'جسٹس عیسیٰ کےخلاف ریفرنس کا فیصلہ عدلیہ کی فتح، حکومت کی شکست ہے'

19 جون 2020
تفصیلی فیصلہ شاید ان ذہینوں کے لیے زیادہ نقصان دہ ہوگا جنہوں نے سوچا تھا کہ یہ اچھا خیال ہے، صحافی ضرار کھوڑو — فائل فوٹو / سپریم کورٹ ویب سائٹ
تفصیلی فیصلہ شاید ان ذہینوں کے لیے زیادہ نقصان دہ ہوگا جنہوں نے سوچا تھا کہ یہ اچھا خیال ہے، صحافی ضرار کھوڑو — فائل فوٹو / سپریم کورٹ ویب سائٹ

سینئر صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو عدلیہ کی فتح اور حکومت کی شکست قرار دیا ہے۔

سینیئر صحافی اور ڈان نیوز کے اینکر پرسن فہد حسین نے عدالتی فیصلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ ہر حوالے سے تاریخی فیصلہ ہے اور موجودہ حکومت کی بہت بڑی شکست ہے، کیونکہ ریفرنس کے حوالے سے حکومتی وکیل نے جو دلائل اور منطق پیش کی تھی اسے عدالت نے مسترد کیا ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'فیصلے سے ثابت ہوگیا کہ جس طریقے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بنایا گیا، جو شواہد پیش کیے گئے اور جو الزامات لگائے گئے وہ تمام غلط تھے اور ان کی کوئی قانونی وقعت نہیں تھی۔'

نجی چینل 'جیو نیوز' پر سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے ریفرنس کالعدم قرار دینے سے متعلق کہا کہ بدنیتی اور غلط فہمی 2 الگ چیزیں ہیں، ٹھوس شواہد موجود ہوں تو بدنیتی ہوتی ہے اور غلط فہمی بالکل ہوسکتی ہے کیونکہ یہاں ظاہری طور پر جائیدادیں ظاہر نہیں کی گئی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں کو قانون کا ادراک اس طرح سے تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ وہ اثاثے ظاہر نہ کریں تو یہ مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتا ہے لیکن جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے بیان دیا کہ ان جائیدادوں سے جج صاحب کا کوئی تعلق نہیں تو سپریم کورٹ نے یہ بہتر سمجھا کہ ریفرنس کی بنیاد جس چیز کو بنایا گیا ہے وہ خود بخود ختم ہوگئی چنانچہ ریفرنس کو کالعدم قرار دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا

سینئر صحافی حامد میر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے مختلف ٹوئٹس میں کہا کہ آخر کار سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کو مسترد کردیا جو آزاد عدلیہ کی فتح اور ان کی شکست ہے جنہوں نے صرف اس لیے ایک جج کی تذلیل کی کوشش کی کیونکہ انہوں نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ لکھا تھا۔

صحافی ضرار کھوڑو نے ٹوئٹ میں کہا کہ 'فیصلے میں جشن منانے والی کوئی بات نہیں ہے، تفصیلی فیصلہ شاید ان ذہینوں کے لیے زیادہ نقصان دہ ہوگا جنہوں نے سوچا تھا کہ یہ اچھا خیال ہے۔'

واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی درخواست کو منظور کرلیا تھا۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کی، فل کورٹ کے دیگر اراکین میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم خان، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس قاضی امین احمد شامل تھے۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کون ہیں؟

یہ معاملہ گزشتہ سال مئی سے رواں سال جون تک تقریباً 13 ماہ تک چلا، جہاں سپریم کورٹ میں اس کیس کی 40 سے زیادہ سماعتیں ہوئیں، اس دوران ایک اٹارنی جنرل نے ججز سے متعلق بیان پر نہ صرف استعفیٰ دیا بلکہ فروغ نسیم بھی کیس میں حکومت کی نمائندگی کرنے کے لیے وزیرقانون کے عہدے سے مستعفی ہوئے، یہی نہیں بلکہ یہ کیس تاریخی لحاظ سے اس لیے بھی اہم رہا کیونکہ اس میں تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج جسٹس عیسیٰ عدالت میں خود پیش ہوئے۔

دوران سماعت جسٹس عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے حکومتی وکیل فروغ نسیم کے دلائل مکمل ہونے پر جواب الجواب دیا جس کے بعد آج کیس کا فیصلہ محفوظ کیا گیا اور 4 بجے کے بعد فیصلہ جاری کردیا۔

سپریم کورٹ کے 10 رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ابتدائی طور پر مختصر فیصلہ سنایا، بعد ازاں مختصر تحریری فیصلہ جاری کیا گیا جس میں تین ججز نے اکثریت فیصلے سے اختلاف میں اضافی نوٹ لکھا۔

تبصرے (0) بند ہیں