پلازما تھراپی وائرس کا علاج نہیں، وزارت صحت

اپ ڈیٹ 17 جون 2020
وزارت قومی صحت سروسز نے متنبہ کیا کہ پلازما تھیراپی کے سنگین ضمنی اثرات ہو سکتے ہیں۔ رائٹرز:فائل فوٹو
وزارت قومی صحت سروسز نے متنبہ کیا کہ پلازما تھیراپی کے سنگین ضمنی اثرات ہو سکتے ہیں۔ رائٹرز:فائل فوٹو

جہاں ملک بھر میں کونوالیسنٹ پلازما (سی پی) کی غیر قانونی فروخت اور خریداری جاری ہے وہیں وزارت قومی صحت (این ایچ ایس) نے اعلان کیا ہے کہ پلازما تھیراپی کو کورونا وائرس کا علاج نہیں سمجھا جانا چاہیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت نے متنبہ کیا کہ پلازما تھراپی کے سنگین ضمنی اثرات ہو سکتے ہیں جن میں فیبرل ری ایکشن (درجہ حرارت میں اضافہ اور بعض اوقات سر درد اور کمر کا درد)، الرجک رد عمل، ٹرانسفیوژن سے متعلق سرکولیٹری اوورلوڈ، برونکاسپازم، ٹرانسفیوژن سے متعلق پھیپھڑے زخمی ہونا اور دیگر بیماریوں ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس بی اور سی جیسی بیماریوں کی منتقلی شامل ہے۔

ملک میں گزشتہ روز 5 ہزار 90 کورونا کیسز اور 117 اموات رپورٹ ہوئے جس کے بعد قومی سطح پر مجموعی کیسز کی تعداد ایک لاکھ 51 ہزار 953 اور ہلاکتوں کی تعداد 2 ہزار 900 ہوگئی۔

مزید پڑھیں: کووڈ 19 کے مریضوں کیلئے تجرباتی بلڈ پلازما تھراپی میں مزید پیشرفت

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کوروناوائرس سے صحتیاب ہونے والے چند افراد پلازما کے لیے لاکھوں روپے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

کچھ لیبز نے پلازما کا غیر قانونی کاروبار بھی شروع کردیا ہے کیونکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کورونا وائرس کے شکار فرد کے خون میں اینٹی باڈیز تشکیل پاتی ہیں اور جب وہ اس بیماری سے صحت یاب ہوجاتے ہیں تو وہ اینٹی باڈی دوسرے مریضوں کو بھی صحت یاب ہونے میں مدد کرسکتی ہیں۔

ڈان کے پاس دستیاب گائیڈ لائنز کے مطابق چونکہ سی پی ابھی بھی تجرباتی تھیراپی ہے لہذا یہ محفوظ ماحول میں ریسرچ پروٹوکول کے تحت استعمال کیا جاسکتا ہے۔

اس ریسرچ کو سر انجام دینے والوں کو اپنے پروٹوکول کے لیے منظوری حاصل کرنی چاہیے اور اس کا ادارہ وزارت صحت سے منظور شدہ ہونا چاہیے جس میں نگرانی کے تحت تھیراپی شروع کی جاسکتی ہے۔

صرف منظور شدہ ہسپتالوں کو اپنے کورونا مریضوں کو کلینیکل ٹرائلز میں اندراج کی اجازت ہے جسے متعلقہ ریسرچ ریگولیٹری حکام نے کلیئر کردیا ہے۔

’کلینیکل ٹرائل‘ میں داخل کیے گئے کورونا کے مریض تحقیقی تھیراپی یعنی سی پی کو منظور شدہ صحت کی سہولت میں کسی قابل ڈاکٹر کی نگرانی میں حاصل کرنے کے اہل ہوسکتے ہیں جبکہ ’آزمائشی پروٹوکول‘ پر مبنی مختلف اہلیت اور نااہلی کے معیارات ہوسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پلازما سے کورونا وائرس کے علاج کا معاملہ - اصل کہانی کیا ہے؟

ان گائیڈ لائنز کے ذریعے عوام کو آگاہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں اس وقت سی پی کا استعمال زیر تحقیق ہے تاہم اس وقت معیاری تھیراپی کے طور پر کورونا پلازما کے استعمال کے حق میں یا اس کے خلاف ڈیٹا ناکافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے علاج کی مؤثر ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے حکومت نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کو نئی ٹیکنالوجی اور مداخلتوں کی جانچ کی نگرانی کرنے کا حکم دیا ہے۔

کورونا کے مریضوں میں تحقیقاتی علاج کے طور پر روایتی پلازما کے استعمال کو جانچنے کے لیے کلینیکل ٹرائلز جاری ہیں اور ان ٹرائلز میں حصہ لینے والے ہسپتالوں اور معالجین، اُن کورونا مریضوں کو اندراج کرسکتے ہیں جو مطالعہ میں داخلے کے لیے اہلیت کے معیار کو پورا کرتے ہیں۔

گائیڈ لائنز میں کہا گیا کہ ’جو افراد کورونا سے مکمل طور پر صحت یاب ہوچکے ہیں یا کم از کم دو ہفتوں سے غیر علامتی مریض ہیں اور پلازما عطیہ کرنے پر راضی ہیں وہ منظور شدہ پروٹوکول کے تحت مریضوں کو سی پی کی پیش کش کرنے والے قریبی پلازما عطیہ مراکز اور ہسپتالوں کی رہنمائی کے لیے ہیلپ لائن 1166 پر رابطہ کرسکتے ہیں‘۔

گائیڈ لائنز میں کہا گیا کہ ’عوام کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ علاج کرنے والے ڈاکٹر یا ہسپتال سے ٹرائل کے بارے میں معلومات کے لیے رابطہ کریں اور مختلف بلڈ بینکز/ہسپتالوں سے پلازما کی خریداری میں رقم ادا کر کے زیادتی نہ کریں، عوام اور معالجین کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ موجودہ وبائی مرض میں کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے پلازما کے مناسب طریقے سے استعمال کے بارے میں کلینیکل رہنمائی کے بارے میں اپنے آپ کو آگاہ رکھیں جو وزارت صحت کی جانب سے وقتاً فوقتاً جاری کی جائے گی‘۔

وزارت قومی صحت سروسز کی جانب سے جاری ایک سرکاری بیان کے مطابق پلازما تھیراپی کو کورونا وائرس کا علاج نہیں سمجھا جانا چاہیے کیونکہ یہ امریکا کے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی منظوری کے بعد عالمی سطح پر ابھی ٹرائلز کے مرحلے میں ہے۔

مزید پڑھیں: سندھ نے 3 ہسپتالوں کو کورونا مریضوں پر پلازما تھراپی کے ٹرائل کی اجازت دے دی

ان کا کہنا تھا کہ ’اب تک ایسی کوئی دوا ایجاد نہیں کی جاسکی ہے جسے اس بیماری کا علاج سمجھا جائے یہاں تک کہ پلازما تھیراپی بھی کلینیکل ٹرائل کے مرحلے میں ہے، لوگوں کو ان کے بہترین مفاد میں یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ نجی لیب سے سی پی خریدنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ قواعد کے مطابق پلازما کو صرف عطیہ کیا جاسکتا ہے‘۔

بیان میں کہا گیا کہ ’اب تک یہ ثابت ہوچکا ہے کہ پلازما تھراپی ان مریضوں پر کام نہیں کرتی ہے جو سات دن یا اس سے زیادہ وینٹیلیٹر پر رہتے ہیں، پلازما تھراپی کے ضمنی اثرات ہوسکتے ہیں لہذا یہ کسی قابل ڈاکٹر کی غیر موجودگی میں نہیں ہونا چاہیے، پلازما بیچنے والے نجی ہسپتالوں اور لیبوں کی بات نہ مانی جائے‘۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کلینیکل اسٹڈی کمیٹی آف ڈریپ نے 9 اپریل کو ملک میں پیسو امیونائزیشن کے لیے سی پی کے کلینیکل ٹرائلز کی اجازت دی تھی۔

وزارت صحت کے ترجمان ساجد شاہ نے چند رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ پلازما کی فروخت اور خریداری کا غیر قانونی کاروبار پورے ملک میں جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بدقسمتی ہے کہ کچھ عناصر وبائی امراض اور بحرانوں سے مالی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، عطیہ دہندگان کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایک انسان کی زندگی بچانا اتنا ہی بہتر ہے جتنا پوری انسانیت کو بچانا‘۔

تبصرے (0) بند ہیں