہتے ہوئے سال ہوگیا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم کراچی چلے گئے۔ وہاں کچھ دن گزار کر میں تو واپس چلا آیا البتہ بیوی بچے کچھ مزید دنوں کے لیے وہیں رک گئے۔ اب یہاں میں گھر میں اکیلا ہی تھا۔ ایک دن میں رات گئے تک بیٹھا کمپیوٹر پر کچھ کام کر رہا تھا۔ کچھ دیر پہلے بارش موسلا دھار برس کر رکی تھی اور اب ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔

رات کا ایک بج رہا ہوگا۔ اچانک مجھے ایسی آواز آئی جیسے کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا ہو۔ میں چونکا کہ رات کے اس پہر کون ہوگا، اور وہ گھنٹی کیوں نہیں بجا رہا، دروازہ کیوں کھٹکھٹا رہا ہے؟ میں دانستہ نہیں اٹھا اور انتظار کرنے لگا کہ دوبارہ آواز آئے تو اٹھ کر دیکھوں۔ لیکن کافی دیر گزرنے کے باوجود دوبارہ کوئی آواز نہ آئی تو میں نے بھی وہم سمجھ کر نظر انداز کردیا۔ لیکن کچھ دیر اور گزرنے کے بعد دوبارہ اسی طرح ٹھک ٹھک کی آواز آئی جیسے کوئی اپنی انگلی سے دروازے کو بجا رہا ہو۔ میں اٹھا اور بیرونی دروازے کی طرف بڑھا۔ دروازہ کھول کر باہر دیکھا تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کا گھر کا بیرونی آہنی گیٹ بند تھا۔ تو پھر اس بند مین گیٹ سے اندر آکر لکڑی کا دروازہ کوئی کیسے کھٹکھٹا سکتا ہے؟ میں حیران ہوا۔ اطمینان کے لیے میں نے اِدھر اُدھر جھانکا اور پھر دروازہ بند کرکے واپس آگیا۔

ابھی تھوڑی ہی دیر گزری ہوگی کہ دروازہ پھر دو تین مرتبہ کھٹکھٹایا گیا۔ میں تیزی سے باہر لپکا اور فوراً دروازہ کھولا، لیکن باہر تو اسی طرح سناٹا اور ہُو کا عالم تھا۔ میں نے دروازہ بند کیا اور واپس آکر کمپیوٹر پر بیٹھ گیا۔ اب مجھے کچھ گھبراہٹ سی بھی ہونے لگی۔ کچھ دیر اسی طرح خاموشی سے گزر گئی اور میں بھی اپنے کام میں مگن ہوگیا۔ اچانک پھر وہی آواز گونجی، کھٹ کھٹ کھٹ کھٹ۔ دروازے کو پھر کوئی انگلی سے بجا رہا تھا۔ اب تو میں واقعی ڈر گیا۔ سب سے پہلے تو میں نے کمرے کی لائٹ بند کی اور پھر آہستگی سے ڈرائنگ روم میں جاکر اس کی کھڑکی سے باہر کی طرف جھانکا۔ باہر تو کوئی بھی نہیں تھا۔

میں نے واپس آکر کمپیوٹر بند کیا۔ کمرے کی کھڑکی کو پردے سے اچھی طرح ڈھانپا اور بستر پر لیٹ گیا۔ کچھ دیر تو نیند نہ آئی لیکن بالآخر آنکھیں بوجھل ہوئیں اور میں نیند کی آغوش میں جانے لگا۔ اسی وقت پھر آواز آئی، کھٹ کھٹ کھٹ کھٹ۔ میں نے چادر اچھی طرح جسم پر لپیٹ لی اور بے حس و حرکت ہوکر سونے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن نیند آنکھوں سے کوسوں دُور جاچکی تھی۔ رات بھر اونگھنے جاگنے کی کیفیت میں رہا۔ آدھی رات تک دروازہ بجنے کی وہ آواز وقفے وقفے سے سنائی دیتی رہی اور نہ جانے کس پہر بند ہوئی، یا میری آنکھ ہی لگ گئی۔ اگلے دن میں نے جاوید سے اس بات کا ذکر کیا تو وہ کچھ نہیں بولا، بس چند لمحوں کے لیے اس کے ہونٹوں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ آئی اور معدوم ہوگئی۔

کچھ دنوں بعد بقیہ فیملی بھی کراچی سے اسلام آباد واپس آگئی اور حالات معمول پر آگئے۔ ایک دن میں اسی طرح میں رات کو بیٹھا کمپیوٹر پر کام کر رہا تھا۔ امّی اور بیٹا اپنے کمرے میں سو رہے تھے اور میری بیوی اور بیٹی یہیں اسی کمرے میں محو خواب تھے جہاں میں کمپیوٹر پر کام کر رہا تھا۔ ایک بجے کے وقت میں نے کمپیوٹر آف کیا اور بستر پر لیٹ کر سونے کی تیاری کرنے لگا۔ میں بستر پر جس طرف لیٹا تھا وہ جگہ کمرے کی اس بیرونی کھڑی سے متصل تھی جس کے باہر خالی پلاٹ والا باغ تھا اور جہاں باغ کے آخر میں وہ برساتی نالا گزرتا تھا جہاں جگنوؤں کی آماج گاہ تھی۔ میرے پیروں کے بالکل سامنے کمرے سے متصل غسل خانے کا دروازہ تھا۔ غسل خانے کا دروازہ ظاہر ہے بند تھا۔

لیٹے لیٹے ابھی کچھ ہی دیر گزری ہوگی کہ اچانک مجھے نظر آیا کہ غسل خانے کا دروازہ بند نہیں ہے کھلا ہے اور اندر روشنی بھی ہو رہی ہے۔ میں حیران ہوا کہ یہ دروازہ کس نے کھولا، کیونکہ میری اہلیہ اور بیٹی تو بدستور گہری نیند میں تھے۔ میں نے دوبارہ غسل خانے کی طرف دیکھا تو مجھے ایک عجیب منظر نظر آیا۔

میں نے دیکھا کہ غسل خانے کے دروازے میں سیڑھیاں ہیں جو اوپر والی منزل کی طرف اٹھ رہی ہیں اور سیڑھیوں کے آخر میں جو بھی جگہ یا کمرہ ہے اس میں سے ایسی آوازیں آ رہی ہیں جیسے وہاں بہت سارے لوگ جمع ہوکر آپس میں باتیں کر رہے ہوں۔ آوازوں سے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اوپر کوئی تقریب جاری ہے۔ خوش گپیوں والی سرگوشیاں، قدموں سرسراہٹ، برتنوں کے کھنکنے اور چائے کی پیالیوں کے آپس میں ٹکرانے کی آوازیں، باہمی گفتگو کی بھنبھناہٹ۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ غسل خانے کے اندر سے یہ سیڑھیاں اور اوپر جاری ایک تقریب! یا اللہ یہ کیا ماجرا ہے۔

میں نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔ وہ تو اس ساری صورتحال سے بے خبر سو رہی تھا۔ میں نے دوبارہ غسل خانے کی طرف دیکھا۔ سیڑھیاں بدستور موجود تھیں اور ان پر اوپر سے آنے والے روشنی میں کبھی کبھی انسانی سائے لہرا جاتے تھے۔ اچانک مجھے محسوس ہوا جیسے کوئی سیڑھی سے اتر کر نیچے آ رہا ہو۔ میں چونکا، لیکن اسی طرح بے حس و حرکت پڑا پھٹی پھٹی آنکھوں سے سیڑھیوں کی طرف دیکھنے لگا۔

دیکھتا کیا ہوں کہ ایک بلند قامت عورت سفید رنگ کی بڑی، مگر میلی سی چادر اوڑھے خراماں خراماں سیڑھیوں سے نیچے اتر رہی ہے۔ جیسے ہی وہ پوری کی پوری نیچے اتر کر میرے سامنے آئی تو میں نے دیکھا کہ اس نے گود میں ایک بچے کو بھی اٹھا رکھا ہے۔ وہ آہستگی سے باہر آئی اور میرے پیروں کے پاس آکر پوری قامت سے کھڑی ہوکر میری طرف دیکھنے لگی۔ میں تو بالکل سکتے میں آگیا۔ وہ عورت چند لمحے تو میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتی رہی، پھر ایک عجیب پُراسرار آواز میں بولی:

‘اللہ کے نام پر کچھ دو گے نہیں؟’

میں بُری طرح چونکا۔ یہ کون فقیرنی ہے جو یوں آدھی رات کو اس عجیب انداز میں یہاں آگئی ہے؟ میرے منہ سے غیر اضطراری طور پر بس یہ جملہ نکلا

‘معاف کرو، کھلے پیسے نہیں۔’

اسی وقت اچانک میری بیوی نے آنکھیں کھولیں اور تکیے کی نیچے ہاتھ ڈال کر کچھ نوٹ نکالے اور میرے ہاتھ میں دے کر بولی

‘یہ لیں کھلے پیسے، اسے دے دیں۔’

میں نے پیسے لے کر ہاتھ آگے بڑھایا تو اس عورت نے جھک کر اپنا ہاتھا آگے کیا اور پیسے میرے ہاتھ سے لے کر بولی

‘اللہ خوش رکھے، اللہ اور دے، اللہ اور دے۔’

اور پھر وہ بچے کو گود میں سمیٹ کر کھڑکی کی طرف مڑی اور فضا میں تحلیل سی ہوتی ہوئی باغ میں جانے والی بند کھڑکی میں سے چھلاوے کی طرح گزر کر باہر نکل گئی۔ میں اچھل کر اٹھا اور کھڑکی سے باہر کی طرف جھانکا۔ وہاں تو اندھیرا تھا اور پودوں اور درختوں کے ہیولے ساکت کھڑے تھے۔

میں نے پیچھے مڑ کر اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔ وہ تو اسی طرح گہری نیند میں تھی۔ میں نے غسل خانے کی طرف دیکھا۔ اس کا دروازہ بھی اسی طرح بند تھا جیسے ہوتا ہے۔ میں نے آگے بڑھ کر غسل خانے کا دروازہ کھولا اور لائٹ جلائی۔ اندر وہی غسل خانہ تھا کہ جو ہوتا ہے۔ کونسی سیڑھیاں؟ کیسی آوازیں؟ کہاں کی تقریب، وہاں تو وہ کچھ بھی نہیں تھا جو میں نے ابھی کچھ دیر قبل اپنی جاگتی آنکھوں سے دیکھا اور کھلے کانوں سے سنا تھا۔

یا اللہ یہ کیا ماجرا تھا؟ میں کچھ خوفزدہ سا ہوکر دوبارہ بستر پر لیٹ گیا۔ بڑی دیر میں آنکھ لگی۔ صبح اٹھا تو اہلیہ سے اس سارے واقعے کا ذکر کیا اور پوچھا

‘کیا تم نے رات کو تکیے کے نیچے سے پیسے نکال کر مجھے دیے تھے؟’

وہ تو حیران رہ گئی۔ اسے تو ایسا کچھ بھی یاد نہیں تھا۔ میں نے بعد میں جاوید سے ذکر کیا تو اس کے چہرے پر وہی عجیب سی مسکراہٹ آگئی۔ ہم تقریباً 3 سال مزید اس گھر میں رہے، لیکن پھر کبھی کوئی ایسا پُراسرار واقعہ پیش نہیں آیا۔


عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 7 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہے۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں.