آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعظم راجا فاروق احمد نے کہا ہے کہ 5 اگست 2019 کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے آئینی دہشت گردی کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر ایک بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازع خطہ ہے، جس کی مستقل حیثیت کا تعین اقوام متحدہ کے زیر اہتمام حق خود ارادیت کا استعمال کرتے ہوئے اس کے باشندوں کو خود آزادانہ طور پر طے کرنا ہے۔

راجا فاروق احمد نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ریفرنڈم کے ذریعے کشمیریوں کی رائے کا پتا لگائے بغیر اس کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوئی یکطرفہ کوششیں اس مسئلے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

مزیدپڑھیں: مقبوضہ کشمیر: محاصرے میں سسکتی زندگی کے 100روز

جموں و کشمیر کے وزیراعظم نے کہا کہ اپنے من مانی کے فیصلے کو تسلیم کرانے کے لیے بھارتی فورسز پورے مقبوضہ علاقے میں قابض ہے اور جہاں طویل عرصے سے فوجی محاصرہ جاری اور تمام مواصلاتی رابطوں کا سلسلہ منقطع ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف بھارت کو تسلیم نہ کرنے والے کشمیریوں پر دہشت گردی دوسری طرف غیر قانونی اقدام کی حمایت خریدنے کے لیے بھی خفیہ کارروائیاں جاری ہیں لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ بعض بھارتی سیاستدانوں نے بھی آرٹیکل 370 کی حمایت کرنے سے انکار کردیا۔

راجا فاروق نے کہا کہ گزشتہ 365 دن کے دوران بھارتی فورسز نے 4 خواتین اور 10 کم عمر لڑکوں سمیت 214 کشمیریوں کو شہید کردیا ہے اور کم از کم ایک ہزار 390 افراد شدید زخمی ہوئے۔

جموں و کشمیر کے وزیر اعظم نے ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بیشتر کشمیریوں کو سرچ آپریشن کے دوران جعلی مقابلوں میں فائرنگ کرکے شہید کیا گیا، کم از کم 84 خواتین کے ساتھ ریپ یا بدنام کیا گیا اور اس عرصے کے دوران 13 ہزار 680 افراد کو گرفتار کرکے انہیں بھارت کی بدنام زمانہ جیلوں اور قید خانوں میں منتقل کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی فوجیوں نے گزشتہ ایک برس کے دوران ایک ہزار سے زیادہ مکانات اور باغات کو نقصان پہنچا اور بعض کو مکمل تباہ کردیا۔

راجا فاروق کا کہنا تھا کہ بھارت نے سیکڑوں بھارتی (غیر کشمیریوں) کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ دے کر مسلم اکثریتی ریاست کی آبادکاری کو تبدیل کرنے کا ایک خطرناک منصوبہ شروع کیا ہے اور 2 جون سے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے لیے درخواست دینے کے لیے آن لائن سہولت کا طریقہ کار شروع کیا گیا اور مقبوضہ جموں میں دو لاکھ 90 ہزار سے افراد کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ دیئے گئے۔

مزید پڑھیں: کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کیخلاف دائر درخواستیں سماعت کیلئے منظور

جموں و کشمیر کے وزیراعظم نے کہا کہ ’مجھے پاکستان کو درپیش مسائل کا ادراک ہے لیکن مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے تناظر میں کشمیریوں کے جذبات کو بلند کرنے کے لیے مرکزی کردار ادا کرنا ہوگا‘۔

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر قومی اتفاق رائے تشکیل دینا ضروری ہے، مسئلہ کشمیر پر متفقہ فیصلے وقت کا تقاضہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ خوشی کی بات ہے کہ پاکستان کی تمام جماعتوں نے 5 اگست کو بھارتی اقدام کی مذمت کے لیے متفقہ طور پر "یوم استحصال" منانے کا اعلان کیا لیکن صورتحال محض مذمت سے بالاتر ہونی چاہیے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’میں یقین دلاتا ہوں کہ ہم بھارتی اقدام کی مخالفت ہر سطح پر جاری رکھیں گے تاہم یہ بہترین وقت ہے کہ آزاد جموں و کشمیر حکومت کو عالمی برادری کے سامنے اجاگر کیا جائے‘۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ بھارت یہ سب 70 سال سے کررہا ہے، یہ اس کی غلط فہمی ہے کہ طاقت کے ذریعے کچل سکے گا، اسے جتنی فورسز بھیجنی ہے بھیج دے، کشمیری اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

راجا فاروق حیدر نے کہا کہ کشمیری بھائیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ بنیے (بھارت) کی چال میں نہ آئیں، یہ دہلی کا بنیا انتہائی خطرناک ہے اس کی چال میں نہیں آنا اور ڈٹ کر ان کا مقابلہ کرنا ہے۔

آزاد کشمیر کے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر کی حکومت، عوام اس قسم کی کسی چیز کو نہیں مانتے جبکہ ہم مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ ہی نہیں مانتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے لیکن آرٹیکل 370 کے خاتمے سے کشمیر اس کا اٹوٹ انگ بھی نہیں رہے گا۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ

خیال رہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔

بھارتی آئین کی دفعہ 35 'اے' کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔

آئین میں مذکورہ تبدیلی سے قبل دہلی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں سیکیورٹی اہلکاروں کی نفری کو بڑھاتے ہوئے 9 لاکھ تک پہنچا دیا تھا۔

بعد ازاں مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ کردیا گیا تھا اور کسی بھی طرح کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی گئی تھی جو عید الاضحیٰ کے موقع پر بھی برقرار رہی، تاہم اس میں چند مقامات پر جزوی نرمی بھی دیکھنے میں آئی۔

مزید پڑھیں: ’مسئلہ کشمیر پر تمام آپشنز زیر غور ہیں‘

بھارتی حکومت کے اس غیر قانون اقدام کے بعد کشمیریوں کی جانب سے مسلسل احتجاج بھی کیا جارہا ہے، جبکہ بھارتی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں متعدد کشمیری شہید و زخمی ہوچکے ہیں۔

واضح رہے کہ کشمیر کی خصوصی اہمیت ختم کرنے کے بعد وادی میں ہونے والے انسانی حقوق کے استحصال پر امریکی میڈیا بھی بول پڑا اور اس نے اقوام متحدہ کے کردار پر سوالات اٹھائے تھے۔

سی این این نے اپنی رپورٹ میں سوال اٹھایا کہ ’کیا کشمیر جیسے اس اہم ترین مسئلے پر سلامتی کونسل مزید 50 سال گزرنے کے بعد اپنا کردار ادا کرے گا؟‘

22 اگست کو دنیا میں نسل کشی کی روک تھام کے لیے وقف عالمی ادارے جینوسائڈ واچ نے مقبوضہ کشمیر کے لیے انتباہ جاری کیا تھا۔

عالمی ادارے نے کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں اقوام متحدہ اور اس کے اراکین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بھارت کو خبردار کریں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی نہ کرے۔

سفارتی محاذ پر پاکستان متحرک

بھارتی کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سفارتی سطح پر پاکستان بھی بہت زیادہ متحرک دکھائی دیتا ہے۔

اس ضمن میں نہ صرف پاکستانی وزیر خارجہ دیگر ممالک سے روابط میں ہیں بلکہ اسلام آباد کے مطالبے پر مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرے میں مشاورتی اجلاس بھی منعقد ہوا۔

یاد رہے کہ 22 اگست کو امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا تھا کہ پاکستان، بھارت سے بات چیت کے لیے بہت کچھ کر چکا ہے اب مزید کچھ نہیں کر سکتا، بھارت سے مذاکرات کا فائدہ نہیں ہے۔

انہوں نے اپنے انٹرویو میں نئی دہلی کی موجودہ حکومت کو نازی جرمنی کی حکومت سے تشبیہ دی تھی اور کہا تھا کہ اس وقت 2 ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کی آنکھ میں آنکھ ڈالے ہوئے ہیں، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں