وفاقی حکومت کا صوبوں، متعلقہ اداروں کو شوگر ملز کیخلاف تحقیقات کا حکم

اپ ڈیٹ 27 جولائ 2020
بیرسٹر مرزا شہزاد اکبر نے وزیراعظم کی ہدایت پر مختلف اداروں، صوبائی حکومتوں کو خطوط لکھے—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
بیرسٹر مرزا شہزاد اکبر نے وزیراعظم کی ہدایت پر مختلف اداروں، صوبائی حکومتوں کو خطوط لکھے—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

وفاقی حکومت نے صوبائی حکومتوں اور متعلقہ اداروں کو خطوط ارسال کرتے ہوئے شوگر انکوائری کمیشن رپورٹ کی روشنی میں شوگر ملز مالکان کے خلاف باقاعدہ تحقیقات کا حکم دے دیا۔

یاد رہے کہ وزیراعظم نے فرانزک آڈٹ رپورٹ کی روشنی میں شوگر ملز مالکان کے خلاف 7 جون کو کارروائی کی ہدایت کی تھی اور 23 جون کو وفاقی کابینہ نے اس کی منظوری دی تھی۔

تاہم شوگر ملز مالکان کی جانب سے رپورٹ پر کارروائی کے خلاف عدالتوں میں درخواستیں دائر کی گئی تھی جس پر سپریم کورٹ نے 14 جولائی کو ہائی کورٹ کے حکم امتناع کو خارج کرکے حکومت کو شوگر ملز مالکان کے خلاف کارروائی کی جازت دے دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ نے حکومت کو شوگر ملز مالکان کے خلاف کارروائی کی اجازت دے دی

اس سلسلے میں وزیراعظم عمران خان کے مشیر احتساب و داخلہ شہزاد اکبر کی جانب سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)، قومی احتساب بیورو (نیب)، سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن پاکستان (ایس ای سی پی)، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)، گورنر اسٹیٹ بینک پاکستان (ایس بی پی)، مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) کے علاوہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کے چیف سیکریٹریز کو خطوط لکھ دیے گئے۔

بیرسٹر مرزا شہزاد اکبر نے وزیراعظم کی ہدایت پر خطوط لکھے جس کے ساتھ شوگر کمیشن رپورٹ بھی ارسال کی گئی اور بتایا گیا کہ وفاقی کابینہ نے 23 جون کو ایکشن پلان کی منظوری دی تھی۔

مذکورہ خطوط میں متعلقہ حکام سے 90 روز میں عملدرآمد رپورٹ طلب کی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: اداروں کو شوگر مافیا کے خلاف کارروائی سے روکا نہیں جاسکتا، اسلام آباد ہائیکورٹ

مشیر داخلہ نے ایف بی آر کو ملک بھر کی تمام شوگر ملز کا جامع ٹیکس آڈٹ کرنے کی ہدایت کی ہے اور شوگر ملز کی بے نامی ٹرانزیکشنز کی تحقیقات کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔

ساتھ ہی حکومت نے نیب کو کابینہ کے فیصلے کی روشنی میں شوگر ملز اور مالکان کے مالی معاملات کی تحقیقات کی ہدایت بھی کی ہے۔

اسٹیٹ بینک کو ارسال کردہ خط میں چینی ذخائر کے غلط استعمال اور مشکوک برآمدات کی تحقیقات کی ہدایت کی گئی ہے۔

علاوہ ازیں شوگر ملز کو سبسڈی کی ادائیگی کے باوجود کاشتکاروں کو کم ادائیگی کرنے کی بھی تحقیقات کا کہا گیا ساتھ ہی حکومت نے اسٹیٹ بینک کو تمام شوگر ملز سے متعلق جامع رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شوگر ملوں کو دی گئی سبسڈی کی بنیاد ہی غلط تھی، شہزاد اکبر

دوسری جانب ایف آئی اے اور ایس ای سی پی کو کارپوریٹ فراڈ کی تحقیقات کی ہدایت کی گئی، ایس ای سی پی کو ارسال کردہ خط میں ذمہ داران کے تعین اور قانون کے مطابق عمل درآمد کی ہدایت کی گئی۔

خط میں مسابقتی کمیشن سے شوگر مالکان کے اقدامات میں تاخیر پر وضاحت طلب کرنے کے ساتھ کہا گیا کہ وجوہات کا تعین کیا جائے کہ شوگر کارٹل کے خلاف کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا گیا۔

علاوہ ازیں حکومت نے مسابقتی کمیشن کو شوگر کارٹل کی جانب سے ذخیرہ اندوزی اور یوٹیلٹی اسٹورز پر چینی کی عدم دستیابی کی تحقیقات کرنے کی بھی ہدایت کی۔

یہ بھی پڑھیں: شوگر انکوائری کمیشن کی تشکیل کے نوٹیفکیشنز پر حکومت کٹہرے میں

وفاقی حکومت کے مطابق مختلف شوگر ملز کا معاملہ صوبائی محکمہ اینٹی کرپشن کے دائرہ اختیار میں آتا ہے چنانچہ مشیر داخلہ کی جانب سے صوبائی حکومتوں کو ارسال کردہ خطوط میں شوگر کمیشن رپورٹ کے پیش نظر مختلف شوگر ملز کی تحقیقات کرنے کا کہا گیا۔

صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی گئی کہ گنے کے کاشتکاروں سے کم قیمت پر گنا خریدنے والی شوگر ملز کے خلاف قانونی چارہ جوئی اور شوگر ملز کی جانب سے گنا کاشتکاروں کو سود پر قرض دینے کی تحقیقات کی جائیں۔

چینی بحران کی تحقیقات اور کارروائی کا معاملہ

یاد رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے 4 اپریل کو اپنی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔

انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: چینی مافیا-سیاستدانوں کا گٹھ جوڑ، صارفین اور کسانوں کو دھوکا دینے میں ملوث

بعدازاں حکومت چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ کا فرانزک آڈٹ کرنے والے کمیشن کی حتمی رپورٹ 21 مئی کو سامنے لائی تھی جس کے مطابق چینی کی پیداوار میں 51 فیصد حصہ رکھنے والے 6 گروہ کا آڈٹ کیا گیا جن میں سے الائنس ملز، جے ڈی ڈبلیو گروپ اور العربیہ مل اوور انوائسنگ، دو کھاتے رکھنے اور بے نامی فروخت میں ملوث پائے گئے۔

شہزاد اکبر نے کہا تھا انکوائری کمیشن کو مل مالکان کی جانب سے 2، 2 کھاتے رکھنے کے شواہد ملے ہیں، ایک کھاتہ سرکاری اداروں جیسا کہ ایس ای سی پی، ایف بی آر کو دکھایا جاتا ہے اور دوسرا سیٹھ کو دکھایا جاتا ہے جس میں اصل منافع موجود ہوتا ہے۔

معاون خصوصی نے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن کے مطابق اس وقت ملک میں شوگر ملز ایک کارٹیل کے طور پر کام کررہی ہیں اور کارٹیلائزیشن کو روکنے والا ریگولیٹر ادارہ مسابقتی کمیشن پاکستان اس کو روک نہیں پارہا، 2009 میں مسابقتی کمیشن نے کارٹیلائزیشن سے متعلق رپورٹ کیا تھا جس کے خلاف تمام ملز مالکان میدان میں آگئے تھے۔

چنانچہ 7 جون کو وزیر اعظم عمران خان نے شوگر کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں چینی اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف سفارشات اور سزا کو منظور کرتے ہوئے کارروائی کی ہدایت کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں