پاکستان کو ورثے کے طور پر ملنے والے سول ہسپتال کی تاریخ جانتے ہیں؟

اپ ڈیٹ 08 اگست 2020
1850ء کی دہائی کے آس پاس سول ہسپتال کراچی کی عمارت — برٹش لائبریری آرکائیوز
1850ء کی دہائی کے آس پاس سول ہسپتال کراچی کی عمارت — برٹش لائبریری آرکائیوز

بمبئی سے ایک بیوپاری کراچی پہنچتے ہیں اور ایک سرائے میں قیام کرتے ہیں۔ وہ طاعون کے شکار ہیں۔ سرائے کے 16 سالہ باورچی کو بھی بیوپاری سے وبائی مرض منتقل ہوجاتا ہے۔ اس لڑکے میں 8 دسمبر 1896ء کو مرض کی تشخیص ہوتی ہے، یہ تیسرے طاعون (گلٹی دار طاعون یا سیاہ موت) کا درج ہونے والا کراچی میں پہلا کیس ہوتا ہے۔

نئے سال کی ابتدا کے ساتھ ہی شہر میں تیزی سے پھیلتا طاعون بڑی تباہی مچاتا ہے اور شرحِ اموات میں زبردست اضافہ ہوجاتا ہے۔ حکام صحتِ عامہ سے متعلق کڑے اقدامات اٹھاتے ہیں اور شہریوں کی صحت سے جڑی سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے متعدد فیصلے کرتے ہیں۔ سول ہسپتال کراچی طاعون ہسپتال اور مرکزی صحت مرکز بن جاتا ہے۔

مگر اس بڑے بحران سے نمٹنے کے لیے اس ہسپتال پر اتنا بھروسہ کیسے کرلیا گیا؟ اس بات کا پتا ہم تھوڑا اور پیچھے جاکر لگا سکتے ہیں۔

یہ 1839ء کی بات ہے۔ برطانوی کراچی آتے ہیں۔ ان کی افواج کو عیدگاہ میدان پر تعینات کیا جاتا ہے۔ ان کی طبّی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے رنچھوڑ لائن کوراٹر میں مشن روڈ پر ایک ڈسپنسری قائم کی جاتی ہے۔ تاہم کنٹونمنٹ علاقوں میں افواج کی طبّی و دیگر سہولیات کی عمارات بن جانے کے بعد برطانوی افواج کو کنٹونمنٹ علاقوں میں منتقل کردیا جاتا ہے اور ڈسپنسری عام شہریوں کے حوالے کردی جاتی ہے۔

سول ہسپتال کراچی میں نرسوں کے کوارٹرز
سول ہسپتال کراچی میں نرسوں کے کوارٹرز

ڈسپنسری کو ترقی ملتی ہے اور 1854ء میں ہسپتال کا پہلا بلاک جو کہ اب بھی عمارت کا مرکزی حصہ ہے، 6 ہزار 878 روپے کی لاگت سے تعمیر کیا جاتا ہے۔ یوں سول ہسپتال وجود میں آجاتا ہے۔

اب رخ کرتے ہیں سال 1859ء کا جس میں نئی نئی قائم ہونے والی سند ریلوے کمپنی اس میں مزید توسیعی کام کرواتی ہے اور یوں سول ہسپتال سندھ میں ابتدائی برطانوی اداروں میں سے ایک بن جاتا ہے۔

1876ء میں اے ڈبلیو ہوگس سندھ گزیٹ میں سول ہسپتال کی ابتدائی تاریخ رقم کرتے ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ سول ہسپتال رنچھوڑ لائنز میونسپل کوارٹر میں مشن روڈ کے مغربی رخ پر واقع ہے۔ ہسپتال کی بالائی منزل کافی بڑی اور 2 ونگز پر مشتمل ہے۔ یہاں 6 وارڈ زیریں اور ایک وارڈ بالائی منزل پر بنے ہوتے ہیں جن میں 75 بستروں کی گنجائش موجود ہوتی ہیں۔

1880ء میں برطانوی حکومت ہند ایک ہزار 200 عوامی ہسپتال اور ڈسپنسریاں قائم کرتی ہے۔ سول ہسپتال بھی انہی میں سے ایک ہوتی ہے۔ ہسپتال کے تمام اختیارات کراچی کے سول سرجن کو دیے جاتے ہیں۔ میٹرن انتظامیہ میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ہسپتال کی کلینکل سرگرمیوں اور اخراجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1865ء، 1867ء اور 1869ء میں آنے والی ہیضے کی عالمی وباؤں اور 1866ء، 1868ء اور 1870ء میں آنے والی چیچک کی عالمی وباؤں میں اس ہسپتال نے اپنا خوب کردار ادا کیا تھا۔

وہ کرنی جس سے لارڈ کرزن نے ہسپتال کے جوبلی بلاک کا سنگِ بنیاد رکھا تھا—تصویر بشکریہ نیشنل ٹرسٹ
وہ کرنی جس سے لارڈ کرزن نے ہسپتال کے جوبلی بلاک کا سنگِ بنیاد رکھا تھا—تصویر بشکریہ نیشنل ٹرسٹ

1883ء میں ایک نیوی سرجن جنرل کی جاری کردہ رپورٹ میں اس 2 ونگز پر مشتمل ہسپتال میں 70 بستروں کی گنجائش بتائی جاتی ہے۔ ہر سال قریب 100 بڑے آپریشن کیے جاتے ہیں۔ ایک مریض پر فی دن اوسط خرچہ 3 آنے آتا تھا اور ہسپتال میں داخل شدہ ہر ایک کیس کے علاج معالجے کا اوسط خرچہ سوا 2 روپے خرچ ہوتا۔

تو کیا 'میم صاب' بھی وہیں سے اپنا علاج کرواتی تھی جہاں سے مقامی لوگ کرواتے تھے؟ سرکاری خط و کتابت سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہسپتال میں نسلی بنیاد پر تقسیم موجود تھی، پہلی منزل پر موجود وارڈ یورپی باشندوں کے لیے مختص تھا۔

کورونا وائرس کی موجودہ عالمی وبا کے دوران حکومتِ سندھ نے ہسپتالوں اور وارڈوں کو وبائی مرض کے شکار مریضوں کے لیے مختص کیا ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا، بلکہ کلیکٹر کراچی 1887ء میں اپنی رپورٹ میں بتاتے ہیں کہ طاعون سے متاثرہ افراد کو سول ہسپتال منتقل کیا جاتا تھا۔

'اسی وجہ سے طاعون کا ہسپتال ایک اہم ضرورت بن گئی تھی اور اس کے برابر میں واقع این کے وی گورنمنٹ ہائی اسکول میں دیگر عام مریضوں کو طبّی سہولیات فراہم کی جاتیں جبکہ سول ہسپتال کو طاعون کے مریضوں کے لیے مختص کرلیا گیا۔'

سول سرجن لیفٹیننٹ کرنل جیمز مک کلوگری، سرجن لیفٹیننٹ نب لوک اور کارن وال کو ہسپتال میں مقرر کیا گیا اور انہوں نے 12 فروری 1887ء کو ذمہ داریاں سنبھال لیں۔

کراچی کونوینٹ نے نرسیں فراہم کیں۔ سسٹر ہیئربرٹا ریورنڈ منظوری کے ساتھ بغیر کسی جھجھک کے خدمت کے لیے خاضر ہوئیں۔ مس ہارن کی بھی ستائش کی گئی جو طاعون کے مرض سے ٹھیک ہونے کے بعد ہسپتال لوٹی تھیں۔ ان کی مدد کے لیے زنینا مشن کی 2 کاری (carey) مسز کا ساتھ بھی حاصل تھا۔ سسٹرز یورپی وارڈز میں رہیں اور ان کے کئی ماہ وہیں گزرے۔ 1898ء سے پہلے تک ہسپتال میں 250 بستروں کی گنجائش پیدا ہوگئی تھی۔

توسیع اور فنڈز

طاعون نے سول ہسپتال کراچی کے لیے توسیع کا موقع پیدا کیا۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ، پرشیئن گلف ٹیلی گراف اور نارتھ ویسٹرن ریلویز جیسے بیرونی ذرائع سے ہونے والی فنڈنگ میں مسلسل اضافہ کیا جانے لگا۔ 1990ء میں ایک توسیعی حصے کا منصوبہ تیار کیا گیا اور یورپی افسرانِ بالا کے لیے وارڈ کی تعمیر کے لیے مخیر افراد سے مالی امداد کی درخواست کی گئی۔ اتفاق سے وہ ملکہ وکٹوریہ کے عہدے کا 50واں سال بھی تھا۔

27 اکتوبر 1900ء کو وائس رائے لارڈ کرزن اور لیڈی کرزن ڈائمنڈ جوبلی ونگ کا سنگِ بنیاد رکھنے کراچی پہنچے جس کی تعمیر کے لیے متعدد مخیر افراد اور حکومتِ بمبئی نے فنڈ فراہم کیا تھا جبکہ لارڈ کرزن نے بھی اپنی جیب سے 500 روپے دینے کا اعلان کیا۔

آج آپ جس سول ہسپتال کی عمارت کا نقشہ اور ڈھانچہ دیکھتے ہیں وہ 20ویں صدی کی ابتدا میں ہونے والے تعمیراتی کام کا نتیجہ ہے۔ موجودہ ہسپتال کے زیادہ تر بلاکوں کے تعمیراتی کام کی تکمیل 1905ء میں ہوئی تھی جس پر 5 لاکھ 72 ہزار 649 روپے کی لاگت آئی تھی۔ 7 بلاکوں پر مشتمل یہ ہسپتال شہر میں موجود چند بڑے ہی متاثرکن عمارتوں کے گروپس میں سے ایک شمار ہوتا ہے۔

ڈائمنڈ جوبلی بلاک میں نرسوں کے کوراٹرز بنے ہوئے ہیں جن میں 27 نرسوں کی رہائش کا انتظام موجود ہے۔ اس کے ساتھ ہی مرکزی داخلی حصے کی بائیں جانب ایک ڈسپنسری واقع تھی، جس کا سنگِ بنیاد 1904ء میں لیڈی موئر مکینزی نے رکھا تھا۔ اسی مقام پر مریضوں کا عام معائنہ اور نئے داخل ہونے والے مریضوں کی رجسٹریشن ہوا کرتی تھی۔

نرسوں کے کوارٹر کے آگے مرکزی یا جراحی بلاک واقع تھا جہاں سول سرجن کا کمرہ، معائنہ کے کمرے اور 6 وارڈز (جن میں سے 4 مردوں کے لیے مختص تھے، ایک عورتوں اور چھوٹا اضافی وارڈ بچوں کے لیے مختص تھا) موجود تھے۔ بالائی منزل پر موجود 6 وارڈ یورپی افراد کے لیے مختص تھے۔ آپریشن تھیٹر اسی بلاک کی نچلی منزل سے جڑا ہوا تھا۔

میڈیکل بلاک کی عمارت مرکزی بلاک کی دائیں جانب کھڑی تھی۔ اس کی نچلی منزل پر مفت وارڈ موجود تھے، جن میں سے 2 مسلمانوں، ایک عورتوں، ایک اونچی ذات کے ہندوؤں اور 2 نچلی ذات کے ہندوؤں کے لیے مختص تھے۔ بالائی منزل پر موجود تمام 6 وارڈ فیس دینے والے ہندوستانیوں کے لیے مختص تھے۔

مرکزی بلاک کی بائیں جانب پولیس بلاک تھا جس کی عمارت کے نچلی اور بالائی منزل پر 2، 2 وارڈ موجود تھے۔ سیپٹک بلاک ان بلاکوں کے پیچھے واقع تھا۔ اس میں ایک خصوصی آپریٹنگ روم اور 20 وارڈ موجود تھے۔ 7واں بلاک مردہ خانے، امراض نفسی کے مرکز جس میں زیرِ مشاہدہ شدید ذہنی امراض میں مبتلا افراد کے لیے 4 وارڈ تھے۔ ہاؤس سرجن کے لیے کوارٹرز، باورچی خانے اور دیگر ضروریات کے لیے بنائے گئے ملحقہ کمروں پر مشتمل تھا۔

ہسپتال کی ان عمارتوں کو جدید تقاضوں کے مطابق تعمیر کیا گیا تھا اور سول ہسپتال کراچی ہر طرح سے طبّی ساز و سامان سے لیس اور تمام ضروری سہولیات سے آراستہ صحت مرکز تھا۔

موجودہ کورونا وائرس کی عالمی وبا میں وینٹی لیٹروں کی ضرورت سے ہم بخوبی واقف ہوچکے ہیں۔ وینٹی لینٹر کی ابتدائی شکل 'آئرن لنگز' تھے۔ انہیں سول ہسپتال میں پہلی بار 1940ء میں سول سرجن لیفٹیننٹ کرنل ایمنسن کی رہنمائی میں نصب کیا گیا تھا جو برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن کی سندھ برانچ کے صدر بھی تھے۔ آئرن لنگز کو اس وقت کی طبّی ضرورت کے تحت ایجاد کیا گیا تھا جو سب سے پہلے امریکا میں 1928ء میں متعارف کروائے گئے تھے۔ جدید وینٹی لیٹروں کی عالمی قلت کے باعث چند اداروں میں ایک بار پھر نئی قسم کے آئرن لنگز بنانے کی دلچسپی پیدا ہوئی ہے۔

گزرتے وقت کے ساتھ ہسپتال میں مزید بہتری آتی گئی۔ 1920ء کی دہائی میں یہاں امراضِ چشم کا یونٹ قائم کیا گیا جس کا نام رائے بہادر گوردھن داس موتی لال کے نام پر سیٹھ گوردھن داس موتی لال مہوٹہ آئی ہسپتال رکھا گیا، جنہوں نے اس کے قیام کے لیے 70 ہزار روپے کی امداد دی تھی۔ یہ عمارت مشن روڈ کے سامنے آگے کی طرف واقع تھی۔

تنازعات

یہ ہسپتال تنازعات سے آزاد نہیں تھا۔ 1990ء کی دہائی میں سول ہسپتال میں ایک سرجن کو ایک ہاؤس سرجن، 3 سب اسسٹنٹ سرجن اور 3 کمپاؤنڈروں کی معاونت حاصل ہوتی تھی۔

سول ہسپتال اینڈ نرسنگ ایسوسی ایشن کمیٹی کے پاس ہسپتال کے عمومی جائزے کا اختیار تھا۔ جب سول سرجن لیفٹیننٹ کرنل اسٹیفن نے اپریل 1919ء میں ہسپتال کا چارج سنبھالا تو سول ہسپتال کراچی کی واحد ایسی جگہ بن گئی جہاں اوّل درجے کے جدید طبّی ساز و سامان موجود تھے، ان میں ایکسرے مشینیں بھی شامل تھیں۔ بڑے آپریشن صرف اسی جگہ پر ہوا کرتے تھے۔ غربا کو مفت خدمات، کھانا اور ادویات فراہم کی جاتی تھیں البتہ دیگر افراد سے ان کی آمدن کے لحاظ سے فیس وصول کی جاتی تھی۔

1923ء میں ڈاکٹر روچی رام اے امیسور نے سول سرجن پر فنڈز کی ہیرا پھیری کا الزام عائد کیا۔ میڈیا بالخصوص سند آبزرور نے ذمہ داران کے خلاف انکوائری کا مطالبہ کیا۔ اس وقت کے وزیر صحت عامہ ڈاکٹر بارنجپائے نے انکوائری کمیٹی تشکیل دی جس نے سول سرجن کو الزامات سے بری قرار دیا۔ تاہم ڈاکٹر امیسور انکوائری کے نتائج سے مطمئن نہ ہوئے اور انہوں نے سول سرجن کے خلاف شواہد شائع کروا دیے۔ ان کا مؤقف تھا کہ سول سرجن کے بڑے رابطے ہیں اور انکوائری مناسب انداز میں نہیں کی گئی۔ لیفٹیننٹ کنرل ایل پی اسٹیفن کو حکومتی حلقوں میں بڑی ہی عزت اور قدر کی نگاہ دیکھا جاتا تھا۔

27 اکتوبر 1990ء کو لارڈ کرزن کی کراچی سول ہسپتال آمد کا منظر—تصویر بشکریہ برٹش لائبریری
27 اکتوبر 1990ء کو لارڈ کرزن کی کراچی سول ہسپتال آمد کا منظر—تصویر بشکریہ برٹش لائبریری

نرسنگ اسٹاف نرسنگ ایسوسی ایشن فراہم کرتا تھا۔ حکومت نصف اخراجات ادا کرتی تھی جبکہ بقیہ نصف اخراجات سرکاری و نیم سرکاری تنظیموں کی مالی امداد کے ذریعے پورے کیے جاتے تھے۔ 1936ء میں سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کے بعد سول ہسپتال کراچی کو نرسوں کی تربیت کے حوالے سے ایک خاص حیثیت دی گئی لیکن پھر بھی اختیارات بمبئی پروونشل نرسز کونسل کے پاس تھے اور سندھ کے لیے ایک علیحدہ کونسل کی تجویز پیش کی گئی۔

مارچ 1935ء میں جب فسادات پھوٹے تو ڈیزی منرو نامی میٹرن نے مشتعل ہجوم کا تن تنہا سامنا کیا۔ اگلے سال جب ایک روڈ حادثے کا شکار بننے والے شخص کی پوسٹ مارٹم کے خلاف سیکڑوں کی تعداد میں مظاہرین نے ہسپتال پر دھاوا بولا تو 3 سارجنٹ اور 30 کونسٹیبل کو طلب کیا گیا۔

1941ء میں انڈین میڈیکل کونسل نے میڈیکل کی تعلیم کا یکساں معیار متعارف کروانے کا عہد کیا۔ ڈاکٹر ہوم اسٹیڈ کی انتھک کوششوں کے باعث حیدرآباد کے موجودہ میڈیکل اسکول کو بمبئی یونیورسٹی سے منسلک کرتے ہوئے ڈگری کالج کا درجہ دے دیا گیا۔ تاہم جائزہ کمیٹی نے پایا کہ افرادی قوت ناکافی اور ہسپتال میں سہولیات کا فقدان ہے۔ یونیورسٹی نے جب 1944ء میں اپنی عارضی منسلکی ختم کرنے کی دھمکی دی تو کالج کو کراچی منتقل کردیا گیا۔

اس وقت کے وزیرِ صحت ڈاکٹر یرمن داس وادھوانی نے جامع منصوبے ترتیب دیے اور کالج 31 دسمبر 1945ء کو حیدرآباد سے کراچی منتقل کردیا۔ کالج کے لیے عارضی طور پر مشن روڈ پر واقع این جے وی ہائی اسکول کی عمارت استعمال کی گئی۔ دوسری طرف اس وقت کے گورنر سندھ سر ہوگ ڈاؤ نے کالج کی نئی عمارت کا سنگِ بنیاد رکھا۔ کالج کا نام بدل کر ڈاؤ مڈیکل کالج رکھا گیا اور نومبر 1946ء میں اس کالج نے نئی عمارت میں اپنا کام شروع کردیا۔

سول ہسپتال کراچی کو ڈاؤ میڈیکل کالج کی تدریسی ہسپتال کا درجہ دیا گیا اور یوں اس کی اہمیت مزید بڑھ گئی۔

دوسری جنگِ عظیم کے دوران کراچی بمبئی ملٹری سیکٹر میں طبّی سامان کی ترسیل کی ذمہ داری ذیلی ڈپو کے طور پر ملیر میں واقع 181ویں جنرل (ملٹری) ہسپتال نے حاصل کرلی تھی۔ جب جنگ اختتام کو پہنچی تو اس ہسپتال کا کافی سازوسامان سول ہسپتال کراچی نے حاصل کرلیا۔

1947ء تک سول ہسپتال کراچی طبّی سازوسامان سے لیس اور ایک ہر طرح سے مکمل تدریسی ہسپتال بن چکا تھا اور عوام کو بہترین سہولیات فراہم کر رہا تھا۔ تو جناب یہی ہے وہ طبّی ادارہ جو 1947ء میں ہمارے ورثے میں آیا۔


یہ مضمون 19 جولائی 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں