پشاور ہائی کورٹ نے سابق فوجی حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف کے کیس کا فیصلہ سنانے والے خصوصی عدالت کے جج کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر قانون سمیت دیگر افراد کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔

پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ایڈووکیٹ عزیز الدین کاکاخیل کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر سماعت کی۔

دو رکنی بینچ نے وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر قانون فروغ نسیم، سابق مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان، وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری اور پیمرا کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔

مزید پڑھیں:وفاقی حکومت کا جسٹس وقار سیٹھ کےخلاف سپریم جوڈیشل کونسل جانے کا اعلان

عدالت عالیہ نے خصوصی عدالت کے جج کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر 14 دن میں جواب طلب کیا ہے۔

سماعت کے بعد درخواست گزار ایڈووکیٹ عزیز الدین کاکاخیل کا کہنا تھا کہ جب جنرل مشرف کا فیصلہ آیا تو وزیر اعظم عمران خان، فروغ نسیم، شہزاد اکبر، سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان، فردوس عاشق اعوان اور فواد چوہدری قصداً پریس کانفرنس کرکے عدالت کی توہین کے مرتکب ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ درخواست آج جسٹس لال جان اور جسٹس سجاد انور کے روبرو مقرر تھی۔

ایڈووکیٹ عزیزالدین نے کہا کہ دو رکنی بینچ نے ان تمام افراد سے آئندہ سماعت میں جواب طلب کرلیا ہے۔

یاد رہے کہ 19 دسمبر کو خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا، جس میں بینچ کے 2 ججوں نے سابق صدر کو غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انہیں سزائے موت سنا دی تھی۔

خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے 17 دسمبر کو پرویز مشرف سنگین غداری کیس کے مختصر فیصلے میں انہیں آرٹیکل 6 کے تحت سزائے موت سنائی تھی۔

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر پر مشتمل بینچ نے اس کیس کا فیصلہ دو، ایک کی اکثریت سے سنایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:پرویز مشرف کی سزائے موت پر عملدرآمد ہونا چاہیے، سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ

بعد ازاں 167 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا تھا جس میں جسٹس نذر اکبر کا 44 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ بھی شامل تھا۔

عدالت کا تفصیلی فیصلہ جسٹس وقار سیٹھ نے تحریر کیا تھا اور جسٹس شاہد کریم نے ان کی معاونت کی تھی۔

تاہم جسٹس شاہد کریم نے سزا سے اتفاق کیا لیکن انہوں نے فیصلے میں شامل پیراگراف 66 سے اختلاف کیا، جس میں مشرف کے سزا سے پہلے وفات پانے کی صورت میں لاش کو 'ڈی چوک پر گھسیٹ کر لانے اور 3 دن تک لٹکانے' کا ذکر کیا گیا تھا۔

وفاقی حکومت نے فیصلہ جاری کرنے والے خصوصی عدالت کے بینچ کے سربراہ جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشنل کونسل سے رجوع کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم اس کو واپس لے لیا گیا۔

سابق وزیر قانون فروغ نسیم نے معاون خصوصی شہزاد اکبر اور فردوش عاشق اعوان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'خصوصی عدالت آرٹیکل 6 کا ٹرائل کر رہی تھی، پہلے مختصر فیصلہ دیا گیا، آج جو تفصیلی جاری کیا گیا اس میں پیراگراف 66 بہت اہم ہے، یہ پیراگراف بینچ کے سربراہ جسٹس وقار سیٹھ نے تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سزائے موت سے قبل اگر پرویز مشرف انتقال کر جاتے ہیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر ڈی چوک لایا جائے اور تین روز تک وہاں لٹکایا جائے۔'

انہوں نے کہا کہ 'میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس قسم کی آبزرویشن دینے کی جج کو کیا اتھارٹی تھی، کہیں پر بھی ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے جس میں کسی جج کو ایسی آبزرویشن دینے کا اختیار ہو، ایسے فیصلے کی کوئی نظیر نہیں ملتی، یہ انتہائی غلط آبزرویشن ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ 1994 میں سپریم کورٹ کا سنایا گیا ایک فیصلہ ہے جسے نسیم حسن شاہ نے تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے حوالے دیتے ہوئے کہا ہے کہ عوامی مقامات پر پھانسی کی سزا آئینی اور اسلام کے خلاف ہے اور کسی بھی جج کو آئین کے تحت اس طرح کا فیصلہ دینے کا اختیار نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں