سپریم کورٹ کو ججز کی جاسوسی سے متعلق جے آئی ٹی بنانی چاہیے،بلاول بھٹو

اپ ڈیٹ 20 جون 2020
چیئرمین پیپلزپارٹی  کے مطابق وفاقی حکومت کے بجٹ میں عوام کی زندگی بچانے، وبا کا مقابلہ کرنے کی ترجیحات نظر نہیں آئیں-فوٹو: ڈان نیوز
چیئرمین پیپلزپارٹی کے مطابق وفاقی حکومت کے بجٹ میں عوام کی زندگی بچانے، وبا کا مقابلہ کرنے کی ترجیحات نظر نہیں آئیں-فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ججز کی جاسوسی ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس پر سپریم کورٹ کو جے آئی ٹی بنانی چاہیے۔

کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب سے یہ وبا آئی ہے پی ٹی آئی کی حکومت نے ہر متنازع مسئلہ چھیڑا ہے، پولرائزیشن کے ماحول میں کمی نہیں کی بلکہ اس میں اضافہ کیا ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ جنگ یا قومی آفت کی صورتحال میں جو اتحاد اور اتفاق رائے ہونی چاہیے جو خود بخودہوجاتی ہے اس میں بھی حکومت وقت ناکام رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے جو بجٹ پیش کیا، اسے ساری سیاسی جماعتوں نے مسترد کیا۔

مزید پڑھیں: لاک ڈاؤن مسلط کرنے والی ایلیٹ کلاس کون ہے، بلاول بھٹو

چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ ہمیں امید تھی یہ بجٹ وبا سے متعلق ہوگا اور ایسا بجٹ ہوتا تو ساری سیاسی جماعتیں اس سے تعاون کرتیں جیسا کہ جنگ میں تمام سیاسی جماعتیں تعاون کرتی ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ جو بجٹ پیش کیا گیا اس سے لگتا ہے کہ کورونا پاکستان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں، پاکستان کے عوام کو اس سے کوئی خاص خطرہ نہیں اور بجٹ میں اس وبا کا مقابلہ کرنے، عوام کی صحت اور زندگی بچانے پر وسائل خرچ ہونے، ان کی معاشی صورتحال کو تحفظ دینے کی ترجیحات نظر نہیں آئیں۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ٹڈی دل کے حملے گزشتہ 25 برس میں سب سے بڑا حملہ ہیں، جس کے بارے میں پیپلزپارٹی اور حکومت سندھ، وفاقی حکومت سے اپیل کررہی ہے،اس مسئلے کو بھی نظر انداز کیا گیا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ نہ ٹڈی دل کا مقابلہ کرنے کے لیے نہ ہی کسان کو ریلیف پہنچانے کے لیے اقدامات کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ ہر صوبائی حکومت اپنے طور پر ٹڈی دل کا مقابلہ کرے اورہر صوبائی حکومت ایسا کررہی ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ ایک عالمی وبا ہے، ہم امید کررہے تھے کہ بجٹ میں وفاقی حکومت کی جانب سے ایک صحت پیکج، کووڈ پیکج دیا جاتا تاکہ ان کے محکمہ صحت کو سپورٹ ملتی جس سے ان کی ٹیسٹ اور علاج کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا۔

چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری ہیلتھ کیئر کی صلاحیت، ٹیسٹنگ کی صلاحیت میں اس تیزی سے اضافہ نہیں کرپارہے تھے جس تیزی سے یہ وبا پھیل رہی تھی لیکن وفاقی حکومت نے صوبائی حکومتوں سے تعاون نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے پی ایس ڈی پی میں صحت کے لیے صرف نام کا 70 ارب روپے کا بجٹ رکھا اور کہتے ہیں کہ اسے کووڈ کے لیے مختص کیا گیا ہے لیکن اس کا جائزہ لیں تو وہ کورونا کے لیے، صحت کے نظام کے لیے نہیں بلکہ ایم این ایز اور ایم پی ایز کے الیکشنز کے فنڈز ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ وہ 70 ارب روپے جو کورونا کے لیے اور صحت کی سہولیات میں اضافے، ڈاکٹرز اور نرسز کی آسانی، عوام کی صحت و زندگی بچانے یا ریلیف کے لیے استعمال ہونے تھے وہ پیسہ ان کے ایم این ایز کے حلقوں کی سڑک بنانے، گٹر لگانے، ترقیاتی منصوبوں میں لگایا گیا جس کی ہم نے قومی اسمبلی میں بھی مذمت کی اور اب بھی کرتے ہیں۔

چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ ہم متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ وفاقی حکومت کو پانی کے منصوبے پر خرچ کرنا چاہیے، روزگار دلوانے کے لیے انفراسٹرکچر منصوبوں کے لیے پیسہ رکھنا چاہیے لیکن ایسا نہیں کیا گیا، وبا آنے کے بعد ہم نے کہا کہ صحت کے نظام کی سپورٹ کے لیے پیسہ مختص کریں لیکن صحت کے نظام کے بجائے ترقیاتی منصوبے بنانے شروع کردیے ہیں جو غیر ذمہ دارانہ اور سیاسی اپروچ ہے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ صوبے خود وبا کا مقابلہ کریں اور سندھ کو وفاق کی جانب سے ملنے والی رقم میں 229 ارب روپے کی کٹوتی کردی، یہ ناانصافی دوسرے صوبوں کے ساتھ بھی ہوئی ہے، یہ وقت صوبوں سے تعاون کرنے کا وقت تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت مزدور طبقے، متوسط طبقے اور غریبوں کو مدد کی ضرورت ہے لیکن حکومت نے صحت اور معیشت میں کوئی ریلیف نہیں دیا۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس مشکل وقت کے دوران حکومت سندھ کا بجٹ غربت کے خاتمے میں ایک قدم آگے ہے۔

کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارا غربت مٹاؤ پروگرام جاری رہے گا، ہمارا زرعی شعبے کا بجٹ کسانوں اور چھوٹے کاروباروں کو قرضے فراہم کرے گا۔

انہوں نے اس قسم کے منصوبے صوبے میں غربت کے خاتمے کے لیے اہم ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب غیر آئینی اقدامات کیے جاتے ہیں، اس کی تشکیل ہی غیر آئینی ہو تو نوٹی فکیشن بھی غیر آئینی ہوگا اور پی ٹی آئی حکومت ان غیرقانونی چیزوں کی بار بار نشاندہی کے باوجود ہمیں جواب نہیں دیتی تو ہم بھی مجبور ہوجائیں گے اور اس مسئلے کو عدالت میں لے جانا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ جیسے ہی شہباز شریف صحتیاب ہوتے ہیں تو بطور اپوزیشن لیڈر وہ آل پارٹیز کانفرنس بلائیں گے جس میں این ایف سی کا معاملہ زیر غور آنے کے بعد اپوزیشن کا موقف سامنے آئے گا۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں نے اس وقت صوبائی سطح پر ملٹی پارٹی کانفرنسز منعقد کی ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دینے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ اس حوالے سے گزشتہ روز متحدہ اپوزیشن کا جو مشترکہ فیصلہ آیا تھا وہ تفصیلی تھا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی سمجھتی ہے اور ہمارا موقف رہا ہے کہ پاکستان میں کرپشن موجود ہے، معاشرے کے ہر حصے میں موجود ہے لیکن کرپشن کے خاتمے کے لیے جو مہم شروع کی جاتی ہے ان کا ایک الگ مقصد ہوتا ہے ان دونوں چیزوں کو سنبھالنا پڑے گا۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک طرف ہمیں کرپشن کا مقابلہ کرنا ہوگا نہ صرف بیوروکریسی، سیاست اور عدلیہ میں بھی کرپشن کے مسائل ہوں گے انہیں ایک جمہوری اور شفاف طریقے سے حل کرنا ہوگا لیکن ساتھ ساتھ وکٹمائزیشن، کیسز کا استعمال کرکے دوسروں پر دباؤ ڈالنے کا طریقہ جب تک جاری رہے گا تب تک کرپشن کا خاتمہ نہیں کرسکتے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ میں سپریم کورٹ سے اپیل کرتا ہوں کہ اس مسئلے کو اٹھائے، انتقام کے لیے بدنیتی سے، کرپشن کے دوسرے کیسز بناتے ہیں سیاستدان، ججز یا سول سوسائٹی کے لیے بنائے جانتے ہیں انہیں ختم کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر جج پر ریفرنس بن سکتا ہے تو پھر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جو معلومات لائے اس پر جے آئی ٹی بنے اور ججز کی جاسوسی ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس پر سپریم کورٹ کو جے آئی ٹی بنانی چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں