ایف آئی اے کی امریکی بلاگر کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی مخالفت

وفاقی تحقیقاتی ادارے نے  ڈسٹرکٹ اور سیشنز کورٹ سے پیپلزپارٹی کی درخواست  مسترد کرنے کی استدعا کی—فائل فوٹو: ٹوئٹر
وفاقی تحقیقاتی ادارے نے ڈسٹرکٹ اور سیشنز کورٹ سے پیپلزپارٹی کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کی—فائل فوٹو: ٹوئٹر

اسلام آباد: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے امریکی بلاگر سنتھیا ڈی رچی کے خلاف مجرمانہ کیس درج کرنے کی درخواست کی مخالفت کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے نے ڈسٹرکٹ اور سیشنز کورٹ سے اس درخواست کو مسترد کرنے کی استدعا کی کیونکہ درخواست گزار جو پاکستان پیپلزپارٹی(پی پی پی) کے مقامی رہنما وہ اس معاملے سے متاثر نہیں ہوئے۔

خیال رپے کہ پیپلزپارٹی اسلام آباد کے صدر ایڈووکیٹ راجا شکیل عباسی نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج عطا ربانی کے دفتر میں کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 22- اے کے تحت سنتھیا ڈی رچی کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست کی تھی۔

مزید پڑھیں: بلاگر سنتھیا رچی کا پیپلز پارٹی کے رہنما رحمٰن ملک پر ریپ کا الزام

درخواست میں کہا گیا تھا کہ سنتھیا رچی نے پاکستان پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن اور سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کو سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر بدنام کرنے کی کوشش کی۔

بعد ازاں عدالت نے سنتھا رچی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں 13 جون کو طلب کیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے عدالت نے پیپلزپارٹی کی درخواست پر ایف آئی اے کو نوٹس جاری کیا تھا۔

ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عدنان احمد خان لوہانی نے پیپلزپارٹی کی درخواست پر جواب جمع کروایا۔

درخواست کے جواب میں کہا گیا کہ ' 2 جون کو جب شکایت کنندہ اسلام آباد میں اپی شکایت کی تصدیق سے متعلق سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر میں پیش ہوئے تو انہیں بتایا گیا تھا کہ قانون کے تحت انہیں (برقی جرائم کی روک تھام کے قانون) پری وینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) 2016 کی دفعات کے تحت اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے شکایت کنندہ بننے کا حق نہیں'۔

ایف آئی اے عہدیدار نے کہا کہ پیکا کے سیکشن 20 میں یہ واضح ہے کہ' جو بھی دانستہ طور پر اور عوامی سطح پر کسی معلوماتی نظام کے ذریعے کوئی معلومات منتقل یا ظاہر کرتا ہے، جس کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے اور کسی شخص کی ساکھ یا رازداری میں مداخلت کرتا یا اس کو نقصان پہنچاتا ہے تو اسے 3 برس تک کی سزا یا 10 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں کیے جاسکتے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: سنتھیا رچی کیخلاف پاکستان پیپلزپارٹی کی درخواست پر ایف آئی اے کو نوٹس جاری

وفاقی تحقیقاتی ادارے نے اپنے جواب میں کہا کہ سیکشن 20 کی ذیلی شق نمبر 2 یہ واضح کرتی ہے کہ ایسے معاملے میں کوئی متاثرہ شخص یا اس کے نا بالغ ہونے کی صورت میں اس کے سرپرست ایسی معلومات کو ہٹانے، ختم کرنے یا اس تک رسائی روکنے کے لیے ایف آئی اے میں درخواست دے سکتے ہیں۔

اس میں کہا گیا کہ قانون کو پڑھنے سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ صرف اصل متاثرہ شخص یا اس کے سرپرست ہی شکایت درج کراسکتے ہیں۔

جس کے بعد ایف آئی اے نے استدعا کی اس حوالے سے دائر درخواست خارج کی جاسکتی ہے۔

بعدازاں عدالت نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو 13 جون کو ہونے والی اگلی سماعت میں جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

سماعت کے بعد سنتھیا رچی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں کہا کہ 'میرا عمل سائبر کرائم کے زمرے میں نہیں آتا، میرے پاس اپنی رائے کے اظہار کا حق ہے'۔

انہوں نے کہا تھا کہ میرے وکیل، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ ناصر عظیم خان،اسلام آباد ڈسٹرکٹ کورٹ میں مقررہ تاریخ کو پیش ہوں گے۔

مزید پڑھیں: رحمٰن ملک کا امریکی خاتون سنتھیا رچی کو 50 ارب ہرجانے کا دوسرا نوٹس

خیال رہے کہ درخواست میں راجا شکیل عباسی نے کہا تھا کہ ایف آئی اے نے ان کی شکایت پر بلاگر سنتھیا رچی کے خلاف درخواست دائر نہیں کی جنہوں نے سابق وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کی شہید بینظیر بھٹو کو بدنام کیا تھا۔

اپنی شکایت میں راجا شکیل عباسی نے ایف آئی اے کے سائبر کرائم سیل پر سنتھیا رچی کی جانب سے بینظیر بھٹو سے متعلق ٹوئٹر پر توہین آمیز اور بہتان پر مبنی بیانات پوسٹ کرنے پر ان کے خلاف کارروائی پر زور دیا تھا۔

شکایت کنندہ نے کہا تھا کہ سنتھیا رچی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے انتہائی توہین آمیز بیانات جاری کیے تھے۔

اس میں مزید کہا گیا تھا کہ ان کے جھوٹے اور توہین آمیز بیانات کی وجہ سے شہید بینظیر بھٹو کا احترام کرنے والے لاکھوں پاکستانیوں کے جذبات مجروح ہوئے۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ 'آپ کے دفتر سے اس خاتون کے خلاف قانون اور آپ کے مینڈیٹ کے مطابق فوری ایکشن لینے اور کارروائی شروع کرنے کی درخواست کی جاتی ہے‘۔

سنتھیا رچی تنازع

خیال رہے کہ سنیتھا رچی کے ان ٹوئٹس کے بعد 5 جون کو انہوں نے اپنے فیس بک پیج پر جاری ایک لائیو ویڈیو میں دعویٰ کیا تھا کہ '2011 میں سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے میرا ریپ کیا تھا، یہ بات درست ہے، میں دوبارہ کہوں گی کہ اس وقت کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے میرا ریپ کیا تھا'۔

سنتھیا رچی نے سابق وقافی وزیر مخدوم شہاب الدین اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر جسمانی طور ہراساں کرنے کا بھی الزام عائد کیا تھا اور کہا تھا کہ اس دوران یوسف رضا گیلانی ایوان صدر میں مقیم تھے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ مجھے مارنے اور میرا ریپ کرنے کی لاتعداد دھمکیاں موصول ہوئی ہیں، ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ جو کچھ بھی کہہ رہی ہیں اس کی حمایت میں شواہد موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بلاگر سنتھیا رچی کے ٹوئٹ پر پیپلز پارٹی کا ایف آئی اے سے رجوع

دوسری جانب رحمٰن ملک، یوسف رضا گیلانی، ان کے بیٹے اور مخدوم شہاب الدین نے الزامات کو سختی سے مسترد کردیا تھا۔

بعد ازاں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے امریکی نژاد پاکستانی بلاگر سنتھیا رچی کے خلاف پاکستان اور امریکا میں ہتک عزت کا دعوی دائر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ سنتھیا رچی نے بے بنیاد الزامات لگا کر میری ساکھ مجروح کی۔

دوسری جانب سینیٹر رحمٰن ملک کے وکلا نے بذریعہ ٹی سی ایس امریکی خاتون سنتھیا رچی کو الزامات عائد کرنے پر 50 کروڑ روپے ہرجانے کا نوٹس بھجوایا تھا۔

سابق وزیرداخلہ رحمٰن ملک کے ترجمان ریاض علی طوری کی جانب سے جاری بیان کے مطابق سینیٹر رحمٰن ملک نے اپنے قانونی نوٹس میں سنتھیا رچی کے الزامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر سختی سے تردید کی۔

بعدازاں 9 جون کو سینیٹر رحمٰن ملک نے امریکی خاتون سنتھیا رچی کو 50 ارب روپے ہرجانے کا دوسرا نوٹس بھجوایا تھا۔

رحمٰن ملک کے وکلا نے سنتھیا رچی کو نوٹس بذریعہ کوریئر بھجوایا تھا، جس میں رحمٰن ملک نے سنتھیا رچی کے لگائے گئے الزامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر سختی سے مسترد کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں