علی زیدی نے غیردمہ داری دکھائی، وہ ملزمان کو فائدہ پہنچانا چاہ رہے ہیں، وزیر اعلیٰ سندھ

اپ ڈیٹ 08 جولائ 2020
وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق  جے آئی ٹی ایک ہوتی ہے، کئی نہیں ہوتیں — فوٹو:ڈان نیوز
وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق جے آئی ٹی ایک ہوتی ہے، کئی نہیں ہوتیں — فوٹو:ڈان نیوز

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ علی زیدی نے جتنی غیردمہ داری دکھائی اس سے ایسا لگتا ہے کہ وہ ملزمان کو فائدہ پہنچانا چاہ رہے ہیں۔

راولپنڈی میں قومی احتساب بیورو (نیب) میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ علی زیدی کی بات نہ کریں انہیں لوگ غیر دستخط شدہ کاغذ گیٹ پر چیزیں دے جاتے ہیں اور اگلے دن سے وہ اسے صحیفے مان کر باتیں کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عذیر بلوچ کو رینجرز نے گرفتار کیا تھا اور اس وقت موجود قانون کے تحت رینجرز نے اسے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت 90 دن تک تحویل میں رکھا تھا اس کے بعد مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنی تھی۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت جے آئی ٹی تشکیل دی جاتی ہے اور پولیس کا کوئی افسر اس کی سربراہی کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: غیر دستخط شدہ دستاویزات تشکیل دی گئیں تاکہ پیپلز پارٹی کو بدنام کیا جاسکے، مرتضیٰ وہاب

مراد علی شاہ نے کہا کہ 7 رکنی جے آئی ٹی بنی تھی اور پولیس کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) جے آئی ٹی کی سربراہی کررہے تھے، جس میں سی ٹی ڈی، آئی بی، آئی ایس آئی، ایم آئی اور رینجرز کے نمائندے شامل تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ نے جے آئی ٹی بنائی تھی جے آئی ٹی میں شامل 7 افراد نے اپنے اصل دستخط کے ساتھ اصلی جے آئی ٹی رپورٹ محکمہ داخلہ کو جمع کروائی تھی جو محکمہ داخلہ میں موجود ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ یہ جے آئی ٹی ایک مرتبہ پہلے عدالت میں جمع کروائی گئی تھی جسے عدالت نے دیکھنے کے بعد واپس کردیا تھا۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی ایک ہوتی ہے، کئی نہیں ہوتیں، اصل جے آئی ٹی رپورٹ محکمہ داخلہ میں موجود ہے اور وہی عدالت میں سربمہر لفافے میں جمع کروائی گئی تھی اور عدالت نے بھی اسے کھول کر پڑھنے کے بعد سربمہر لفافے میں واپس کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ قانون اور ایڈووکیٹ جنرل کرمنل پروسیکیوشن ڈپارٹمنٹ نے جے آئی ٹی رپورٹس جاری نہ کرنے کی تجویز دی تھی کیونکہ اس میں جس کا بھی نام ہوگا وہ سب ہوشیار ہوجائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: نثار مورائی سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث رہے، جے آئی ٹی

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ بدقسمتی سے علی زیدی نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیر دستخط شدہ کاپی، جسے وہ خود کہہ رہے کہ غیر دستخط شدہ ہے، اسے پڑھنا شروع کردیا۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ اس سے ہم پر سیاسی دباؤ آیا پھر میں نے ایڈووکیٹ جنرل سے بات کی کہ سیاسی دباؤ کی وجہ سے ہمیں جے آئی ٹیز جاری کرنی پڑیں گی۔

انہوں نے کہا کہ علی زیدی نے خود کہا کہ عذیر بلوچ نے 198 قتل کا اعتراف کیا تھا تو اس کے ساتھ جتنے لوگ ملوث تھے ان سب کو خبردار کردیا۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ علی زیدی نے غیرذمہ دارانہ حرکت کی اور اب کہتے ہیں کہ 3 جے آئی ٹیز ہیں، جے آئی ٹی ایک ہوتی ہیں اور اس پر دستخط بھی ہوتے ہیں۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ علی زیدی نے جو بتایا اس میں سی آئی ڈی کا نام ہے جبکہ 2015 میں ختم ہوگیا تھا اس کے بعد سی ٹی ڈی (کاؤنٹر ٹیرارزم ڈپارٹمنٹ) بنا تھا، اصل جے آئی ٹی میں سی ٹی ڈی کا نام لکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز علی زیدی نے ایک پروگرام میں انکشاف کیا تھا کہ کوئی موٹرسائیکل پر آیا تھا اور چوکیدار کو کاغذ دے کر گیا تھا، اللہ انہیں عقل دے کوئی ذمہ دار آدمی اتنے اہم کیس میں ایسی غیر دمہ داری نہیں دکھاتا۔

مزید پڑھیں: عذیر بلوچ کا جاسوسی، 198 افراد کے قتل کا اعتراف، جے آئی ٹی رپورٹ جاری

وزیراعلیٰ نے کہا کہ جتنی غیر ذمہ داری علی زیدی نے دکھائی اس میں مجھے یہ لگتا ہے یہ میری رائے ہے کہ وہ ملزمان کو فائدہ پہنچانا چاہ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ علی زیدی نے کہا کہ اصل جے آئی ٹی میں 7 لوگوں کے دستخط ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ مجھے کوئی دروزاے پر کاغذ دے کر چلا جائے اور میں صبح اٹھ کر اسمبلی میں اس پر کہانی دے دوں اس سے زیادہ غیرذمہ دارانہ بات کیا ہوگی۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ ایک وفاقی وزیر، رکن قومی اسمبلی (ایم این اے)، سیاسی شخص سے ایسی اُمید نہیں تھی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ علی زیدی اگر موٹرسائیکل پر کاغذ دیے جانے کی بات پہلے بتادیتے تو ہم جے آئی ٹیز جاری نہیں کرتے بلکہ صرف ہنستے۔

انہوں نے کہا کہ حال ہی میں، میں نے ایک انٹرویو سنا جس میں عمران خان نے کہا تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) ایک نظریاتی جماعت ہے، ضیاالحق نے اسے ختم کرنے کی کوشش کی، پرویز مشرف نے ختم کرنے کی کوشش کی اور وہ نہیں ہوئی۔

جے آئی ٹی رپورٹس پبلک کرنے کا معاملہ

خیال رہے کہ 28 جون کو سندھ ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما کی سانحہ بلدیہ فیکٹری، لیاری کے گینگسٹر عذیر جان بلوچ اور فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی (ایف سی ایس) کے سابق چیئرمین نثار مورائی کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی 3 رپورٹس کو منظر عام پر لانے کی درخواست منظور کرلی تھی۔

جس کے بعد 30 جون کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیر بحری امور علی زیدی ایوان میں عذیر بلوچ کے حوالے سے جے آئی ٹی کی رپورٹ لے کر آئے تھے اور انہوں نے ایک ایک فرد کا نام لے کر بتایا تھا کہ اس میں کون کون ملوث تھا۔

اس دوران حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہنگامہ آرائی ہوئی تھی اور تحریک انصاف کے رہنما علی زیدی اور پیپلز پارٹی کے نوید قمر آمنے سامنے آ گئے تھے۔

جس کے بعد 3 جولائی کو حکومت سندھ نے عذیر بلوچ، نثار مورائی اور بلدیہ ٹاؤن کیسز کی جے آئی ٹی رپورٹس پبلک کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: وفاقی وزیر کا سپریم کورٹ سے عذیر بلوچ و دیگر جے آئی ٹیز پر ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ

حکومت سندھ نے 2 روز قبل عذیر بلوچ، بلدیہ ٹاؤن فیکٹری حادثہ اور نثار مورائی کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹس جاری کی تھیں۔

ان تینوں رپورٹس میں سنسنی خیز انکشافات کیے گئے تھے جہاں بلدیہ ٹاؤن جے آئی ٹی میں کہا گیا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے اعلیٰ عہدیدار حماد صدیقی نے 20 کروڑ روپے بھتہ نہ ملنے پر بلدیہ میں قائم گارمنٹس فیکٹری میں آگ لگوائی۔

لیاری گینگ وار اور لیاری امن کمیٹی کے سربراہ عذیر بلوچ کی جوائنٹ انویسٹی ٹیم کی رپورٹ میں ملزم نے سیاسی و لسانی بنیادوں پر 198 افراد کے قتل کا اعتراف کیا تھا۔

فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے سابق چیئرمین نثار مورائی کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے ملزم کو سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث قرار دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عذیر بلوچ، نثار مورائی، بلدیہ ٹاؤن کی جے آئی ٹی رپورٹس پبلک کرنے کا اعلان

جس کے بعد گزشتہ روز پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے عذیر بلوچ، بلدیہ فیکٹری اور نثار مورائی کی جے آئی ٹیز پر ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ یہ موٹر سائیکل اور گاڑی کی چوری کی بات نہیں ہے بلکہ جے آئی ٹی ریلیز کی گئی تو ان کے ترجمان نبیل گبول کہنے لگے کہ یہ جے آئی ٹی پوری نہیں ہے۔

پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے پیپلز پارٹی رہنماؤں کی عذیر بلوچ سے ملاقات سمیت مختلف ویڈیوز بھی چلائیں اور 4 مارچ 2013 کا حکومت سندھ کا اعلامیہ بھی دکھایا جس میں حکومت سندھ نے عذیر بلوچ کی سر کی قیمت مقرر کی تھی۔

علی حیدر زیدی نے عذیر بلوچ کا بیان حلفی سناتے ہوئے کہا تھا کہ صفحہ نمبر 7 میں عذیر بلوچ نے کہا تھا کہ سینیٹر یوسف بلوچ کے کہنے پر وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور فریال تالپور سے ملاقات کی اور اپنے خلاف ہیڈمنی ختم کروانے کا کہا جسے آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے حکم پر ہٹادیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں