ایک بلڈ گروپ کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ معمولی حد تک کم کرے، تحقیق

16 جولائ 2020
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — رائٹرز فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — رائٹرز فوٹو

گزشتہ چند ماہ کے دوران کئی تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ او ٹائپ بلڈ گروپ کے حامل افراد میں کورونا وائرس کا خطرہ دیگر گروپس کے افراد کے مقابلے میں کچھ کم ہوتا ہے۔

اب ایک نئی تحقیق میں بھی اسی طرح کا دعویٰ سامنے آیا ہے جس کے مطابق او بلڈ گروپ والے مریضوں میں کووڈ 19 کی تشخیص کا امکان اے، بی یا اے بی کے حامل افراد کے مقابلے میں کسی حد تک کم ہوتا ہے۔

اس تحقیق میں 13 سو کے قریب کورونا وائرس کے مریضوں کے خون کے گروپس کا جائزہ لیا گیا تھا جو میساچوسٹس کے 5 ہسپتالوں میں مارچ اور اپریل کے دوران داخل ہوئے تھے۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ او بلڈ گروپ کورونا وائرس ٹیسٹ کے مثبت آنے کا امکان کم کرتا ہے جبکہ بی اور اے بی ٹائپ میں سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے، اس کے مقابلے میں اے بلڈ گروپ کا وائرس کی تشخیص کے حوالے سے کوئی لنک سامنے نہیں آسکا۔

تحقیق کے نتائج سابقہ تحقیقی کام تقویت پہنچاتے ہیں۔

مارچ میں چین میں ہونے والی ایک تحقیق میں بھی کہا گیا تھا کہ اے بلڈ گروپ والے افراد میں کووڈ 19 کا شکار ہونے کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے جبکہ او بلڈ گروپ کے مالک افراد میں یہ خطرہ نمایاں حد تک کم ہوتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ مختلف بلڈ گروپس اور کووڈ 19 کے خطرے میں فرق ممکنہ طور پر خون میں موجود مخصوص اینٹی باڈیز کا نتیجہ ہے، تاہم اس کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

گزشتہ مہینے کے آغاز میں جرمنی اور ناروے کے سائنسدائنوں کی ایک تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ خون کا ایک مخصوص گروپ بھی اس وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی شدت میں نمایاں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

تحقیق کے مطابق اے بلڈ گروپ والے افراد میں کورونا وائرس کی سنگین ترین قسم کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوسکتا ہے۔

تحقیق میں انسانی جینوم میں ایسے 2 مقامات دریافت کیے گئے جو کووڈ 19 کے شکار افراد میں نظام تنفس ناکام کرنے کا خطرہ بڑھاتے ہیں، ان میں سے ایک مقام اس جین میں تھا جو خون کے گروپ کا تعین کرتا ہے۔

تحقیق کے مطابق اے بلڈ گروپ کے حامل افراد میں کووڈ 19 ہونے کی صورت میں آکسیجن یا وینٹی لیٹر کی ضرورت کا امکان زیادہ ہوسکتا ہے۔

تاہم تحقیق میں شامل جرمنی کی کایل یونیورسٹی کے مالیکیولر میڈیسین کے پروفیسر آندرے فرینک نے کہا کہ یہ ضروری نہیں کہ بلڈ گروپ کسی فرد کے زیادہ بیمار ہونے کا تعین کرے۔

انہوں نے کہا 'ہم اب تک یہ فرق نہیں کرسکے تھے کہ بلڈ گروپ یا بلڈ گروپ سے منسلک کچھ جینیاتی عناصر بھی خطرے کا باعث بن سکتے ہیں، اپنے کام کے دوران ہم نے بلڈ گروپس کا تجزیہ کرنے کے بعد تخمینہ لگایا کہ او گروپ والے افراد کو 50 فیصد زیادہ تحفظ اور اے گروپ والوں کے لیے 50 فیصد زیادہ خطرہ ہوتا ہے'۔

محققین نے اٹلی اور اسپین کے ہسپتالوں میں زیرعلاج کووڈ 19 کے 1610 مریضوں کے خون کے نمونے جمع کیے گئے جن کو آکسیجن یا وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑی تھی، خون کے نمونوں میں سے ڈی این اے کو اکٹھا کرکے ایک تیکنیک جینوٹائپنگ کے ذریعے اسکین کیا گیا۔

بعد ازاں ان کا موازنہ ایسے 2205 افراد سے کیا گیا جو کووڈ 19 کے شکار نہیں ہوئے تھے۔

محققین نے کووڈ 19 کے مریضوں کے ڈی این اے کا بھی تجزیہ کیا تاکہ تعین کیا جاسکے کہ ان میں کسی قسم کا جینیاتی کوڈ مشترکہ تو نہیں۔

مگر محققین اس حوالے سے تاحال پریقین نہیں کہ یہ تعلق کیوں موجود ہے۔

بعد ازاں بائیو ٹیکنالوجی کمپنی 23 اینڈ می کی ابتدائی تحقیق کے نتائج میں بھی کہا گیا کہ او بلڈ گروپ والے افراد میں نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

ابتدائی نتائج کے مطابق او بلڈ گروپ والے افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص کا امکان دیگر کے مقابلے میں 9 سے 18 فیصد کم ہوتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ جو لوگ وائرس کے خطرے سے زیادہ دوچار ہوتے ہیں جیسے طبی عملہ اور ضروری کاموں میں مصروف افراد یا ایسے لوگ جو کسی متاثرہ فرد کے رابطے میں رہتے ہیں، تو ان میں او بلڈ گروپ افراد میں وائرس کا خطرہ 13 سے 26 فیصد تک کم ہوتا ہے۔

تحقیقی ٹیم نے دیگر بلڈ گروپس کے خطرے میں کوئی نمایاں فرق دریافت نہیں کیا مگر یہ ضرور بتایا کہ او بلڈ گروپ کے حامل افراد کا ہسپتال میں داخل ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔

اس تحقیق پر اپریل میں کام شروع ہوا تھا اور اس میں شامل رضاکاروں سے سروے میں سوالات کے جواب حاصل کیے گئے تھے جیسے کیا انہیں فلو یا نزلہ زکام جیسی علامات کا سامنا ہوا اور کب ان یں تشخیص ہوئی، علاج ہوا یا کووڈ 19 کے نتیجے میں ہسپتال میں داخل ہونا تو نہیں پڑا۔

ان رضاکاروں کی جینیاتی معلومات بھی حاصل کی گئی۔

ابتدائی نتائج میں دریافت کیا گیا کہ اے بی او جین جو مختلف بلڈ گروپس کا تعین کرتا ہے، بیماری کی تشخیص کا خطرہ کم کرتا ہے۔

او بلڈ گروپ کے مریضوں کی مجموعی تعداد 1.3 فیصد تھی جبکہ اے بلڈ گروپ کے مریضوں کی تعداد 1.4 اور بی اور اے بی بلڈ گروپس کے مریضوں کی تعداد 1.5 فیصد تھی۔

جب محققین نے یہ دیکھا کن افراد میں وائرس کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے تو انہوں نے دریافت کیا کہ او بلڈ گروپ میں کووڈ 19 کی تشخیص کا امکان دیگر کے مقابلے میں میں سب سے کم 3.2 فیصد تھا، اے بلڈ گروپ میں 3.9، بی بلڈ گروپ میں 4 اور اے بی بلڈ گروپ میں 4.1 فیصد تھا۔

مگر کمپنی کی جانب سے جاری بیان میں اعتراف کیا گیا کہ تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ کچھ رپورٹس میں کووڈ 19 کا تعلق بلڈ کلٹس اور خون کی شریانوں سے جڑے امراض سے جوڑا گیا ہے، جس سے یہ اشارے ملتے ہیں کہ جینز اس حوالے سے کردار ادا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ابھی ابتدائی دن ہیں اور موجودہ نمونوں کے باوجود ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ ہم نے جینیاتی تعلق کو دریافت کرلیا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ صرف ہم ہی یہ نہیں کررہے بلکہ پوری سائنسی برادری کو جینز اور کووڈ 19 کے درمیان تعلق کے سوالات کے جواب جاننے چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں