وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ 'سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے سے مطمئن ہیں اور یہ بڑا احسن فیصلہ ہے'۔

اسلام آباد میں وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ 'ہم شروع دن سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ججز کے معاملات صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو دیکھنے چاہیے جو ایک آئینی ادارہ ہے'۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا

شہزاد اکبر نے کہا کہ ہمیں اس معاملے میں صرف یہ وضاحت دینی تھی کہ عدالتی فیصلے میں حکومت پر کوئی الزام نہیں ہے'۔

علاوہ ازیں شہزاد اکبر نے کہا کہ 'جس دن ریفرنس بنا کر پیش کردیا اس کے بعد سے حکومتی کام ختم ہوجاتا ہے، اس کے بعد یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کانسل اور متعلقہ ججز کے درمیان ہوتا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 13 ماہ کے دوران مذکورہ معاملے پر کوئی رائے قائم نہیں کی گئی جبکہ متعدد سوالات اٹھائے گئے، ان سوالات کے جواب تھے لیکن ریفرنس پر سماعت جاری تھی اور ریفرنس انتہائی حساس تھا۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو کسی کی ہار اور کسی کی جیت کا رنگ دیا گیا، یہ ہرگز کسی کی جیت ہے اور نہ ہی ہار ہے، یہ وہ عمل ہے جو جمہوری معاشرے میں مکمل ہوتا ہے، کسی اور رنگ میں پیش کرنا قابل افسوس ہے۔

مزید پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے اہم بیان پر عدالت مطمئن، 'فیصلہ متعلقہ اتھارٹی کرے گی'

معاون خصوصی نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے بعد رپورٹنگ میں بدنیتی کا لفظ استعمال کیا گیا، بعض وکلا دوستوں نے متنازع بات کی لیکن 13 صحفات پر مشتمل مختصر تحریری فیصلے میں کہیں بھی 'بدنیتی' کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ 'تفیصلی فیصلہ ہمارے لیے باعث رہنمائی ہوگا، ملک کے بڑے وکلا سماعت میں شریک تھے، سب نے عدالت سے تعاون کیا اور آخر میں عدالت نے بھی وکلا سے اظہار تشکر کیا'۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی درخواست کو منظور کرلیا۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کی، فل کورٹ کے دیگر اراکین میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم خان، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس قاضی امین احمد شامل تھے۔

مزیدپڑھیں: ریفرنس کیخلاف سماعت میں جسٹس عیسیٰ پیش، 'ایگزیکٹو کو شتربےمہار کی طرح نہیں چھوڑ سکتے'

یہ معاملہ گزشتہ سال مئی سے رواں سال جون تک تقریباً 13 ماہ تک چلا، جہاں سپریم کورٹ میں اس کیس کی 40 سے زیادہ سماعتیں ہوئیں، اس دوران ایک اٹارنی جنرل نے ججز سے متعلق بیان پر نہ صرف استعفیٰ دیا بلکہ فروغ نسیم بھی کیس میں حکومت کی نمائندگی کرنے کے لیے وزیرقانون کے عہدے سے مستعفی ہوئے، یہی نہیں بلکہ یہ کیس تاریخی لحاظ سے اس لیے بھی اہم رہا کیونکہ اس میں تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج جسٹس عیسیٰ عدالت میں خود پیش ہوئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں