طالبان کی طاقتور مذاکراتی ٹیم تشکیل، پاکستان کے قریبی رہنما خان متقی ٹیم سے باہر

اپ ڈیٹ 18 جولائ 2020
طالبان نے مذاکراتی ٹیم سے پاکستان کے قریب تصور کے جانے والے امیر خان متقی کو باہر کردیا گیا— فائل فوٹو: رائٹرز
طالبان نے مذاکراتی ٹیم سے پاکستان کے قریب تصور کے جانے والے امیر خان متقی کو باہر کردیا گیا— فائل فوٹو: رائٹرز

اسلام آباد: طالبان کے عہدیداروں نے کہا ہے طالبان نے تحریک کے بانی کے بیٹے کو ان کے فوجی ونگ کا انچارج بنا دیا ہے اور ان کی مذاکراتی ٹیم میں متعدد طاقتور شخصیات شامل کیا ہے۔

یہ کئی برسوں میں کی جانے والی سب سے اہم ردوبدل ہے اور یہ اقدام ایک ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات سے قبل اٹھایا گیا ہے جس کا مقصد کئی دہائیوں سے جاری جنگ کا خاتمہ ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا کا معاہدے کے 'اگلے مرحلے' میں داخل ہونے کے ساتھ طالبان پر تشدد میں کمی پر زور

ایک نئے متحدہ ملٹری ونگ کے سربراہ کی حیثیت سے 30 سالہ ملا محمد یعقوب اپنے والد ملا محمد عمر کی زبردست سمجھوتہ نہ کرنے والی ساکھ کو میدان جنگ کا حصہ بناتے ہیں۔

طالبان عہدیداروں نے بتایا کہ اسی طرح طالبان کی قیادت کے 4 اراکین کی 20 رکنی مذاکراتی ٹیم میں شمولیت بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔

عہدیداروں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ تبدیلی طالبان کے رہنما ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کی نگرانی میں کی گئی جس کا مقصد تحریک کے فوجی اور سیاسی ہتھیاروں پر اپنا کنٹرول سخت کرنا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی افغان سیاسی قیادت کے ساتھ مذاکرات کے لیے خوشخبری ثابت ہوسکتی ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ فروری میں امریکا سے ہوئے معاہدے کے دوسرے اور سب سے اہم مرحلے کو طالبان کس حد تک سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امن معاہدہ: افغانستان سے سیکٹروں امریکی فوجیوں کا انخلا

واشنگٹن میں امریکی انسٹیٹیوٹ آف پیس کے نائب صدر اینڈریو وائلڈر نے کہا کہ یہ ایک مثبت پیشرفت معلوم ہوتی ہے کیونکہ طالبان ایک وفد تشکیل دے رہے ہیں جو اب تک کے سب سے زیادہ سینئر اور وسیع النظر اراکین پر مشتمل ہے یا مذاکرات کے ابتدائی مراحل کے لیے سختی انتہائی ضروری ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر آپ گلاس کو آدھا بھرا دیکھنا چاہتے ہیں تو اس مضبوط طالبان وفد کی نشاندہی اس علامت کے طور پر کی جاسکتی ہے کہ یہ گروپ سنجیدہ بات چیت میں شریک ہونے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔

واضح رہے کہ جب ڈیڑھ سال سے ززائد عرصے تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد امریکا نے 29 فروری کو طالبان کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے تو اسے 4 دہائیوں کی جنگ میں افغانستان کے امن کا بہترین موقع قرار دیا گیا، اسے افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے روڈ میپ کے طور پر بھی دیکھا گیا جس سے امریکا کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ بھی ہوگا۔

اس معاہدے پر دستخط کے ساڑھے 4 ماہ بعد امریکا کی جانب سے مذاکرات کے سربراہ اور امن مندوب زلمے خلیل زاد نے ٹوئٹ کی کہ امریکا طالبان معاہدے پر عمل درآمد میں ایک اہم سنگ میل طے پایا ہے کیونکہ امریکی فوجیوں کی تعداد 12ہزار سے کم ہو کر 8ہزار 600 ہو گئی ہے اور افغانستان میں 5 اڈے بند کردیے گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں داعش جنوبی ایشیا کے سربراہ سمیت 3 خطرناک دہشت گرد گرفتار

یہاں تک کہ خلیل زاد نے افغان سیکیورٹی فورسز پر باغیوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ طالبان، امریکا اور نیٹو کے فوجیوں پر حملہ نہ کرنے کے اپنے قول کے سچے ہیں۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ طالبان کے تشدد سے کسی بھی امریکی نے افغانستان میں اپنی زندگی نہیں گنوائی اور علاقائی تعلقات میں بہتری آئی ہے۔

دوسری جانب مئی میں ملا محمد یعقوب کے تقرر کے بعد سے ہی طالبان نے افغان حکومتی فورسز کے خلاف اپنی فوجی سرگرمیاں تیز کردی ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ان کی سربراہی میں طالبان جنگ کے میدان میں جیت کو مذاکرات کی میز پر اپنا فائدہ اٹھانے کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔

جانس ہاپکنز یونیورسٹی کے اسکول آف ایڈوانسڈ انٹرنیشنل کے سینئر ریسرچ پروفیسر ڈینیئل مارکی نے کہا کہ میں طالبان کی طرف سے مذاکرات کی بطور تدبیر پیشرفت کی بہت ساری وجوہات دیکھ سکتا ہوں لیکن اس بات کے برابر امکانات ہیں کہ اسے امریکی حدود کو پرکھنے کے لیے استعمال کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو، ٹرمپ انتظامیہ انخلا کی تیاری کررہی ہے۔ وہ تشدد کو بڑھاوا کیوں نہیں دیتے تاکہ یہ جان سکیں کہ اور کتنی بڑی کامیابیاں حاصل کی جا سکتی تھیں۔

تاہم حیرت کی بات یہ ہے کہ اس تبدیلی کے نتیجے میں طالبان کے سینئر رہنما امیر خان متقی کو بھی مذاکراتی کمیٹی سے ہٹا دیا گیا ہے، وہ پاکستان کے قریب تصور کیے جاتے ہیں اور ان کی برطرفی سے پاکستان کا اثر و رسوخ محدود ہوسکتا ہے اور افغانستان کے ساتھ ان کی پوزیشن مضبوط ہو سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان صدر کا مزید 2 ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان

مزید یہ کہ تحریک کے نائب سربراہ ملا عمر کے بیٹے کی اچانک طالبان کے فوجی سربراہ کی حیثیت سے ایک اور منصب پر تقرر کے نتیجے میں قیادت کونسل کے اراکین میں غم و غصہ پایا جاتا ہے کیونکہ ان سے اس تقرر سے متعلق مشورہ نہیں کیا گیا، تاہم طالبان عہدیداروں نے بتایا کہ ملا محمد یعقوب نے کونسل سے ملاقات کی اور اختلاف رائے رکھنے والوں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

دوسری جانب واشنگٹن میں واقع ولسن سینٹر میں ایشیا پروگرام کے نائب ڈائریکٹر مائیکل کوجل مین نے کہا کہ ملا محمد یعقوب کا تقرر کم سے کم جزوی طور پر ملا اخوندزادہ کی طرف سے میدان جنگ کی کارروائیوں کی نگرانی کی کوشش ہو سکتی ہے کیونکہ شرپسندوں نے افغان حکومت کے ساتھ ممکنہ امن مذاکرات کی تیاری میں اپنی مذاکرات کی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے تشدد کو بڑھاوا دیا ہے۔

خیال رہے کہ قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر طالبان اور کابل حکومت میں اختلافات کے باوجود حالیہ ہفتوں میں جولائی میں مذاکرات کے آغاز کی امید بندھ گئی تھی اور اقوام متحدہ نے امید ظاہر کی تھی کہ اس ماہ سے مذاکرات کا آغاز ہوسکتا ہے۔

ادھر کئی ممالک مذاکرات کی میزبانی کے لیے صف آرا ہیں جس میں جرمنی نے حال ہی میں پیشکش کی ہے اور مبینہ طور پر ترکی، ایران، انڈونیشیا، جاپان اور ناروے نے رضاکارانہ بنیادوں پر مذاکرات کی میزبانی کی پیشکش کی ہے، تاہم طالبان اور افغان سرکاری عہدے داروں کا کہنا ہے کہ پہلا دور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے کا امکان ہے جہاں طالبان کا ایک سیاسی دفتر بھی ہے۔

مزید پڑھیں: ’ایران کے بغیر افغان تنازع کا کوئی حل ممکن نہیں‘

نئی مستحکم مذاکراتی ٹیم میں طالبان کے چیف جسٹس اور اخونزادہ کے معتمد عبدالحکیم کے علاوہ مولوی ثاقب بھی شامل ہیں جو طالبان کے دور میں چیف جسٹس تھے۔

امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے کے تحت طالبان نے کسی بھی دہشت گرد گروہوں کی میزبانی نہ کرنے کا وعدہ کیا ہے اور وہ یہ ضمانت بھی دیتے ہیں کہ افغانستان کو مستقبل میں امریکا کے خلاف حملے شروع کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔

مزید برآں اس ہفتے ایک ٹوئٹ میں خلیل زاد نے کہا تھا کہ انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں مزید پیشرفت کی ضرورت ہے تاہم انہوں نے مزید وضاحت نہیں کی تھی۔

دریں اثنا اس ہفتے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بھی وائٹ ہاؤس کے اطراف زیر گردش سازشوں کے حوالے سے بھی بات کی جس کے مطابق روس کی ملی بھگت سے افغان ملیشیا کو رقم کی ادائیگی کی گئی جن کے طالبان سے تعلقات ہیں تاکہ امریکی فوجیوں کو قتل کیا جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ بہت سارے روسی نقوش موجود ہیں، وہاں روسی ہتھیاروں کے نظام موجود ہیں، ہم نے اپنے روسی ہم منصبوں پر واضح کر دیا ہے کہ ہمیں زیادہ خودمختار، زیادہ آزاد ، پُرامن افغانستان کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔


یہ خبر 18جولائی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں