لاہور ہائیکورٹ نے غیر منتخب افراد کے وفاقی حکومت چلانے پر سوالات اٹھا دیئے

اپ ڈیٹ 17 جولائ 2020
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے مطابق آخر میں غیر منتخب افراد اپنے اپنے دفتروں میں چلے جاتے ہیں مگر منتخب افراد کو اپنے انتخابی حلقوں میں جانا پڑتا ہے ۔ اے ایف پی:فائل فوٹو
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے مطابق آخر میں غیر منتخب افراد اپنے اپنے دفتروں میں چلے جاتے ہیں مگر منتخب افراد کو اپنے انتخابی حلقوں میں جانا پڑتا ہے ۔ اے ایف پی:فائل فوٹو

لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد قاسم خان کا کہنا ہے کہ ایک عام تاثر یہ ہے کہ وفاقی حکومت کے معاملات وزیر اعظم کے غیر منتخب معاونین کے ذریعے چلائے جارہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق منتخب اور غیر منتخب افراد کے درمیاں بنیادی فرق کا حوالہ دیتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 'آخر میں غیر منتخب افراد اپنے بستے اٹھاتے ہیں اور اپنے دفتروں میں واپس چلے جاتے ہیں لیکن منتخب افراد کو اپنے انتخابی حلقوں کے عوام کا سامنا کرنا پڑتا ہے'۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ، ملک میں پیٹرول کی قلت اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے میں حکومت کی ناکامی کے حوالے سے کیس کی سماعت کر رہے تھے۔

عدالت میں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی چیئر پرسن عظمیٰ عادل، چیف سیکریٹری جواد رفیق اور دیگر عہدیدار موجود تھے۔

مزید پڑھیں: 'حکومت میں منتخب اور غیر منتخب افراد کی سرد جنگ جاری ہے'

اٹارنی جنرل نے پیٹرول بحران کے معاملے پر وفاقی کابینہ اجلاس کے چند نکات عدالت کے سامنے پیش کیے۔

اس کو دیکھنے کے بعد چیف جسٹس نے مشاہدہ کیا کہ اجلاس کے نکات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کو عوام سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر کا نام لیے بغیر چیف جسٹس نے حیرت کا اظہار کیا کہ معاون خصوصی نے کابینہ کو بتایا تھا کہ عوام میں پیٹرول کی قلت کے پیچھے خوف و ہراس ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ 'کابینہ کو گمراہ کیا گیا ہے اور متعلقہ وزارت چلانے والا معاون خصوصی اس بحران کے ذمہ دار ہے'۔

انہوں نے اٹارنی جنرل سے وضاحت طلب کی کہ کابینہ کے فیصلے کی روشنی میں آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او ایم سیز) کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے اور کیا او ایم سیز نے ان کے معاہدوں کے مطابق 20 دن کا لازمی اسٹاک برقرار رکھا تھا؟

چیف جسٹس نے تیل کی قیمتوں میں 26 جون کو اوگرا کی سمری کے بغیر اضافہ کرنے اور حکومت کے دعوے کہ ریگولیٹر سے زبانی مشاورت ہوئی ہے، پر برہمی کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کے معاونین، مشیروں کے تقرر کیخلاف درخواست پر سپریم کورٹ رجسٹرار آفس کا اعتراض

تاہم اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ وہ اس اقدام کا دفاع نہیں کریں گے۔

انہوں نے پیٹرول بحران سے متعلق حکومت کے کمیشن کے لیے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) پیش کرنے کے لیے عدالت سے وقت بھی طلب کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو مکمل اختیار حاصل تھا کہ وہ حکومت کو کمیشن سے متعلق اپنی تجویز پیش کریں تاہم کمیشن کی رپورٹ عدالت پر پابند نہیں ہوگی کیونکہ اگر عدالت نے رپورٹ کو تسلی بخش نہ سمجھا تو ایک علیحدہ عدالتی حکم پاس کیا جاسکتا ہے۔

اے جی پی نے کہا کہ کمیشن کو اپنی رپورٹ مکمل کرنے میں چھ سے آٹھ ہفتوں کا وقت لگے گا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ کمیشن کے لیے معاون اویس خالد کے ذریعے پیش کردہ ٹی او آرز کو بھی دیکھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت کوئی کمیشن تشکیل دینے میں ناکام رہی تو مدعا علیہان کی جانب سے درخواست پر جوابات جمع کریں۔

تاہم اے جی پی نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ ایسا نہیں ہوگا جس کے بعد عدالت نے سماعت کو 6 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں