'کراچی میں بجلی کی صورتحال مزید خرابی کے راستے پر'

اپ ڈیٹ 10 اگست 2020
کے الیکٹرک نے باقاعدہ طور پر وفاقی حکومت کو آگاہ کیا ہے کہ وہ گیس اور فرنس آئل کی مد میں ادائیگی کی پوزیشن میں نہیں۔ رائٹرز:فائل فوٹو
کے الیکٹرک نے باقاعدہ طور پر وفاقی حکومت کو آگاہ کیا ہے کہ وہ گیس اور فرنس آئل کی مد میں ادائیگی کی پوزیشن میں نہیں۔ رائٹرز:فائل فوٹو

اسلام آباد: کراچی میں بجلی کی فراہمی کی صورتحال مزید خراب ہونے لگی ہے کیونکہ سبسڈیز کی عدم فراہمی اور حکومت کی جانب سے ٹیرف فریز کرنے کی وجہ سے کے الیکٹرک کے مالی معاملات حد سے زیادہ خراب ہوگئے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینئر سرکاری ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ کے الیکٹرک نے باقاعدہ طور پر وفاقی حکومت کو آگاہ کیا ہے کہ وہ سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) اور پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کو گیس اور فرنس آئل سپلائی کی مد میں ادائیگی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اہم اسٹیک ہولڈرز کے ایک اجلاس میں وزیر توانائی عمر ایوب خان، گورنر سندھ عمران اسمٰعیل، وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر، کے ای اور دیگر اداروں کی انتظامیہ اور صوبائی نمائندوں نے صورتحال کا جائزہ لیا اور زور دیا کہ ایک نا سنبھلنے والے بحران کو سیاسی تحفظات کے بغیر پیشہ ورانہ مہارت سے درست کرنے کی ضرورت ہے۔

رپورٹ کے مطابق ندیم بابر نے فون کالز کا کوئی جواب نہیں دیا اور عمر ایوب سے رابطہ نہیں ہوسکا۔

مزید پڑھیں: کراچی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ، قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے

تاہم کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو سید مونس علوی نے کہا کہ وفاقی حکومت کے ساتھ مثبت بات چیت ہوئی ہے اور امید ہے کہ صورتحال بہتری کی طرف گامزن ہوگی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت کو ٹیرف میں اضافے کی اطلاع دینی چاہیے تاکہ کے ای صارفین اور قومی بجلی کے نرخ برابر ہوں۔

قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے کمپنی کی اعلیٰ انتظامیہ کے خلاف دائر تازہ ترین مقدمات کے بعد ایس ایس جی سی ایل کو بلوں کی عدم ادائیگی کے نتیجے میں ایل این جی سپلائی فوری طور پر بند ہوجائے گی۔

ایس ایس جی سی ایل فی الحال ایک ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے یومیہ 200 ملین کیوبک فٹ گیس فراہم کررہا ہے، اس کا مطلب ہے کہ 'کے ای' کی کل پیداوار میں تقریبا ایک تہائی کمی واقع ہوگی۔

گویا یہ بھی کافی نہیں ہے، پی ایس او بھی 22 کھرب روپے سے زائد کے گردشی قرض اور سعودی عرب کی طرف سے تاخیر سے ادائیگیوں پر تیل کی فراہمی معطل ہونے کے علاوہ 350 ارب روپے سے زائد قابل وصول رقم نہ ملنے کی وجہ سے مفلوج ہوگیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: لوڈ شیڈنگ، بجلی کی طویل بندش کے باعث جنریٹرز کی فروخت میں اضافہ

کے ای کے خلاف ایس ایس جی سی ایل کا بقایا بل تقریبا 14 ارب روپے ہے اور یہ ماہانہ 4 ارب روپے کی شرح سے بڑھ رہا ہے۔

ادھر پی ایس او، کے ای کو ماہانہ 6 سے 7 ارب روپے کا ایندھن فراہم کرتی ہے۔

اگر کے الیکٹرک ڈیفالٹ ہوجائے تو اس کے اثرات پیٹرولیم اور بجلی دونوں عوامی شعبے کے اداروں پر پڑ سکتے ہیں۔

اس طرح وزارت توانائی کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ کے الیکٹرک کی اپنے ایندھن کے بلز ادا کرنے میں نا اہلی پورے توانائی کے شعبے کے لیے 'ایک مثال' بن سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک کو فیول سپلائی کرنے والوں کی مشکل مالی صورتحال کا سامنا ہے تاہم وفاقی کابینہ کے حالیہ فیصلے سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے جس میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے ذریعے مقرر کردہ تقریبا 2.39 روپے فی یونٹ اضافے کے بارے میں نوٹیفکیشن کو مؤخر کیا گیا جس کی وجہ سے عملی طور پر آمدنی کے متوقع بہاؤ کا راستہ روکا گیا۔

نیپرا کے فیصلے کی بنیاد پر کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے مارچ میں کے ای ٹیرف میں اوسطا 2.39 روپے فی یونٹ اضافے کی منظوری دی تھی تاکہ اسے قومی بجلی کے نرخوں کے برابر بنایا جاسکے۔

یہ ٹیرف تقریبا 3 سال سے زیر التوا تھا اور یہ گرمیوں میں ماہانہ تقریبا 3 ارب روپے بنتا ہے جو کم ہوکر 2 ارب ہوجاتا ہے اور اس کا اوسط تقریبا 2.5 ارب روپے آتا ہے۔

اس وقت کورونا وائرس کی صورتحال کی وجہ سے اس کا اطلاق روک دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: نیپرا کا کراچی میں لوڈشیڈنگ کی انکوائری کیلئے 4 رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ

ای سی سی نے رواں سال یکم جولائی سے اس پر عمل درآمد کے لیے ایک بار پھر پیش قدمی کی تھی لیکن سیلاب اور لوڈشیڈنگ کے دوران وفاقی کابینہ اور وزیر اعظم عمران خان نے کراچی سے پی ٹی آئی کے اراکین کی خواہش پر اسے دوبارہ روک دیا تھا۔

گورنر ہاؤس کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے سبسڈی کی عدم ادائیگی اور ٹیرف منجمد کرنے سے نہ صرف کے الیکٹرک بلکہ دیگر تقسیم کار کمپنیوں میں بھی نقد کے بہاؤ کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں قرضوں کی لاگت کی مالی اعانت کے لیے دوسرے درجے کے ٹیرف میں اضافہ ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ کے الیکٹرک حکومت سے 240 ارب روپے قابل وصول ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، جس میں سے تاخیری ادائیگی کے 110 ارب روپے اور صرف کراچی واٹر بورڈ کے 32 ارب روپے شامل ہیں، اگرچہ اس معاملے میں تنازع چل رہا ہے کہ آیا وفاقی یا صوبائی حکومت کو یہ بل ادا کرنا چاہیے تاہم اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ یہ رقم کے الیکٹرک کو ادا کی جانی ہے۔

کے الیکٹرک کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ایس ایس جی سی ایل تاخیر سے ادائیگی سرچارج کی مالی اعانت اور اس کے دیگر معاملات کو جاری رکھنے کے لیے کے الیکٹرک سے تقریبا 18 فیصد مارک اپ لے رہی ہے اور اس کے نتیجے میں بالآخر صارفین سے اضافی ٹیرف وصول کیا جائے گا۔

رواں سال کے لیے وفاقی حکومت نے بجٹ میں 15 ارب روپے ٹیرف فرق کی سبسڈی کے طور پر رکھا ہے تاکہ ٹیرف کو ایک جیسا کیا جاسکے اور اس کے درمیان فرق 72 ارب روپے کے مقابلے میں 6 ارب روپے ماہانہ کی شرح سے رکھا جائے۔

اسی طرح کے الیکٹرک کو 30 جون 2020 کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران اس کے 48-60 ارب روپے کے دعوے کے مقابلے میں 25 ارب روپے بطور ٹیرف سبسڈی دی گئی تھی۔

موجودہ وقت میں کے ای ٹیرف تقریبا تمام تجارتی کٹیگریز یعنی عارضی رہائشی، تمام بلک سپلائی ٹیرف، پبلک لائٹنگ اور صنعتی احاطے سے وابستہ رہائشی کالونیوں اور تمام صنعتی محصولات کے لیے ملک کے باقی حصوں سے 2.89 روپے فی یونٹ (کے ڈبلیو ایچ) کم ہے۔

رہائشی صارفین کے لیے کے الیکٹرک کا ٹیرف باقی ملک کے مقابلے میں 1.65 روپے فی یونٹ کم ہے۔

اس کا کراچی میں 5 کلو واٹ سے بھی کم بوجھ والے تجارتی صارفین کے لیے ٹیرف ملک کے دیگر حصوں سے 1.09 روپے فی یونٹ کم ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں