اسلام آباد ہائیکورٹ کا راول ڈیم کے کنارے پاکستان نیوی سیلنگ کلب سیل کرنے کا حکم

اپ ڈیٹ 23 جولائ 2020
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: ڈان
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: ڈان

اسلام آباد ہائیکورٹ نے راول ڈیم کے کنارے غیرقانونی تعمیرات کے خلاف کیس میں پاکستان نیوی سیلنگ کلب کو سیل کرنے کا حکم دیتے ہوئے معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کی ہدایت کردی۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی عدالت عالیہ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے راول جھیل کے کنارے غیرقانونی تعمیرات کے خلاف کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے ) کے رکن نے ایک رپورٹ عدالت میں جمع کروائی جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ زمین کا الاٹمنٹ لیٹر کہاں ہے، جس پر سی ڈی اے رکن نے بتایا وزیراعظم نے راول جھیل کے قریب تعمیرات کی اجازت دی۔

اس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں جو آپ سے پوچھ رہا ہوں اس کا جواب دیں، زمین کا الاٹمنٹ لیٹر کہاں ہے، جس پر سی ڈی اے رکن نے کہا کہ الاٹمنٹ لیٹر نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: راول جھیل پر 'غیرقانونی' تعمیرات کا معاملہ، پاک بحریہ کے سربراہ کو نوٹس

جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے پوچھا کہ پھر سی ڈی اے نے کیا کارروائی کی، اس پر جواب دیا گیا کہ ہم نے نوٹسز دیے ہوئے ہیں، جس پر چیف جسٹس بولے کہ کیا مطلب نوٹس دیے ہوئے ہیں؟

انہوں نے ریمارکس دیے کہ جائیں اور جا کر غیرقانونی عمارت کو گرائیں، غریب آدمی کے ساتھ سی ڈی اے کیا کرتا ہے یہ دوہرا معیار کیوں؟

چیف جسٹس نے پوچھا کہ بتائیں نیوی سیلنگ کلب کی عمارت قانونی ہے یا غیرقانونی؟ جس پر سی ڈی اے رکن نے کہا کہ میں کوئی قانونی بندہ نہیں ہوں جو کوئی رائے دوں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ سی ڈی اے بورڈ کی نمائندگی کر رہے ہیں، آپ کو معلوم ہے آپ کیا کررہے ہیں؟

عدالتی برہمی پر بورڈ کے رکن نے کہا کہ نیوی سیلنگ کلب غیر منظور شدہ ہے، اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ غیر منظور شدہ کیا ہوتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ یہ غیرقانونی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سیکریٹری کابینہ ڈویژن جا کر سیلنگ کلب سیل کریں اور آئندہ سماعت تک یہ سیل رہے گا، اگر اسے سیل نہ کیا گیا تو آئندہ سماعت پر سیکریٹری کابینہ عدالت میں پیش ہوں۔

ساتھ ہی عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ یہ معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھیں، ساتھ ہی وہ بولے کہ قانون کی بالادستی ہوگی کوئی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے مزید پوچھا کہ اس کے آس پاس کس کا قبضہ ہے، عوام کو وہاں جانے کی اجازت کیوں نہیں ہے، جس پر رکن بورڈ سی ڈی اے نے بتایا کہ عوام کے وہاں جانے میں کوئی پابندی نہیں ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رکن سی ڈی اے نے بتانے میں کترا رہے ہیں کہ کمرشل عمارت پاکستان نیوی کی ہے اور غیر قانونی ہے، اس کے جواب میں عدالت میں موجود پاک بحریہ کے نمائندے نے کہا کہ ہمیں کچھ وقت دیں ہم جواب جمع کرائیں گے۔

جس پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ بولے کہ کس بات کا وقت، اس عدالت سمیت کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے، آپ کی بہت عزت ہے، آپ کے شہیدوں کے لیے ہم کسی قسم کی بھی قربانی دینے کو تیار ہیں لیکن اگر آپ غیر قانونی کام کریں گے تو آپ ان شہیدوں کے ساتھ زیادتی کریں گے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کیوں اس چیز کا دفاع کر رہے ہیں جس کا دفاع نہیں کر سکتے۔

انہوں نے کہا کہ نیوی نے کس قانون اور اتھارٹی کے تحت کمرشل پراجیکٹس شروع کر دیے ہیں۔

ساتھ ہی وہ بولے کہ کیوں نہ چیئرمین سی ڈی اے اور بورڈ اراکین کے خلاف مبینہ غفلت پر کارروائی کا آغاز کیا جائے، یہ کوئی قبائلی علاقے نہیں ہیں بلکہ وفاقی دارالحکومت ہے۔

اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں عدالت کی معاونت کرنا چاہتا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ معاونت نہیں کر سکتے، پہلے جائیں اور عمارت سیل کریں۔

بعد ازاں عدالت نے پاکستان نیوی سیلنگ کلب کو سیل کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت کو ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردیا۔

اذان کے بعد عدالت نے مختصر تحریری حکم نامہ جاری کیا اور وفاقی حکومت اور سی ڈی اے کو کلب سیل کرنے کا حکم دے دیا۔

حکم نامے میں عدالت نے کہا کہ سی ڈی اے کے مطابق راول جھیل کنارے کلب کی الاٹمنٹ ہوئی نہ ہی تعمیر کی اجازتٓ دی گئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم نامے میں کہا کہ بادی النظر میں راول جھیل کنارے کلب کی تعمیر غیر قانونی ہے۔

اس کے ساتھ ہی حکم نامے میں کہا گیا کہ قوانین پر عملداری نہ کرنے کے ذمہ دار سی ڈی اے چئیرمین اور بورڈ کے اراکین ہیں تو کیوں نا سی ڈی اے چئیرمین اور بورڈ ممبران کے خلاف کاروائی کی جائے۔

عدالت نے کہا کہ سی ڈی اے قوانین کا اطلاق صرف عام آدمی کے لیے ہے،طاقتور اور کمزور کے لیے الگ رویہ ناقابل برداشت ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے راول جھیل کے کنارے 'غیرقانونی تعمیرات' کے خلاف درخواست پر چیف آف نیول اسٹاف، اٹارنی جنرل برائے پاکستان اور کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو نوٹسز جاری کیے تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کا مختصر حکم نامہ

نیوی کلب سیل کرنے سے متعلق مختصر حکم نامے میں کہا گیا کہ ڈاکٹر شاہد محمود ممبر(پلاننگ) کیپٹل اتھارٹی 16 جولائی 2020 کو پیش ہوئے تھے، ان سے پوچھا گیا تھا کہ پاکستان نیوی کی جانب سے کمرشل بلڈنگ کی تعمیر کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارتی آرڈیننس 1960 سے منظوری /این او سی حاصل کیا گیا یا نہیں۔

عدالت عالیہ نے حکم نامے میں کہا کہ ابتدائی طور پر وہ سوال کا جواب دینے میں ہکچکچائے بعدازاں انہوں نے بتایا کہ کوئی منظوری نہیں لی گئی تھی اور اس حوالے سے کوئی اراضی مختص نہیں کی گئی تھی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ یہ علاقہ ماحولیاتی طور پر حساس ہے اور یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایکٹ، 1997 کے تحت غیر قانونی عمارت کی تعمیر شروع کرنے سے قبل ضروری اقدامات کو پورا نہیں کیا گیا تھا جسے کلب اور کمرشل مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے دیا گیا بیان انتہائی تشویشناک ہے جو قانون کی حکمرانی اور ماحولیاتی طور پر حساس علاقے کو نقصان سے بچاؤ سے متعلق سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے قانونی فرائض ادا کرنے میں ناکام ہوگئی یا یہ مطمئن ہے، عدالت نے کہا کہ کسی کو بھی قانون توڑنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، کوئی قانون سے بالاتر نہیں اور ہر شہری کے ساتھ یکساں سلوک کیا جانا چاہیے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ مستقل طور پر دیکھا گیا ہے کہ کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور دیگر ایجنسیوں کی جانب سے عام شہریوں کے خلاف ایکشن لینا معمول بن گیا جن کے پاس اثرانداز ہونے کے ذرائع نہیں ہیں جبکہ مراعات یافتہ افراد اور اشرافیہ کے ساتھ مختلف سلوک کیا جارہا ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ یہ آئین کے تحت ایک جمہوری حکومت کے لیے ناقابل قبول ہے جو بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ متعلقہ اراضی کا قبضہ اور عمارت کی تعمیر غیرقانونی اور نافذ کردہ قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ لہذا یہ حکم دیا جاتا ہے آئندہ سماعت تک وفاقی حکومت، سیکریٹری کابینہ اور چیئرمین کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ذریعے کلب کی حدود کو سیل کریں گے۔

مختصر حکم نامے میں کہا گیا کہ سیکریٹری کابینہ ڈویژن کو وفاقی کابینہ کے آئندہ اجلاس میں یہ معاملہ پیش کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے کیونکہ نافذ کردہ قوانین پر عملدرآمد نہیں کیا گیا اور یہ صرف عام شہریوں کے لیے ہیں

عدالت نے کہا کہ یہ مختلف سلوک ناقال قبول ہے اور گزشتہ ایک دہائی سے معمول بن چکا ہے، کابینہ کی جانب سے غور ک بعد سیکریٹری کابینہ ڈویژن 30 جولائی 2020 کو یا اس سے قبل عدالت میں رپورٹ جمع کرائیں گے جس میں عدالت کو کابینہ کی جانب سے نافذ کردہ قوانین پر عملدرآمد کی غیر معمولی حالت سے متعلق فیصلے سے آگاہ کیا جائے جو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی وجہ بنتے ہیں۔

علاوہ ازیں حکم نامے میں کہا گیا کہ عدالت کی جانب سے پہلے ہی ڈیکلیئر کیا جاچکا ہے کہ ' بی این پی(پرائیویٹ) لمیٹڈ وی، کیپٹل اتھارٹی ' [2017 پی ایل ڈی 81 اسلام ]کیس میں چیئرمین کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور بورڈ کے اراکین قانون پر عملدرآمد اور اس کے نفاذ میں ناکامی کے مشترکہ طور پر ذمہ دار ہیں۔

عدالت نے سی ڈی اے کے چیئرمین اور بورڈ کے اراکین کو علیحدہ علیحدہ حلف نامے جمع کرانے کی ہدایت کی کہ وہ وضاحت دیں کہ کارروائی کا حکم کیوں نہیں دیا، کس بادی النظر میں قانونی ذمہ داریوں کی سراسر خلاف ورزی کی گئی۔

حکم نامے میں عدالت نے چیئرمین کپپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور سیکریٹری کابینہ کو متعلقہ رپورٹس رجسٹرار کے پاس جمع کرانے کی ہدایت کی۔

نیوی سیلنگ کلب کا معاملہ

خیال رہے کہ کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے پاکستان نیوی سیلنگ کلب کو اس کی غیرقانونی اور غیرمجاز تعمیر کے لیے نوٹس جاری کیا تھا۔

سی ڈی اے کے بلڈنگ کنٹرول سیکشن کی جانب سے جاری کردہ نوٹس کے مطابق پاکستان نیوی سیلنگ کلب کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ کلب کی عمارت کی غیرقانونی اور غیرمجاز تعمیر کو فوری طور پر روکے۔

نوٹیفکیشن کے مطابق 'اتھارٹی کے نوٹس میں ایک مرتبہ پھر یہ آیا کہ غیرقانونی تعمیراتی سرگرمیاں پھر بحال کردی گئی ہیں اور کلب کو فعال کردیا گیا ہے، یہ سی ڈی اے (بائی لاز) کی صریح خلاف ورزی ہے جسے فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: بنی گالہ میں 20 برس کی تعمیرات کا ریکارڈ طلب

ساتھ ہی یہ بھی لکھا گیا کہ 'آپ کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ غیرقانونی/غیرمجاز تعمیراتی کام اور پاکستان نیوی سیلنگ کلب کی فعال سرگرمیوں کو فوری طور پر روکیں'۔

نوٹس میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ 'اگر اس پر عمل نہیں کیا جاتا تو سی ڈی اے آپ کے خطرے اور قیمت پر غیرقانونی/غیرمجاز اسٹرکچر کو زبردستی ہٹانے/منہدم کرنے سے متعلق کارروائی کرے گی'۔

ادھر ماہر ماحولیات ڈاکٹر محمد عرفان خان نے ڈان کو بتایا تھا کہ پینے کے پانی کے ذخائر راول جھیل کو اس طرح کی سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا تھا کہ اس کے علاوہ سماجی اور ماحولیاتی اثرات کے جائزے کے ساتھ اس طرح کے منصوبے قائم نہیں کیے جاسکتے، یہ پاکستان ماحولیاتی تحفظ ایکٹ، ابتدائی ماحولیاتی امتحان اور ماحولیاتی اثرات کے جائزے کے ضوابط 2000 کے پاک-ای پی اے جائزے کی شق 12 کی سراسر خلاف ورزی ہے۔

ڈاکٹر عرفان خان کا کہنا تھا کہ راول ڈیم کو ڈیم کہا جاسکتا ہے لیکن یہ تربیلا اور منگلا ڈیم کی طرح نہیں ہیں، اس جھیل میں موجود پانی کو پینے کے لیے استعمال کیا جاتا اور سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق ذخائر میں موٹربوٹس تک کی ممانعت ہے۔

دوسری جانب پاکستان نیوی کے ایک سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ نیوی غور و خوص کے بعد جواب دے گی لیکن ساتھ ہی وہ بولے کہ سیلنگ کلب 1990 کی دہائی سے فعال ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیلنگ کلب میں غوطہ خوروں کی تربیت ہوتی ہے اور وہ شمالی علاقوں اور آزاد جموں و کشمیر میں ریسکیو آپریشن میں حصہ لیتے ہیں کیونکہ ملک کے شمال میں اس طرح کی یہ واحد سہولت ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ کلب کو گزشتہ سال ستمبر میں سی ڈی اے کی جانب سے نوٹس موصول ہوا تھا اور اس کے جواب میں اتھارٹی کو بتایا گیا تھا کہ سہولیات میں جدت لانے کے لیے تعمیر کی جارہی ہے۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ وہ آئندہ مہینوں میں جہاز رانی کے مقابلے اور ایک ٹورنامنٹ منقعد کرنے کا ارادہ کر رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں