لیاری: عمارت گرنے سے 22 اموات ہوگئیں، مزید افراد کے دبے ہونے کا خدشہ

اپ ڈیٹ 10 جون 2020
کمشنر کراچی  کے دفتر میں ہونے والے اجلاس میں غیر قانونی تعمیرات کے خلاف شہر بھر میں مقدمات درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ فائل فوٹو:ڈان نیوز
کمشنر کراچی کے دفتر میں ہونے والے اجلاس میں غیر قانونی تعمیرات کے خلاف شہر بھر میں مقدمات درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ فائل فوٹو:ڈان نیوز

کراچی: لیاری میں گرنے والی عمارت کے ملبے سے مزید لاشیں نکالنے کے بعد ہلاکتوں کی تعداد 22 ہوگئی جبکہ ریسکیو حکام کے مطابق مزید لوگوں کے ملبے تلے دبے ہونے کا اندیشہ ہے۔

گرنے والی عمارت کا ملبہ ہٹانے اور امدادی کارروائی جس کے حوالے سے حکام نے دعوی کیا تھا کہ یہ کام 24 گھنٹوں میں مکمل ہوجائے گا اب بھی جاری ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز ڈی آئی جی جنوب شرجیل کھرل نے بتایا تھا کہ ’مجموعی طور پر 19 افراد کی لاشیں نکال لی گئیں ہیں اور ان سب کو سول اسپتال کراچی منتقل کیا گیا تھا جہاں ان کے اہل خانہ نے ان کی شناخت کی ہے‘۔

تاہم آج کی تازہ اطلاعات کے مطابق مزید 3 افراد کی لاشیں ملبے سے نکال لی گئی ہیں۔

مزید پڑھیں: کراچی میں 5 منزلہ عمارت منہدم، 2 افراد جاں بحق

ملبے کو ہٹانے اور پھر اسی محلے کے دیگر کمزور ڈھانچے کو منہدم کرنے کے لئے آپریشن کی تکمیل کے متوقع وقت کے بارے میں حکام کی طرف سے دوبارہ کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

علاقہ کے لوگوں اور قانون سازوں، جن میں زیادہ تر کا تعلق سندھ کی اپوزیشن جماعتوں سے ہے، نے دعوٰی کیا تھا کہ اس عمارت کے گرنے کے وقت 27 افراد عمارت کے اندر موجود تھے اور وہ اس واقعے کے بعد لاپتہ ہیں۔

علاقہ مکین کا کہنا تھا کہ ’لوکل انتظامیہ اور دیگر تمام متعلقہ حکام اس سے بخوبی واقف ہیں، ناقص انتظامات اور تنگ گلیوں کی وجہ سے کام مشکل ہوگیا ہے‘۔

سندھ پولیس سرجن کے دفتر نے اب تک 17 لاشوں کی شناخت کی جس میں 50 سالہ فہمیدہ ، 32 سالہ فہیم، 35 سالہ سلمیٰ، 45 سالہ جمیلہ، 35 سالہ سراج، 30 سالہ نور محمد عرف بابو، 50 سالہ شاہد، 30 سالہ مریم، 11 سالہ شہناز، 45 سالہ میمونہ، 25 سالہ شہزاد، 20 سالہ سعید، 26 سالہ توفیق، 55 سالہ بہار، 25 سالہ کلیم احمد، 60 سالہ سلیم عرف ثانی اور 30 سالہ شوکت شامل ہیں۔

دریں اثنا کمشنر کراچی کے دفتر میں ہونے والے اجلاس میں غیر قانونی تعمیرات کے خلاف شہر بھر میں مقدمات درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

وزیر اطلاعات و بلدیات سید ناصر حسین شاہ نے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کسی کو بھی شہریوں کی زندگیوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دے گی اور کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

انہوں نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے سربراہ نسیم الثانی سے مطالبہ کیا کہ وہ شہر میں غیر قانونی عمارتوں کی نشاندہی کریں اور متعلقہ بلڈرز کے خلاف ایف آئی آر درج کریں۔

بیان میں کہا گیا کہ ’کمشنر کراچی نے وزیر کو بتایا کہ ایس بی سی اے نے خطرناک عمارتوں کے رہائشیوں کو فوری انخلا کے لیے نوٹس جاری کیا ہے اور ڈائریکٹر جنرل ایس بی سی اے نے وزیر کو بتایا کہ زیادہ تر خطرناک عمارتیں اولڈ سٹی ایریا میں ہیں اور ان میں سے کچھ کو قومی ورثہ قرار دیا گیا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: گلبہار میں عمارت گرنے سے ہلاکتوں کی تعداد 27 ہوگئی

وزیر نے تمام اضلاع کی نگرانی ٹیموں کو اپنے علاقے میں خطرناک اور غیر قانونی عمارتوں کی نشاندہی کرنے کا حکم دیا۔

کمیٹی میں ضلعی میونسپل کارپوریشنز، ایس بی سی اے، کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور پولیس کے افسران شامل ہوں گے۔

واضح رہے کہ 3 روز قبل کراچی کے علاقے لیاری میں 5 منزلہ رہائشی عمارت منہدم ہونے کے نتیجے میں دو افراد جاں بحق اور متعدد افراد زخمی ہوگئے۔

عمارت لیاری کے علاقے نیا آباد کی لیاقت کالونی میں کھوکھر کچن والی گلی میں منہدم ہوئی۔

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے ترجمان علی مہدی کاظمی کے مطابق لیاری میں منہدم ہونے والی عمارت خطرناک قرار دی گئیں عمارتوں میں شامل تھی لیکن اس کے باوجود عمارت کو مسمار نہیں کیا گیا۔

ایس بی سی اے حکام نے عمارت خالی کرنے کے لیے 6 ماہ قبل ہی نوٹسز بھی جاری کیے تھے اور 2 ماہ قبل بجلی اور گیس کنکشن منقطع کرنے کی بھی سفارش کی گئی تھی لیکن انتظامیہ کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

یاد رہے کہ رواں برس مارچ میں کراچی کے علاقے گلبہار میں رہائشی عمارت منہدم ہوگئی تھی جس کے نتیجے میں 27 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

خیال رہے کہ اس واقعے میں چوتھے روز ریسکیو آپریشن مکمل کیا گیا تھا جس میں پاک آرمی کی انجینئرنگ کور کے علاوہ دیگر سول اداروں نے امدای سرگرمیوں میں حصہ لیا تھا اور حادثے کے مقام سے ملبہ اٹھانے کا کام مکمل کیا گیا۔

ریسکیو حکام کا کہنا تھا کہ سانحے میں مجموعی طور پر تین عمارتیں متاثر ہوئی تھیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

khan Jun 10, 2020 08:55pm
میں نشاندہی کررہا ہوں کہ کیماڑی کراچی میں سیکرڈ ہارٹ چارچ کے سامنے والی گلی میں ملی بھگت سے صوبائی محکمہ اوقاف کے سرکاری پلاٹ پر بلڈر مافیا نے کئی منزلہ تعمیرات شروع کردی ہے، اس کے متعلق اہل محلہ نے پولیس، ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر سمیت محکمہ اوقاف سے بھی رجوع کیا مگر کوئی کارروائی نہیں کی گئی، دھڑلے سے قبضہ کرکے ناجائز کام جاری ہیں مگر شاید رشوت اور کمیشن کی پٹی کی وجہ سے سب کی آنکھیں بند ہیں۔ کیماڑی پہلے ہی خاصا گنجان آباد ہے اور یہاں پانی، گیس ، بجلی کی لوڈشیڈنگ معمول ہے تاہم لالچی بلڈر مافیا پابندی کے باوجود ہزاروں مکانات پر بغیر کسی منظوری کے اونچی اونچی عمارتیں بناکر اپنی جیبیں بھر کر رفوچکر ہوچکی ہے، کاش اس عمارت کی تعمیر کوئی روک سکے۔ بعد میں حادثے کے بعد رونے پیٹھنے سے کیا فائدہ