ملائیشیا کے سمندر میں 24 روہنگیا مہاجرین لاپتا

اپ ڈیٹ 26 جولائ 2020
ملائیشیا کے حکام نے لاپتہ افراد کی تلاش شروع کردی ہے—فائل/فوٹو:اے پی
ملائیشیا کے حکام نے لاپتہ افراد کی تلاش شروع کردی ہے—فائل/فوٹو:اے پی

ملائیشیا کے جزیرہ لینگکاوی میں 24 روہنگیا مہاجرین لاپتا ہوگئے جبکہ ڈوب جانے کے خدشے کے پیش نظر حکومت نے تلاش شروع کردی ہے۔

خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق لینگکاوی جزیرے میں کشتی سے اتر کر کنارے میں پہنچنے کی کوشش کے دوران لاپتہ ہوگئے ہیں جس کے بعد حکومت نے ان کی تلاش کا آغاز کردیا ہے۔

مزید پڑھیں:میانمار:رخائن میں فوجی آپریشن کی تیاریاں، ہزاروں شہری بے گھر

ملائیشیا کے کوسٹ گارڈ کا کہنا تھا کہ جزیرے کے مغربی علاقے میں کشتی اترنے کے بعد تیر کر ساحل کی طرف آنے کوشش کرنے والے 25 افراد میں سے صرف ایک بحفاظت پہنچ گیا۔

ملائیشین میری ٹائم انفورسمنٹ ایجنسی کے ڈائریکٹر محمد زواوی عبداللہ کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے دو کشتیاں اور ایک ایئرکرافٹ بھیج دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم دیگر رضاکار تنظیموں اور مقامی ماہی گیر برادریوں کی معلومات پر انحصار کررہے ہیں اور تھائی لینڈ کے حکام کو بھی تلاش میں تعاون کے لیے آگاہ کریں گے'۔

پولیس نے ساحل پر پہنچنے والے شخص کو حراست میں لے کر تفتیش شروع کردی تاہم انہوں نے کشتیوں کے حوالے سے کچھ نہیں کہا۔

قبل ازیں گزشتہ ماہ لینگکاوی جزیرے میں 269 روہنگیا مہاجرین کو حراست میں لیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:جزیرے میں موجود روہنگیا مہاجرین کو کیمپ منتقل کیا جائے، سربراہ اقوام متحدہ

ملائیشین میری ٹائم انفورسمنٹ ایجنسی کے سربراہ نے اس وقت کہا تھا کہ 269 افراد کو موٹربوٹ سے منتقل کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ اطلاعات ہیں کہ 4 مہینے کے طویل سفر کے دوران درجنوں افراد جاں بحق ہوئے اور انہیں دریا برد کردیا گیا۔

واضح رہے کہ ملائیشیا مہاجرین کو قبول نہیں کرتا اورگزشتہ ماہ ہی وزیراعظم محی الدین یاسین نے کہا تھا کہ مزید کسی روہنگیا مہاجر کو نہیں لیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ مشکلات سے دوچار معیشت کو کورونا وائرس کی وبا سے مزید نقصان پہنچا ہے۔

خیال رہے کہ 2017 میں فوج کی زیر قیادت کیے گئے آپریشن کے بعد تقریباً ساڑھے 7 لاکھ روہنگیا مسلمانوں نے میانمار سے بھاگ کر بنگلہ دیش میں سرحد پر واقع کیمپوں میں پناہ لی تھی۔

اقوام متحدہ نے اس معاملے پر اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ یہ فوجی کارروائی روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی غرض سے شروع کی گئی تھی۔

اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی طاقتوں نے میانمار کے اس عمل کو نسل کشی قرار دیا تھا اور حکومت میں شراکتی فوج کو اس میں ملوث قرار دیا گیا تھا۔

رواں برس اپریل میں بھی سیکڑوں روہنگیا مسلمان رخائن سے ہجرت پر مجبور ہوئے تھے لیکن انہیں بنگلہ دیش سمیت پڑوسی ممالک نے داخلے کی اجازت نہیں دی تھی اور وہ کئی روز تک کشتی میں سوار ہو کر سمندر میں سرحدوں کے چکر لگاتے رہے۔

مزید پڑھیں:بنگلہ دیش کا روہنگیا مہاجرین کی کشتیوں کو داخلے کی اجازت دینے سے انکار

بنگلہ دیش کے حکام کا کہنا تھا کہ کشتی نے ملائیشیا پہنچنے کی کئی کوششیں کیں لیکن انہیں ہر مرتبہ واپس بھیج دیا گیا۔

بعدازاں بنگلہ دیش نے داخلے کی اجازت دے دی تاہم وزیر خارجہ اے کے عبدالمومن کا کہنا تھا کہ 'یہ بنگلہ دیش کی ذمہ داری نہیں ہے'۔ ان کا کہنا تھا کہ 'یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ پہلے میانمار کی حکومت کو کہیں کیونکہ وہ ان کے شہری ہیں'۔

میانمار کی فوج نے گزشتہ ماہ کے اواخر میں مغربی ریاست رخائن میں آپریشن کی تیاریاں شروع کردی تھیں جس کے بعد ہزاروں افراد گھر بار چھوڑ کر علاقے سے ہجرت کرگئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

انسانی حقوق کی تنظیموں اور ایک رکن پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ مقامی انتظامیہ کی جانب سے فوجی آپریشن کی تنبینہ کے بعد رخائن سے ہزاروں افراد چلے گئے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں