سپریم کورٹ کی اٹارنی جنرل کو ڈاکٹر عبدالقدیر سے ملاقات کر کے معاملہ حل کرنے کی ہدایت

عدالت عظمیٰ میں کیس کی سماعت ہوئی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
عدالت عظمیٰ میں کیس کی سماعت ہوئی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ملاقات کرکے معاملے کا مثبت حل نکالنے کی ہدایت کردی۔

سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی جانب سے آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت کے لیے دائر درخواست کی سماعت کی۔

سماعت میں جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ یہ انفرادی حقوق اور قومی مفاد کا معاملہ ہے، میڈیا بھی اس کیس کی رپورٹنگ ذمہ داری کے ساتھ کرے۔

عدالتی میں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا ہے کہ میری تجویز ہے کہ دونوں فریقین کا موقف چیمبر میں سن لے۔

یہ بھی پڑھیں: مجھے حاضری کی درخواست کے تصفیے پر مجبور کیا گیا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان

جس پر جسٹس یحیٰ آفریدی نے کہا کہ چیمبر میں ان کیمرا کارروائی مناسب نہیں ہوگی، بہتر یہ ہوگا کہ حکومت ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ بیٹھ جائے۔

جسٹس مشیر عالم نے بھی اس تجویز کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کچھ رعایت چاہتے ہوں گے، حکومت ان سے بات کرلے۔

جسٹس یحیٰ آفریدی نے مزید ریمارکس دیے کہ حکومت کی کچھ حدود ہیں ڈاکٹر صاحب ان کو دیکھنا چاہیئے، ڈاکٹر صاحب کو جو سہولیات چاہیئیں وہ حکومت کو بتا دیں۔

جس پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے وکیل توفیق آصف نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ ان کو رشتہ داروں اور عزیز و اقارب سےملنے نہیں دیا جاتا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا حکومت کو ڈاکٹر عبدالقدیر کی وکیل سے ملاقات کروانے کا حکم

جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب ذی الشعور آدمی ہیں، حکومت بات کرے گی تو مسئلہ حل ہوجائے گا جس پر وکیل نے کہا کہ میں اس معاملے میں اپنا مثبت کردار ادا کروں گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان قومی ہیرو ہیں ان کی خدمات کو بھلایا نہیں جاسکتا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کیس

بعدازاں عدالت نے عدالت نے اٹارنی جنرل کو ڈاکٹر عبدالقدیر کی ان کے وکلا سے ملاقات کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 3 ہفتے تک کے لیے ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے لاہور ہائی کورٹ کے 25 ستمبر 2019 کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا جس نے ریاست کی جانب سے سیکیورٹی کے خصوصی اقدامات کے تناظر میں دائرہ اختیار کے فقدان کے باعث ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی اپیل کو مسترد کردیا تھا۔

عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی گئی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی درخواست میں کہا گیا کہ آزادانہ نقل و حرکت سمیت بنیادی حقوق اور معقول پابندیوں کی آڑ میں کسی کی پسند یا ناپسند کو محدود یا سلب نہیں کیا جاسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹر عبدالقدیر کی نقل وحرکت سے متعلق کیس، حکومت کی ان کیمرا سماعت کی استدعا مسترد

اس کے علاوہ سپریم کورٹ میں گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایک صفحے کی درخواست بھی پیش کی جس میں حکومت کو انہیں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دینے کی استدعا کی گئی تھی تا کہ وہ کیس کی سماعت کرنے والے بینچ کے سامنے اپنی بات کہہ سکیں۔

درخواست میں بتایا گیا کہ پٹیشنر کو عدالت کے حکم پر ان کے وکیل سے ملاقات کروانے کے لیے سپریم کورٹ کی عمارت میں لایا گیا لیکن عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وکلا سے خصوصی ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی اور ملاقات کے دوران انٹیلی جنس ایجنسی کے حکام موجود رہے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے عدالت میں اپنی بات کہنے کے لیے ذاتی حیثیت میں سپریم کورٹ میں پیش ہونے کی اجازت بھی مانگی اور کہا کہ آزاد حیثیت ان کا بنیادی حق ہے کیوں کہ ان کی نقل و حرکت کسی قانون کے تحت نہیں بلکہ بے بنیاد الزامات پر محدود کی گئی۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے علمبردار ہیں اور یہ ان امور سے وابستہ لوگوں کی انتھک محنت تھی کہ وہ ملک کو ایٹمی طاقت بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ جب وہ پاکستان آئے تھے انہوں نے جوہری منصوبے پر کام شروع کردیا تھا جبکہ اپنی حیثیت کے مطابق ذاتی سیکیورٹی کا لطف بھی اٹھایا تھا لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ سیکیورٹی ایجنسی کے اہلکار گھر کے دروازے پر کھڑے رہتے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ کسی کی ان تک رسائی نہ ہو۔

درخواست کے مطابق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سیکیورٹی حکام کی پیشگی منظوری کے بغیر ملک میں گھومنے پھرنے، کسی سماجی یا تعلیمی تقریب میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں، یہ صورتحال درخواست گزار کو ورچووَل قید میں رکھنے کے مترادف ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں