لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

2016ء میں جب چاہ بہار بندرگاہ منصوبے پر ایران اور بھارت کے مابین معاہدے کا اعلان ہوا تو پاکستان کے مختلف حلقوں میں کافی تشویش پیدا ہوگئی تھی اور پیدا ہونی بھی چاہیے۔

اس منصوبے کو بھارت کی جانب سے گھیرا بندی کی حکمت عملی تصور کرتے ہوئے نہ صرف گوادر کے ممکنہ حریف کے طور پر دیکھا گیا بلکہ اسے خطے میں بڑھتے بھارتی اثر و رسوخ کے اشارے اور پاکستان کے مغربی سرحدی علاقے میں ایک ممکنہ چوکی بھی سمجھا گیا۔

اگر اس منصوبے کا وسیع جائزہ لیا جائے تو یہ پاکستان کو افغان تجارت سے الگ کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا کیونکہ یہ منصوبہ چاہ بہار سے زاہدان اور پھر وہاں سے افغانستان میں زنرنج تک ریل راستے کے ذریعے پاکستان سے ہونے والے افغان ٹرانزٹ تجارتی عمل کی اگرچہ مکمل طور پر جگہ تو نہیں لیتا لیکن کم از کم اسے محدود ضرور کردیتا۔

مزید پڑھیے: چاہ بہار ریلوے منصوبے سے بھارت کا انخلا: پاکستان کے لیے امکانات اور خدشات!

ایک برس بعد جب بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری عمل میں آئی جو چاہ بہار سے بھی آپریٹ کرتے رہے تو تشویش میں مزید اضافہ ہوا کیونکہ غالب امکان ہے کہ ایرانی حکام کو ان کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کا علم رہا ہوگا اور انہیں ان کو برداشت بھی کرنا پڑا ہوگا۔

مشرق میں کھلے دشمن بھارت، مغرب میں بھارتی اثر و رسوخ کا شکار تصور کیے جانے والے افغانستان اور اب ان کے ساتھ ایران کے مل جانے کے بعد یوں لگتا تھا کہ جیسے گھیرا تنگ ہو رہا ہے اور گلا گھٹنے کو ہے۔

مگر 4 برسوں میں بہت کچھ بدل سکتا ہے اور ایسا ہی ہوا کہ حال ہی میں یہ خبریں سننے کو ملیں کہ ایران نے ریلوے منصوبے سے بھارت کو الگ کرنے اور تن تنہا اس پر کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایرانی حکومت کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے میڈیا رپورٹس نے دعوٰی کیا کہ بھارت کو منصوبے سے باہر کرنے کی وجہ بھارت کی امریکا سے بڑھتی قربتوں کے باعث اس منصوبے کے اپنے حصے کا کام شروع کرنے میں سستی اور پابندیوں کا خوف ہے حالانکہ امریکا کی جانب سے چاہ بہار منصوبے کو خصوصی چھوٹ بھی دی گئی تھی۔

اس کے علاوہ پاکستان میں ایران کے سفیر محمد علی حسینی کا ایک بیان بھی سامنے آیا جس میں انہوں نے بظاہر بھارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ، 'چند غیر ملکی حکومتیں ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو لے کر ہچکچاتی ہیں اور انہیں عام بات چیت کے لیے بھی دیگر کی اجازت درکار ہوتی ہے، یقیناً یہ حکومتیں ایسے طویل مدتی تعاون پر مبنی معاہدوں کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کی صلاحیتوں کو پیدا نہیں کرپائیں گی'۔

مزید پڑھیے: وادی گلوان تنازع، بھارت کو ایک اور کارگل کا سامنا؟

بعدازاں ایرانی پورٹس اور میری ٹائم تنظیم کے نائب فرہاد منتصر کا بیان بھی سامنا آیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت ایسی کسی ڈیل کا کبھی حصہ ہی نہیں رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چاہ بہار میں ایران اور بھارت کے تعاون کے ساتھ پابندیوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایسے سفارتی اشارے ملنا اور تردیدوں کا سامنے آنا کوئی غیر معمولی بات نہیں مگر یہ بات واضح ہے کہ علاقے کا منظرنامہ بھارت کے لیے بدل رہا ہے۔

جہاں تک ایران کی بات ہے تو اسے ایک ریلوے منصوبے سے کہیں زیادہ فکر اس جامع ڈیل کی ہے جو چین کے ساتھ طے پائی گئی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ Sweeping economic and security partnership (وسیع اقتصادی و سلامتی کی شراکت داری) پکارے جانے والے اس معاہدے کے تحت 400 ارب ڈالر سے زائد رقم کی سرمایہ کاری کی جائے گی اور عسکری شعبے میں بھی تعاون کو فروغ دیا جائے گا۔

چین کے ساتھ معاہدے کے بعد ایران کی جانب سے بیلٹ اینڈ روڈ اور سی پیک منصوبے کی حمایت میں متعدد بیانات جاری کیے جاچکے ہیں اور محمد علی حسینی تو گوادر اور چاہ بہار کو بذریعہ ریل چین سے جوڑنے اور چین، روس، ایران اور پاکستان کی گولڈن رنگ کے وژنز کو حقیقت کا روپ دینے کی بات بھی کر رہے ہیں۔

اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ ایران چین ڈیل کے امکانات 2016ء سے موجود رہے ہیں مگر یہ بات واضح ہے کہ امریکا کے ایران کی طرف حریفانہ رویے نے اسے پہلے سے زیادہ چینی مدار میں دھکیل دیا ہے چنانچہ اب غالب امکان ہے کہ ایران کی چین کے ساتھ جتنی زیادہ قربت بڑھے گی اتنا ہی زیادہ اس ملک میں بھارتی اثر و رسوخ گھٹے گا۔

اگر ایسا ہوجاتا ہے تو واضح طور پر پاکستان پر دباؤ کم ہوگا کیونکہ بڑے بڑے بیانات کو اگر ایک طرف رکھا جائے تو بھی ایران میں چینیوں کی مداخلت پاکستان کے لیے خالص فائدہ مند ہے، جس کی وجہ صرف یہی نہیں کہ گلوان کے بعد کی دنیا میں بھارتی اثر و رسوخ کم ہوجائے گا بلکہ اس طرح پاکستان کی سلامتی میں ذاتی مفاد شامل ہونے سے ایران ایک مضبوط شراکت دار بھی بن جائے گا اور تہران کی ممکنہ رقابت کے خدشات ختم ہوجائیں گے۔

مزید پڑھیے: سرد جنگ کا آغاز ہوچکا، بس اعتراف باقی ہے

برِصغیر میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کے حوالے سے نئی دہلی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے اور چاہتا ہے کہ اپنے تنگ نظر بالادستی کے نظریات سے متاثرہ مقامی سیاسی خیالات کی روشنی میں ہی خارجہ پالیسی کا نقشہ بدلے۔ اگر اس بات کا مزید ثبوت چاہتے ہیں تو زیادہ دُور جانے کی ضرورت نہیں نیپال کو ہی لیجیے جو بھارت کی غنڈہ گردی کی وجہ سے چین کے بہت زیادہ قریب ہوتا جا رہا ہے۔

اس صورتحال کے علاوہ ایران میں نئی پیش رفت اور گلوان میں چین کے ہاتھوں ذلت کے باعث بھارت یقیناً امریکا کے مزید قریب ہونے پر مجبور ہوجائے گا جس نے حالیہ ہفتوں میں چین کے خلاف اپنا مؤقف سخت کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیجنگ کو باز رکھنے کی غرض سے طاقت کے مظاہرے اور خطے میں امریکی اتحادیوں کے مورال کو بلند کرنے کے لیے امریکا رواں ماہ جنوبی بحیرہ چین کی طرف دوسری بار طیارہ بردار بحری جہاز بھیج چکا ہے۔

علاوہ ازیں ہانگ کانگ کے نئے سیکیورٹی قانون پر امریکی ردِعمل اور ہوواوے کے خلاف پہلے امریکا اور اب برطانیہ کے ایکشن کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک بار پھر لکیریں کھینچی جا رہی ہیں اور ایک نئی سرد جنگ جیسا ہی کوئی باب شروع ہونے کو ہے جس میں دنیا کے بیشتر ممالک چال بازیوں یا پھر، ہمارے معاملے کی طرح پہلے سے طے شدہ معاملات کے تحت مسابقتی کیمپوں میں تقسیم ہوں گے۔


یہ مضمون 20 جولائی 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں