حال ہی میں پاکستان نے جب اپنے شمال مغربی علاقے میں دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے آغاز کا اعلان کیا تو اس پر ملا جلا ردِعمل دیکھنے کو ملا۔

دریائے سندھ پر کوئی 272 میٹر کی بلندی پر ہمالیہ کی 'قاتل' چوٹی نانگا پربت کے قریب تعمیر کیے جانے والے اس ڈیم کے حامیوں نے اس منصوبے کو پاکستان کو درپیش پانی کے مسائل اور 'توانائی کی مسلسل بڑھتی ہوئی طلب' کے لیے ناگزیر حل کے طور پر پیش کیا ہے۔

حکومتی اور فوجی عہدیداروں کے مطابق 14 ارب ڈالر کی لاگت سے بننے والا یہ ڈیم مسائل کے حل کے ساتھ روزگار کے مواقع بھی پیدا کرے گا تاہم ماہرینِ ماحولیات نے سنگین نتائج کے خدشات کا اظہار کیا ہے اور ماہرینِ ارضیات کا کہنا ہے کہ زلزلے کے فعال زون میں اس طرح کے ایک بڑے ڈھانچے کی تعمیر خطرے کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔

ماحولیات سے متعلق خدشات

اس وسیع ڈھانچے سے نہ صرف ندی کے دونوں اطراف کی آبادیاں تقسیم ہوجائیں گی بلکہ 50 ہزار افراد کو بے گھر ہونا پڑے گا، 4 ہزار سال پرانے آثارِ قدیمہ گنوانا پڑیں گے اور خطے کی آب و ہوا پر تباہ کن اثرات بھی مرتب ہوں گے۔

ماحولیاتی تحفظ کے محکمے نے آب و ہوا اور جنگلی حیات کو درپیش چیلنجوں کا جائزہ لینے اور ان کے خاتمے کے لیے مطالعے کا منصوبہ بنایا ہے۔ دوسری طرف جرمنی کے ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے پہلے ہی ایسے 42 ہزار پتھروں کی نشاندہی کی ہے جنہیں زیرِ آب آنے سے پہلے دوسری جگہ پر منتقل کرنا ہوگا۔

ماہرین کی ایک ٹیم بڑی چٹانوں پر کنندہ نوشتوں کی کٹائی کرے گی اور جنہیں کاٹنا ممکن نہیں ان کی نقول تیار کرے گی اور چھوٹی چٹانوں کو چلاس میں قائم ایک میوزیم میں منتقل کرے گی۔ مزید یہ کہ ڈیم کے باعث موسمی پیٹرن میں بھی غیر معمولی تبدیلیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔

مزید پڑھیے: پانی کا بحران صرف ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہے

گلگت بلتستان کے ادارہ ماحولیاتی تحفظ کے ڈائریکٹر شہزاد شگری نے تھرڈ پول کو بتایا کہ '(اگر ڈیم بنایا گیا) تو اس آبی ذخیرے سے ہر سال تقریباً 0.1 ارب مکعب میٹر پانی بخارات بن کر اڑ جائے گا جس کے باعث خطے میں آب و ہوا متاثر ہوسکتی ہے اور موسمی پیٹرن تبدیل ہوسکتا ہے'۔

سول سوسائٹی کولیشن فار کلائمیٹ چینج کی چیف ایگزیکیٹو عائشہ خان نے کہا کہ 'بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے ہمالیائی گلیشیروں کے پگھلنے میں تیزی آئے گی اور آئندہ 3 دہائیوں میں کافی مقدار میں پانی بہہ جائے گا'۔

عائشہ خان سوال کرتی ہیں کہ 'کیا (ڈیم پر) اتنی رقم خرچ کرنا ٹھیک ہے؟'

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے پانی سے متعلق چیلنجوں کا حل نئے ڈیموں میں نہیں بلکہ پانی کے بہتر انتظام اور کاشتکاری کے طریقوں میں چھپا ہے۔

آبی پالیسی پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے سے متعلق کام کرنے والے حصار فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن سیمی کمال نے کہا کہ 'نئے ڈیموں کی تعمیر کا وقت جا چکا ہے'۔

سیمی کمال نے کہا کہ 1960ء کی دہائی میں پاکستان نے باقی دنیا کی طرح بڑے انفرااسٹرکچر کی تعمیر کی لیکن اب اس ملک کو ماضی میں بنائے گئے ان نظاموں کو بہتر حالت میں رکھنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے، رقم اور وسائل استعمال میں لانا ہوں گے کیونکہ واضح رہے کہ 'نظام میں رساؤ کے باعث دو تہائی پانی پہلے ہی ضائع ہو چکا ہے'۔

سیمی کمال کا کہنا تھا کہ 'ہمیں رساؤ بند کرنا اور موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ رہنا سیکھنا ہوگا'۔ انہوں نے کہا کہ 'مجھے نہیں لگتا کہ نیا ڈیم بنانے کا یہ صحیح وقت ہے اور وہ بھی زلزلے کے فعال زون میں اور جب پاکستان کے پاس پیسے بھی نہیں ہیں'۔

ماہرِ ارضیات اور ہائیڈرولوجی پر عبور رکھنے والے مصطفیٰ گرگیز اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ایمسٹرڈیم میں مقیم مصطفیٰ گرگیز کہتے ہیں کہ 'زلزلے کے ایک فعال علاقے میں اتنے بڑے ڈیم کی تعمیر خودکشی سے کم نہیں ہے'۔

انہوں نے بتایا کہ 'اس خطے میں پچھلے 70 سالوں میں 4 کی شدت کے 900 سے زائد زلزلے کے جھٹکے ریکارڈ کیے جاچکے ہیں'۔

زرعی زمین کا نقصان

عظیم دریائے سندھ کو تابع کرنے کے اس میگا اسٹرکچر کے تصور نے مقامی آبادیوں بالخصوص انڈس ڈیلٹا میں مقیم ان آبادیوں میں خوف پیدا کردیا ہے جو دریا کے بالائی بہاؤ پر یکے بعد دیگرے ڈیموں کی تعمیر کے باعث پہلے ہی اپنی قابلِ کاشت زمینوں سے محروم ہوچکے ہیں۔ دسیوں ہزاروں افراد نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے گھروں کو ڈوبتا دیکھنے پر راضی ہوئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق گزشتہ 2 صدیوں کے دوران ڈیم کی تعمیر اور پانی کی بدانتظامی کے نتیجے میں دریا کے بہاؤ میں آنے والی کمی کی وجہ سے انڈس ڈیلٹا 92 فیصد سکڑ چکا ہے۔

مزید پڑھیے: ڈیلٹا کی اُجڑتی ہوئی حیات

صوبہ سندھ کے ضلع ٹھٹہ کے ایک کسان گلاب شاہ نے تھرڈ پول کو بتایا کہ 'نیا ڈیم تعمیر ہونے کے بعد میں اپنی زرعی زمین سے محروم ہوجاؤں گا'۔

50 سالہ کسان کا کنبہ پہلے ہی 600 ایکڑ زمین سمندری چڑھائی سے کھو چکا ہے اور اب ان کے پاس کیٹی بندر کے قریب صرف 25 ایکڑ زمین رہ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گھر والوں کے مستقبل کی فکر نے ان کی راتوں کی نیندیں اڑا دی ہے۔

پاکستان فشر فوک فورم کے چیئرپرسن محمد علی شاہ نے کہا کہ 'بدین، ٹھٹہ اور سجاول اضلاع میں 35 لاکھ ایکڑ زرعی زمین کو سمندر نگل چکا ہے جس کے باعث 20 لاکھ سے زیادہ افراد کی زندگیاں متاثر ہوئی ہیں'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہمیں ڈر ہے کہ کہیں بھاشا ڈیم کی تعمیر سے تینوں اضلاع مکمل طور پر زیرِ آب نہ آجائیں لیکن ایک لابی چاہتی ہے کہ مزید ڈیم بنائے جائیں'۔

زمین کے تنازعات اور معاوضہ

اگرچہ دیامر میں تعمیراتی کام کی غرض سے مزدور جمع ہونا شروع ہوگئے ہیں لیکن بہت سے ایسے خاندان بھی ہیں جو اب بھی معاوضے کے منتظر ہیں۔ دوسری طرف گنڈولو نالہ نامی ایک چھوٹا علاقہ جہاں بجلی گھر بنائے جائیں گے وہ 2 قبائل اور 2 صوبوں کے مابین تنازع کا مرکز بنا ہوا ہے۔

کوہستان کا قبیلہ ہربن اور دیامر کا قبیلہ تھور دونوں ہی اس زمین کا دعویٰ کرتے ہیں اور انہیں اپنی اپنی حکومتوں کی حمایت بھی حاصل ہے، لیکن تاحال اس مسئلے کا کوئی حل تلاش نہیں کیا جاسکا ہے۔

دیامر کے 31 دیہاتوں کے کم سے کم 50 ہزار افراد 100 کلومیٹر پر پھیلے ڈیم ریزروائر سے متاثر ہوں گے۔

تھور گاؤں کے رہائشی 27 سالہ شفیع اللہ دانش اور ان کے گھر والے ان لوگوں میں شامل ہیں جنہیں معاوضہ نہیں ملا اور جن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ شفیع اللہ نے ڈیم سائٹ پر سخت حفاظتی انتظامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'حکومت کی لاتعلقی کا رویہ ایک دن ہمیں بغاوت پر مجبور کردے گا۔ ہمیں اپنے حقوق کی بات کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے'۔

‘ڈیم ضروری ہے’

دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا خیال پہلی بار 2000ء میں پیش کیا گیا تھا۔ ایک سابق چیف جسٹس جنہوں نے 4 ہزار 500 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والے منصوبے کے لیے عطیات کے ذریعے رقم اکٹھا کرنے کا منصوبہ پیش کیا تھا، ان سمیت متعدد حکومتیں رائے عامہ کو ڈیم کے حق میں تبدیل کرنے کی کوشش کرچکی ہیں۔

ایک طرف جہاں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اربوں ڈالر کے اس منصوبے کے لیے فنڈ جمع کرنا پاکستان کے لیے کڑا امتحان ثابت ہوگا وہیں دوسری طرف منصوبے کے حمایتی پاکستان کی بڑھتی ہوئی توانائی کی طلب اور پانی کے بحران کے باعث ڈیم کی اہمیت اور ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔

مئی میں وزیرِاعظم عمران خان کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں ڈیم سائٹ پر تعمیراتی کام کے آغاز کا خیر مقدم کیا گیا اور اس میں کہا گیا ہے کہ اس منصوبے سے 'سستے نرخوں پر توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد ملے گی'۔

پاکستان کے واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) مزمل حسین بھی انہی خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔

مزید پڑھیے: چندہ برائے ڈیم، مگر ڈیم چندوں سے نہیں بنتے

انہوں نے تھرڈ پول کو بتایا کہ 'دیامر بھاشا ڈیم ملک کی بقا اور معاشی نمو کے لیے بہت ضروری ہے'۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کی تعمیر کے لیے فنڈز کا انتظام واپڈا ہی کرے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایکویفر کا آبی ذخیرہ اگرچہ ڈیم کا ایک متبادل تو ہے لیکن اس عمل کے لیے کم سے کم 15 سال کا عرصہ، توانائی اور پانی نکالنے کے لیے نئے انفرااسٹرکچر کی ضرورت پڑے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ 'چونکہ ہمیں سال میں 3 ماہ کے دوران پانی ملتا ہے اس لیے ہمارے پاس اسے ذخیرہ کرنے کی جگہ ہونی ہی چاہیے'۔

مزمل حسین کہتے ہیں کہ 'ہم (پاکستان) 145 ایم اے ایف میں سے تقریباً 13 ایم اے ایف ذخیرہ کرتے ہیں۔ 10 فیصد کے حساب سے یہ دنیا کا بدترین تناسب ہے'۔

مزمل حسین نے بتایا کہ اس منصوبے کا مالیاتی ماڈل 4 حصوں پر مشتمل ہے جن کے تحت حکومت 20 فیصد فنانسنگ فراہم کرے گی اور باقی کا انتظام واپڈا کی ایکویٹی اور تجارتی فنانسنگ کے ذریعے کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سپلائر کے کریڈٹ معاہدوں کے ذریعے ٹربائن نصب کی جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ 'ڈیم کا ڈیزائن اور آر سی سی ڈھانچہ 2005ء کے زلزلے (7.5 شدت) سے 5 گنا زیادہ شدت کے زلزلے کا مقابلہ کرسکتا ہے۔

مقامی افراد کے لیے معاوضہ

مقامی افراد کے معاوضے سے متعلق چیئرمین واپڈا کا کہنا تھا کہ ڈیم کے لیے درکار 37 ہزار 419 ایکڑ زمین میں سے 85 فیصد زمین حاصل کرلی گئی ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ متاثرہ افراد کی آباد کاری کا منصوبہ بہتر انداز میں ترتیب نہیں دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیے: کیا ہمارے پاس ڈیم بنانا ہی واحد اور آخری حل ہے؟

شہزاد شگری نے کہا کہ حکام منحرف علاقہ مکینوں کو بالائی میدانوں اور چراگاہوں کی طرف نقل مکانی سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ یہ عمل جنگلی حیات کے لیے موزوں نہیں ہوگا اور ان کی پناہ گاہیں بھی سکڑ جائیں گی۔

ڈیم کی تعمیر سے بے گھر ہونے والے اور 'متاثرین کمیٹی' کے رہنما عطا اللہ نے کہا کہ 'ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ حکومت تمام وعدے پورے کرے'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کمیٹی نے حکومت سے رائلٹی کے بجائے 'پانی کے سالانہ چارجز' ادا کرنے کو کہا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس تجویز کے علاوہ دیگر امور بھی اس وقت زیرِ غور ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'ہمارے آباؤ اجداد کی قبروں، ہماری ثقافت، روایات اور تاریخ کا کوئی ازالہ نہیں ہوسکتا ہے'۔

صوبائی تنازعات

اگرچہ میگا منصوبے کو مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے 2010ء میں منظور کیا تھا لیکن قوم پرست جماعتیں، چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدان اور انڈس ڈیلٹا کے لوگوں کو اس پر تحفظات ہیں۔ اس معاملے نے ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے اور سیاسی ہم آہنگی کو متاثر کیا ہے۔

'ضلع ٹھٹہ سے تعلق رکھنے والی سینیٹر سسی پلیجو نے کہا ہے کہ 'ہم جیسے ڈیلٹا کے آبی صارف زیریں باشندے ڈیموں کی تعمیر پر تحفظات رکھتے ہیں کیونکہ یہ تکنیک دنیا سے ختم ہوتی جارہی ہے'۔

انہوں نے پانی کے تحفظ اور اس کے بہتر انتظام کے لیے ڈیموں کے متبادل پر زور دیا، ساتھ ہی 1991ء کے آبی معاہدے (صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاہدہ) پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل نہ ہونے پر انہوں نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر دی تھرڈ پول پر شائع ہوا، جسے بہ اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں