نواز شریف کو سزا سنانے والے جج ارشد ملک کی برطرفی کا نوٹیفکیشن جاری

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی منظوری کے بعد رجسٹرار نے جج ارشد ملک کو نوکری سے برخاست کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کیا — فائل فوٹو / ڈان نیوز
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی منظوری کے بعد رجسٹرار نے جج ارشد ملک کو نوکری سے برخاست کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کیا — فائل فوٹو / ڈان نیوز

لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے جج ارشد ملک کو ویڈیو اسکینڈل میں نوکری سے برخاست کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی منظوری کے بعد رجسٹرار نے جج ارشد ملک کو نوکری سے برخاست کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کیا۔

نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ ارشد ملک کی ریٹائر کرنے کی دائر 2 درخواستیں بھی مسترد کی جاتی ہیں۔

نوٹی فکیشن میں کہا گیا کہ جوڈیشل افسر کے خلاف مس کنڈکٹ کے الزامات کے تحت قانونی کارروائی کی گئی، انکوائری افسر جسٹس سردار احمد نعیم نے جوڈیشل افسر کے خلاف انکوائری میں نوکری سے برخاست کرنے کی سفارش کی۔

رجسٹرار سے جاری نوٹی فکیشن میں مزید کہا گیا کہ ارشد ملک کا انکوائری کے دوران موقف بھی سنا گیا اور رپورٹ انتظامی کمیٹی کو پیش کی گئی، جبکہ انکوائری رپورٹ کے بعد جوڈیشل افسر کو انتظامی کمیٹی کے روبرو ذاتی شنوائی کا موقع بھی فراہم کی کیا گیا۔

واضح رہے کہ 3 جولائی کو لاہور ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنانے والے جج ارشد ملک کو ملازمت سے برطرف کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے جج ارشد ملک ملازمت سے برطرف

اس حوالے سے معلومات رکھنے والے ذرائع نے ڈان نیوز کو بتایا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاسم خان کی صدارت میں انتظامی کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس امیر بھٹی، جسٹس ملک شہزاد احمد خان، جسٹس شجاعت علی خان، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس علی باقر نجفی شامل تھے۔

مذکورہ اجلاس میں احتساب عدالت کے سابق جج اور سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنانے والے ارشد ملک کو عہدے سے برطرف کرنے کی منظوری دی گئی۔

خیال رہے کہ جج ارشد ملک نے 4 دسمبر 2018 کو العزیزیہ اسٹیل ملز کرپشن ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ انویسٹمنٹس سے متعلق دوسرے ریفرنس میں بری کردیا تھا۔

تاہم 6 جولائی 2019 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کا ایک ویڈیو اسکینڈل سامنے آیا تھا، جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے انہیں عہدے سے ہٹا دیا تھا جبکہ اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے انہیں سیشن کورٹ لاہور میں آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی (او ایس ڈی) تعینات کرتے ہوئے معاملے کی انکوائری کا حکم دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: وزارت قانون نے جج ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا

مذکورہ معاملے کی انکوائری کے لیے جسٹس سردار احمد نعیم کو انکوائری جج مقرر کیا گیا تھا، جنہوں نے تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ انتظامی کمیٹی کو پیش کی، تاہم ارشد ملک نے کمیٹی کے سامنے پیش ہوکر اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو من گھڑت اور جھوٹا قرار دیتے ہوئے انہیں تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پریس کانفرنس کے دوران العزیزیہ اسٹیل ملز کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ارشد ملک کی مبینہ خفیہ ویڈیو سامنے لائی تھیں۔

لیگی نائب صدر نے جو ویڈیو چلائی تھی اس میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک، مسلم لیگ (ن) کے کارکن ناصر بٹ سے ملاقات کے دوران نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔

مریم نواز نے بتایا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے جج نے فیصلے سے متعلق ناصر بٹ کو بتایا تھا کہ 'نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، فیصلے کے بعد سے میرا ضمیر ملامت کرتا رہا اور رات کو ڈراؤنے خواب آتے ہیں، لہٰذا نواز شریف تک یہ بات پہنچائی جائے کہ ان کے کیس میں جھول ہوا ہے‘۔

ویڈیو میں ارشد ملک کو اعتراف کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ سابق وزیراعظم نواز کو العزیزیہ ریفرنس میں 'دباؤ اور بلیک میل' ہوکر سزا سنائی اور نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں۔

مزید پڑھیں: ’جج ویڈیو کیس میں ارشد ملک کیخلاف کارروائی کیوں نہیں کی؟‘

تاہم ویڈیو سامنے آنے کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے خود پر لگنے والے الزامات کا جواب دیا تھا اور ایک پریس ریلیز جاری کی تھی۔

جج ارشد ملک نے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے پریس کانفرنس کے دوران دکھائی جانے والی ویڈیو کو مفروضوں پر مبنی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس ویڈیو سے میری اور میرے خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں