خیبرپختونخوا میں پولیو وائرس کی معدوم قسم کے کیسز کی تشخیص کا سلسلہ جاری

اپ ڈیٹ 20 جولائ 2020
رواں برس خیبرپختونخوا میں ویکسین ڈیرائیوڈ-پولیووائرس ٹائپ ٹو کے 42 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں — فائل فوٹو: اے پی
رواں برس خیبرپختونخوا میں ویکسین ڈیرائیوڈ-پولیووائرس ٹائپ ٹو کے 42 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں — فائل فوٹو: اے پی

پشاور: خیبرپختونخوا میں ویکسین ڈیرائیوڈ-پولیو وائرس ٹائپ ٹو (سی وی ڈی پی وی 2) کے کیسز کی تشخیص کا سلسلہ جاری ہے اور رواں برس میں اب تک ملک میں اس قسم کے سامنے آنے والے 50 کیسز میں سے خیبرپختونخوا میں 42 کیسز ریکارڈ ہوئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ خیال کیا جارہا تھا کہ وائرس چند برس قبل ختم ہوچکا ہے لیکن گزشتہ سال ملک بھر میں مجموعی طور پر سی وی ڈی پی وی 2 کے 22 کیسز ریکارڈ ہوئے تھے جن میں سے 16 کا تعلق خیبرپختونخوا، 4 کا گلگت بلتستان جبکہ دیگر ایک، ایک کا تعلق اسلام آباد اور پنجاب سے تھا۔

2019 میں خیبرپختونخوا کے 9 اضلاع سی وی ڈی پی وی 2 سے متاثر ہوئے تھے جبکہ اب یہ وائرس 11 اضلاع میں موجود ہے جہاں 42 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

خیبرپختونخوا جو وائلڈ پولیو وائرس(ڈبلیو پی وی) ٹائپ 3 کیسز کی تشخیص کا مرکز ہے اب سی وی ڈی پی وی 2 سے بھی متاثر ہے جہاں ناقص انسداد پولیو پروگرام کی وجہ سے مزید بچوں کے متاثر ہونے کا امکان ہے۔

مزید پڑھیں: ملک میں پولیو وائرس کی معدوم قسم کے 7 کیسز کی تشخیص  

2019 میں پاکستان میں 146 میں ڈبلیو پی وی ٹائپ 3 کے کیسز کی تصدیق ہوئی تھی جس میں 92 کا تعلق خیبرپختونخوا سے تھا جبکہ اب تک سال 2020 میں اس قسم کے ریکارڈ ہونے والے 56 کیسز میں سے 21 کا تعلق بھی خیبرپختونخوا سے ہے۔

گزشتہ برس گلگت بلتستان اور کوہستان میں سی وی ڈی پی وی 2 کے کیسز رپورٹ ہوئے تھے جو اب ملک بھر میں پھیل گئے ہیں۔

ملک میں پولیو وائرس کی دونوں اقسام کے سب سے زیادہ کیسز خیبرپختونخوا میں رپورٹ ہوئے ہیں کیونکہ مزید اضلاع وائرس سے متاثر ہورہے ہیں۔

پاکستان میں مجموعی طور پر پولیو کے 108 کیسز ریکارڈ ہوئے ہیں جن میں سال 2020 میں سی وی ڈی پی وی 2 کے 58 اور ڈبلیو پی وی کے 50 کیسز شامل ہیں جن میں سے 63 کیسز خیبر پختونخوا سے سامنے آئے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک بھر میں پولیو وائرس کے کیسز کا 58 فیصد صوبہ خیبرپختونخوا میں موجود ہے۔   عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے سی وی ڈی پی وی 2 کی ویکسینیشن ختم کردی تھی کیونکہ یہ خیال کیا جارہا تھا کہ یہ وائرس 1999 میں ختم ہوگیا تھا۔

سی وی ڈی پی وی 2 کی آخری ویکسینشن اپریل 2016 میں ہوئی تھی، یہاں یہ مدنظر رہے کہ پولیو کی 3 اقسام 1، 2 اور 3 ہیں۔ ٓ  2016 میں سی وی ڈی پی وی 2 کے خاتمے کے بعد، ویکسینیشن کو 3 وائرس کے لیے او پی وی سے او پی وی (پی ون اینڈ 3) میں تبدیل کردیا گیا تھا۔

یہ خیال کیا جارہا تھا کہ انجیکٹ ایبل پولیو ویکسین (آئی پی وی) کے ذریعے معمول کے حفاظتی ٹیکے سے قوت مدافعت برقرار رہے گی۔

یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا میں پولیو کے مزید 6 کیسز کی تصدیق

تاہم پوری توجہ پولیو پر مرکوز تھی اور معمول کے حفاظتی ٹیکے کی مہم انتہائی کمزور تھی۔   گزشتہ برس اگست میں سی وی ڈی پی وی 2 کے کیسز رپورٹ ہوئے تھے لیکن اس حوالے سے نگرانی کے ادارے ڈبلیو ایچ او نے بروقت آگاہ نہیں کیا جس کی وجہ سے فوری ردعمل میں تاخیر ہوئی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ناقص پولیو ویکسینیشن کی وجہ سے یہ دونوں وائرس بچوں کو شکار بناتے رہتے ہیں۔   سابق وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) 2016 سے 2018 تک پولیو سے پاک رہا جس کے بعد اس کی تکنیکی قیادت کرنے والے ڈاکٹر ندیم جان کو صدر مملکت پاکستان کی جانب سے تمغہ امتیاز دیا گا لیکن چند روز قبل انہیں انسداد پولیو پروگرام سے ہٹادیا گیا۔

کمیونٹی بیسڈ ویکسینیشن (سی بی وی) پروگرام ستمبر 2015 میں شروع ہوا تھا اور گزشتہ ماہ اس میں سابق فاٹا کو بھی شامل کیا گیا تھا اور پولیو پروگرام چلانے کے لیے ایک بین الاقوامی کنسلٹنسی فرم مک کنسی کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔

تاہم 2019 میں جنوبی وزیرستان میں ڈبلیو پی وی کے 2 کیسز اور 2020 میں اتنے ہی سی وی ڈی پی وی 2 کے کیسز رپورٹ ہوئے تھے جبکہ خیبر میں 2019 میں ایک کیس رپورٹ ہوا تھا اور 2020 میں سی وی ڈی پی وی 2 کے 15 کیسز ریکارڈ ہوئے۔

اس حوالے سے پولیو کے خاتمے کے لیے قائم نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر رانا محمد صفدر نے ڈان کو بتایا کہ 40 اننتہائی خطرے والی یونین کونسلز کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں بنیادی صحت کی خدمات، معمول کے حفاظتی ٹیکوں اور غذائیت سمیت مربوط خدمات کی فراہمی کے پیکیج پر عملدرآمد کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی پی وی کا ایک ڈوز 14 ہفتے کی عمر میں لگایا جاتا ہے، ہم گلوبل الائنس فار ویکسین اینڈ امیونائزیشن (جی اے وی آئی) کا دوسرا ڈوز 2021 کے اوائل سے متعارف کروانے کے لیے مذاکرات کیے ہیں۔

ڈاکٹر رانا محمد صفدر کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے ڈبلیو پی وی ون اور سی وی ڈی پی وی 2 کی جنگ میں پاکستان کو فائدہ ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں