پائلٹ کے طرز عمل سے متعلق خط پر سی اے اے سے وضاحت طلب

اپ ڈیٹ 05 جون 2020
وزیر ہوا بازی صوبائی دارالحکومت لاہور میں 22 مئی کو طیارہ حادثے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین سے تعزیت کے لیے آئے تھے—فائل فوٹو: اے ایف پی
وزیر ہوا بازی صوبائی دارالحکومت لاہور میں 22 مئی کو طیارہ حادثے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین سے تعزیت کے لیے آئے تھے—فائل فوٹو: اے ایف پی

لاہور: حکومت نے سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) سے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کو لکھے گئے خط پر جواب طلب کرلیا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ کراچی ایئر پورٹ کے قریب رہائشی علاقے میں گر کر تباہ ہونے والے طیارے کے پائلٹ نے ایئر ٹریفک کنٹرولرز کی ہدایات پر عمل نہیں کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے مذکورہ خط پر سی اے اے سے وضاحت طلب کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی معلومات انکوائری بورڈ کو فراہم کی جانی تھی۔

اس حوالے سے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے بتایا کہ ’ہم نے سی اے اے حکام سے (پی آئی اے کو لکھے گئے خط میں پائلٹ پر کنٹرول ٹاور کی ہدایت نہ ماننے کا الزام لگانے پر) وضاحت طلب کی ہے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب تک انکوائری رپورٹ مکمل نہیں ہوجاتی مذکورہ عہدیدار کو (سرِ عام) کچھ نہیں کہنا چاہیے تھا اور انہیں جو کچھ کہنا تھا وہ انکوائری بورڈ کے سامنے کہتے‘۔

یہ بھی پڑھیں: طیارہ حادثہ: پائلٹ نے ائیر ٹریفک کنٹرولر کی ہدایات پر عمل نہیں کیا، سی اے اے

وزیر ہوا بازی صوبائی دارالحکومت لاہور میں 22 مئی کو طیارہ حادثے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین سے تعزیت کے لیے آئے تھے۔

غلام سرور خان کا مزید کہنا تھا کہ شاید سی اے اے کا یہ خیال ہو کہ ’جو کچھ خط میں لکھا گیا وہ درست ہو لیکن اس سلسلے میں وضاحت طلب کرلی گئی ہے‘۔

سی اے اے عہدیدار افتخار احمد کے پی آئی اے کے سیفٹی اینڈ کوالٹی انشورنس ڈپارٹمنٹ کو لکھے گئے خط میں ’ایئر ٹریفک کنٹرولر کی ہدایات پر عمل درآمد نہ ہونے کی نشاندہی کے ساتھ کہا گیا کہ ’پرواز کے تحفظ کے خاطر اس قسم کا واقعہ دوبارہ نہ ہونے کو یقینی بنایا جائے‘۔

وزیر ہوا بازی نے بتایا کہ طیارہ حادثے پر قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی بات کی جائے گی اور ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے تحقیقات منصفانہ اور شفاف ہوں۔

مزید پڑھیں: طیارہ حادثہ تحقیقات: فرانسیسی ٹیم نے اپنا کام مکمل کرلیا

انہوں نے اعلان کیا کہ کراچی میں ہونے والے طیارہ حادثے کی انکوائری رپورٹ کے بعد چترال حادثہ اور گلگت حادثہ لینڈنگ اور اس کے بعد اسلام آباد میں ایئر بلو اور بھوجا ایئرلائنز کے طیاروں کو پیش آنے والے حادثوں کی رپورٹس بھی جاری کردی جائیں گی۔

پی آئی اے کی مالی حالت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پی آئی اے 2023 تک اپنے فلیٹ کو 31 سے بڑھا کر 45 طیاروں تک توسیع دینا چاہتا تھا لیکن کورونا وائرس کے باعث ہوابازی کی صنعت کو بہت نقصان پہنچا اور قومی ایئرلائن 4 کھرب 82 ارب روپے کے قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہے۔

پریس کانفرنس کے موقع پر وفاقی وزیر کے ہمراہ عہدیداروں سے صحافیوں سے درخواست کی تھی ان سے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے ان کے خلاف اثاثہ جات کی انکوائری کے بارے میں کوئی بات نہ کی جائے تاہم اس کے باوجود ان سے اس سلسلے میں سوال کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائی کورٹ کی طیارہ حادثہ انکوائری رپورٹ 25 جون کو جمع کرانے کی ہدایت

جس کا جواب دیتے ہوئے غلام سرور خان نے کہا کہ میں نیب تحقیقات کا خیر مقدم کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ نیب کابینہ کے دیگر اراکین کی بھی تحقیقات کرے لیکن ساتھ ہی میں یہ بھی کہوں گا کہ ادارہ ان کی تفتیش کرے جو 3 مرتبہ وزیر اعلیٰ اور 2 مرتبہ وزیراعظم رہے۔

پی آئی اے طیارہ حادثہ

خیال رہے کہ 22 مئی کو پی آئی اے کی لاہور سے کراچی آنے والی پرواز رن وے سے محض چند سو میٹرز کے فاصلے پر رہائشی آبادی میں حادثے کا شکار ہوگئی تھی جس کے نتیجے میں جہاز کے عملے کے 8 اراکین سمیت 97 افراد جاں بحق ہوگئے تھے جبکہ 2 مسافر معجزانہ طور پر محفوظ رہے تھے۔

اس حادثے کے بعد وفاقی حکومت نے سول ایوی ایشن کے رولز 1994 کے رول 273 کے سب رول ون کے تحت تحقیقات کے لیے 4 رکنی ٹیم تشکیل دی تھی۔

ٹیم کی سربراہی ایئرکرافٹ ایکسیڈنٹ اینڈ انویسٹی گیشن بورڈ کے صدر ایئر کموڈور محمد عثمان غنی کر رہے ہیں جبکہ ٹیم کے دیگر اراکین میں اے اے آئی بی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ٹیکنیکل انویسٹی گیشن ونگ کمانڈر ملک محمد عمران، پاک فضائیہ کامرہ کے سیفٹی بورڈ کے انویسٹی گیٹر گروپ کیپٹن توقیر اور بورڈ کے جوائنٹ ڈائریکٹر اے ٹی سی ناصر مجید شامل ہیں۔

اس کے علاوہ طیارہ ساز کمپنی ایئربس کے ماہرین کی خصوصی ٹیم بھی پاکستان میں موجود ہے جو ایئرکرافٹ ایکسیڈینٹ انویسٹی گیشن بورڈ (اے آئی آئی بی) کے حکام کے ساتھ اس حادثے کی وجوہات معلوم کرنے کے لیے تحقیقات کررہی ہے۔

اس کے علاوہ اے 320 طیارہ بنانے والی کمپنی ایئر بس کی 11 رکنی ٹیم پی کے-8303 حادثے کی تحقیقات میں تفتیش کاروں کی معاونت کے لیے پاکستان آئی تھی۔

حادثے کی تحقیقات کے سلسلے میں ایئربس کی تحقیقاتی ٹیم نے مسلسل 3 روز جائے حادثہ کا دورہ کیا اور وہاں شواہد اکٹھے کیے جبکہ رن وے اور ایئر پورٹ کے احاطے کا بھی جائزہ لیا تھا۔

بعدازاں ٹیم تحقیقاتی بورڈ کے ایک رکن کے ہمراہ طیارے کے بلیک باکس کے 2 اجزا کاکپٹ وائس ریکارڈر اور فلائٹ ٖڈیٹا ریکارڈر لے کر فرانس واپس چلی گئی تھی جہاں اس پر کام جاری ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں