’پائلٹس کے مشتبہ لائسنس کا معاملہ صرف پی آئی اے سے منسلک نہیں‘

اپ ڈیٹ 26 جون 2020
وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی میں کہا تھا کہ پی آئی اے کے 150 پائلٹوں کے لائسنس جعلی ہیں—فائل فوٹو: فیس بک
وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی میں کہا تھا کہ پی آئی اے کے 150 پائلٹوں کے لائسنس جعلی ہیں—فائل فوٹو: فیس بک

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) نے کہا ہے کہ کمرشل پائلٹس کے مشتبہ لائسنس کا معاملہ کراچی میں ہونے والے طیارہ حادثے کی تحقیقات کے بعد منظر عام پر آیا اور یہ صرف قومی ایئرلائن سے متعلق نہیں ہے۔

ایک ٹوئٹر پیغام میں قومی ایئرلائن کے حکام نے کہا کہ لائسنس متعلقہ اتھارٹی جاری کرتی ہے اور ’ان کے ریکارڈ کے مطابق وہ درست تھے‘۔

ٹوئٹ میں مزید کہا گیا کہ ’جس عمل اور طریقہ کار کے ذریعے (لائسنس) حاصل کیے گئے اس پر حکومت کی انکوائری اور کارروائی کا آغاز ہوا‘۔

خیال رہے کہ وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی میں کہا تھا کہ پی آئی اے کے 150 پائلٹس کے لائسنس جعلی ہیں جس کے بعد مشتبہ لائسنس کے معاملے نے بین الاقوامی توجہ حاصل کرلی۔

یہ بھی پڑھیں: پائلٹس کے 'مشکوک لائسنسز' سے پی آئی اے، سی اے اے کی ساکھ متاثر

وزیر ہوا بازی نے کہا تھا کہ ملک میں 860 پائلٹس ہیں جس میں سے 262 نے خود اپنا امتحان بھی نہیں دیا۔

خیال رہے کہ ایک روز قبل چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے ڈائریکٹر جنرل کو طلب کرتے ہوئے ملک کی مختلف ایئرلائنز کے کچھ پائلٹس کے جلعی لائسنس کے الزامات کی وضاحت کرنے کی ہدایت کی تھی۔

سی اے اے کے ڈائریکٹر کو ہدایت کی گئی کہ اس حوالے سے 2 ہفتوں میں سپریم کورٹ میں جامع رپورٹ جمع کروائی جائے اور 3 ہفتے بعد کیس کی سماعت میں پی آئی اے، ایئر بلیو، سرین کے چیف ایگزیکٹو افسران کو پیش ہو کر اپنی ایئرلائنز سے منسلک پائلٹس کی پیشہ ورانہ قابلیت کے حوالے سے رپورٹس جمع کروانے کا بھی حکم دیا گیا۔

سی اے اے اور پی آئی اے کی ساکھ کو اس وقت بڑا دھچکا لگا جب انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (آئی اے ٹی اے) نے ’لائسنس دینے اور ایوی ایشن ریگولیٹر کی جانب سے حفاظتی نگرانی میں سنگین خامیوں‘ پر تحفظات کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: پی آئی اے کا 150 'مشکوک لائسنس' والے پائلٹس کو کام سے روکنے کا فیصلہ

ہوا بازی میں درپیش اس بحران کے دوران پی آئی اے انتظامیہ نے 150 پائلٹس کو مبینہ طور پر ’مشتبہ لائسنس‘ رکھنے پر گراؤنڈ کرنے اور فلائٹ روسٹر سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔

ساتھ ہی سول ایوی ایشن اتھارٹی سے مشکوک پائے جانے والے دیگر لائسنسز کی فہرست فوری طور پر فراہم کرنے کا مطالبہ بھی کیا تا کہ تمام پائلٹس کو غیر معینہ مدت کے لیے گراؤنڈ کرنے کے بعد ان کےخلاف انکوائری کی جائے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کو سی اے اے کی جانب سے ’مشتبہ لائسنسز‘ والے پائلٹس کی فہرست باضابطہ طور پر موصول نہیں ہوئی البتہ ایسے پائلٹس کو طیارہ اڑانے کی اجازت نہ دینے اور ان کے خلاف محکمہ جاری کارروائی کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔

ترجمان پی آئی اے نے کہا تھا کہ اس قسم کے پائلٹس کی تعداد اور اس کے پی آئی اے کے فلائٹ آپریشن پر منفی اثرات کے باوجود سب کو غیر معینہ مدت تک کے لیے گراؤنڈ جب تک ان کے خلاف حکومت پاکستان کی انکوائری کے نتائج سامنے نہ آجائیں۔

یہ بھی دیکھیں: 'پی آئی اے کے 4 پائلٹس سمیت 600 ملازمین کی ڈگریاں ٹھیک نہیں تھیں'

دوسری جانب پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ایئرمارشل ارشد ملک نے سی اے اے کے ڈائریکٹر جنرل کو ایک اور خط لکھ کر سیکریٹری پوا بازی سے تمام مشتبہ یا جعلی لائسنسوں والے پائلٹوں کی فہرست فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔

ایئرمارشل ارشد ملک نے کہا کہ مشتبہ یا جعلی لائسنسوں والے پائلٹوں کی فہرست ملنے کے بعد ہی انتظامیہ ان کے خلاف فوری کارروائی کی ہدایت کرسکے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں